راج کا مطلب حکمرانی ہوتاہے۔ راج کرنے والے حکمران کو راجہ کہتے ہیں۔ بڑے حکمران کو مہاراجہ کہتے ہیں تقسیم ہند سے پہلے تقریباً چھ سو چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں جن کے حکمران راجے مہاراجے اور نواب وغیرہ کہلاتے تھے۔ ان ریاستوں کے راجے مہاراجے اپنی اپنی ریاستوں کی حد تک بہت ساری باتوں میں اختیارات کے حامل ضرور تھے لیکن ہندوستان پر چونکہ ملکہء برطانیہ کا راج تھا اس لئے حقیقی خود مختاری اُس کے پاس تھی۔ باقی سینکڑوں بڑے چھوٹے راجے مہاراجے سلطنت برطانیہ کے باجگذار تھے۔ یعنی تاج برطانیہ کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے علاقوں اور آبادیوں پر اُن کا راج بھی مسلط تھا۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ جہاں مجموعی اور عمومی سطح پر کسی کی بات، احکامات یا دھونس دھاندلیاں مانی جائیں وہاں اُسے اُس کے راج سے تشبہہ دی جاتی ہے۔
صرف حکمران ہی ر اج نہیں کرتے۔ سوچ اور فکر بھی ر اج کرتی ہے۔ اچھی سوچ وفکر بھی راج کرتی ہے۔ بری سوچ و فکر بھی راج کرتی ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو عمومی سوچ اور فکر مختلف تھی۔ اُس وقت لوگوں کی اکثریت پاکستان کے فائدے اور نقصان کے با رے میں سوچتی تھی۔ میں جب ایک بچہ تھا اور اسکول کے بعد گلی کے اُن بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا جو میرے اسکو ل میں ہی پڑھتے تھے تو ظاہر ہے ہمیں بڑی بڑی باتوں کا کوئی علم نہ تھا۔
یہ اس وقت کے کوئٹہ شہر کی بات ہے۔ گلی میں کھیلنے والے بچوں کی مائیں پردے کی اوٹ میں گھروں کے اندر سے بچوں پر کھیل کود کے دوران نظر رکھے رہتی تھیں۔ محلے میں کھیلنے والے بچوں کو صرف ایک گھر کے بچوں کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ بچے ہمارے ساتھ کھیلنے کی خواہش کے باوجود دیگر بچوں کے والدین کی طرف سے بھی عائد پابندیوں کے باعث گھر سے باہر نکل کر ہمارے ساتھ نہیں کھیل سکتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن میں نے اپنی ماں سے پوچھا تھا "ہم ان بچوں کے ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتے؟ " مجھے اپنی ماں کا تقریبا ً ساٹھ سے زیادہ برسوں پرانا جواب اس طرح یادہے جیسے کل کی بات ہو۔
انھوں نے کہا تھا " ان بچوں کا باپ کچہری میں ملازم ہے اور ان کے گھر میں رشوت آتی ہے" یہ وہ وقت تھا جب نفرتیں صرف برائی سے کی جاتی تھیں۔ پاکیزہ سوچ کا راج تھا۔ وہ سوچ جوآہستہ آہستہ مفقود ہوتے ہوتے اب بالکل ناپید ہو چکی ہے۔ وہ سوچ جس کا حامل اب ایک ذہنی مریض سمجھا جاتا ہے۔۔ پہلے دُور دراز کے رشتے دار بھی اپنے کہلاتے اورتھے اب قریب کے رشتے دار بھی پرائے ہوگئے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اب رشتوں سے زیادہ چیزیں اپنی ہوگئی ہیں۔
پہلے مجموعی اور عمومی سوچ کے نزدیک عزت اور کردار کسوٹی کا درجہ رکھتے تھے آج مجموعی اور عمومی سوچ کا معیار آرام اور آسائش بن چکے ہیں۔ چونکہ کوئی بھی معاشرہ قوم اور ملک کسی نا کسی مجوعی یاعمومی سوچ کے تابع رہتے ہیں اس لئے اس مخصوص معاشرے قوم یا ملک کے لوگوں کی مجموعی اور عمومی سوچ وفکر کا تجزیہ کرکے ہی پتہ چلے گا۔ کہ مروجہ سوچ وفکر کسی علم کی مظہر ہے یا جہل کی۔ اگر کوئی معاشرتی سوچ مصدقہ علمی معیاروں پر پورا اترتی ہے تو اس سوچ اور فکر کا حامل معاشرہ انسانیت کی ترقی فلاح اور بقاء کا ضامن ہوگا۔
اس کے برعکس سوچ اور فکر کا حامل معاشرہ پسماندگی، ذلت اور رسوائی کا شکار معاشرہ ہوگا۔ اس تناظر میں اگر جدید دنیا کے حالات وواقعات کو دیکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ دنیا آج بھی اسی جہالت درندگی، وحشت اور بربرتیوں کا شکار ہے جن کے لئے قرون وسطیٰ بدنام تھا۔ جب جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج تھا۔ جب ایک دوسرے سے فرسودہ نظریات کی بنا پر جینے کا حق چھین لیا جاتا تھا۔ یعنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اور لڑکوں کو زندہ رہنے دیا جاتا تھا۔
جب سائنس اور تحقیق کی دریافتیں اگر مروجہ مذہبی رحجانات سے میل نہ کھاتیں تو ان سائنسدانوں سے زندگی کا حق چھین لیا جاتا تھا۔ آج بھی صرف اسرائیل کو حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک چاہے روا رکھ سکتا ہے۔ ہندستان کو یہ حق حاصل ہے کہ پورے کشمیر کو ایک عقوبت خانے میں بدل کر رکھدے۔ اقوام متحدہ تک جو انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کے علاوہ ان حقوق کی محافظ بھی ہے فلسطین، کشمیر اور برما میں انسانیت کے خون اور تذلیل پر ایسی چپ ساد ھے ہوئے ہیں جیسے یہ سب کچھ اس کی باقاعدہ مرضی اور رضا سے ہورہا ہے۔ یہ سب باتیں دنیا کے اپنے ہی قائم کردہ معیار وں اور کسوٹیوں کے خلاف ہیں۔
امریکہ افغانستان کو بھوکہ ماررہاہے اور مجال ہے کہ مہذب دنیا اور جدید تہذیب کا کوئی ٹھیکدار آواز اٹھائے۔ ہندوستان میں باقاعدہ ہندو جتھو ں سے اجتماعی طور پر سرعام حلف لیا جاتاہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کرنا۔ دنیا بھرکی معروف درسگاہوں سے سند یافتہ حضرات وخواتین انسانیت کے خلاف جاری جگہ جگہ ایسے روز مرہ کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں جنہیں کسی طور پر قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے باوجود حق وانصاف کے نام پر قائم کئے گئے بین الاقوامی ادارے اپنی ڈگر سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں ہیں۔
ممکن ہے بہت سارے لوگوں کو پتہ نا ہوکہ ابوجہل کو پہلے ابو لعلم کہا جاتا تھا کیونکہ بعثت رسول ؐ پاک سے پہلے مکہ کے کفار سرداروں میں اس کا طوطی بولتا تھا جوجہالت کا منبہ تھا۔ اسلام نے جب علم کی روشنی پھیلانا شروع کی تو اُس کی جہالت بے نقاب ہوگئی اور وہ ابو جہل بن گیا۔ جہالت کا مطلب انسانیت کی ان بیہودہ بنیادوں پر تقسیم ہے جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لوگوں کی وہ تقیسم جس کے لئے دلیل انصاف اور مساوات کی بجائے دھونس، دھاندلی، ظلم وبربریت اور نفرت وحقارت جیسے سلفی جذبات وخیالات کو بنیاد بنایا جائے اسکے مقابلے میں علم، عالمین کے رب کی ربوبیت اور رحمت العالمینؐ کی اطاعت کا نام ہے۔ انسانیت کی تقسیم کا نہیں بلکہ اُسے مستحکم کرنے کا نام ہے۔ کسی ایک طبقے یا نسل کی خوشحالی کی بجائے پوری انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کانام ہے۔
۴۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ سب کا رب ہے۔ چاہے اُسے کوئی مانے یانا مانے وہ اُس کا رب ہے وہ روزانہ سورج سب کے لئے نکالتاہے، ہوائیں سب کے لئے چلاتاہے، بارش سب کے لئے برساتا ہے کیونکہ وہ ہرچیز پرقدرت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا عالم بھی ہے۔
قرآن کا اعلان ہے کہ "کیا علم والا اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں؟ " نہیں ہر گز نہیں۔ ہمارے اپنے ہاں طرح طرح کی بدعنوانیاں گھروں سے لر کر برادریوں اور بردریوں سے لے کر اداروں تک میں سرائیت کرچکی ہیں۔ یہ سب باتیں علم نہیں، جہل کو ظاہر کرتی ہیں ان باتوں سے تویہی ظاہر ہو تاہے کہ دنیا بھر میں اس وقت جہالت کا راج ہے جبکہ اکسیویں صدی کی چکاچوند میں بے حیائی کا عروج اور معلوما ت عامہ کا بڑھتا ہوسیلاب، اسے علم واگاہی کے دور سے تعبیر کررہاہے۔ جو علم کردار کو نہیں بدلتا وہ علم نہیں جہل ہوتاہے تبھی توایمان کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کو شر ط بنایا گیا ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ دنیا پر علم کا راج ہے یا جہالت کا؟ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین۔