یہ بات ہم سب کے تجربے میں شامل ہے کہ آدمی جس چیز کو دیکھتا ہے یا جس بات کا مشاہدہ کرتاہے۔ اسے فوراً سمجھنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشاہد ہ صرف دیکھنے تک محدود نہیں ہوتا۔ حواس خمسہ کے سارے عوامل مل کرمشاہدے کو مکمل کرتے ہیں۔ یعنی دیکھنے کے علاوہ سننا، چھونا، چھکنا اورسونگنا سب ملکر کسی مشاہدہ کو مکمل کرتے ہیں جبکہ عام طور پر مشاہد ے کو دیکھنے سے تعبیر کیا جاتاہے۔
آدمی کی عقل اسکے مشاہدے کو سمجھنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ مشاہدہ سمجھ پیدا کرتا ہے اور یہ ابتدائی سمجھ مشاہدوں کو جوڑ جوڑ کر ادراک حاصل کرتی ہے۔ جو چیزیں نظر آتی ہیں اُن کی حقیقت نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبیعاتی علوم مادی علوم کہلاتے ہیں کیونکہ مادے کی حقیقت حواس خمسہ کے ذریعے ثابت ہوتی ہے اور جو باتیں حواس خمسہ کے ذریعے ثابت نہ ہوسکیں وہ مابعد لطبعیاتی باتیں کہلاتی ہیں جن کی حقیقت طبعی یا سائنسی علوم تسلیم نہیں کرتے۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ دیکھنا، چھونا، سننا، چھکنا اورسونگھنابذات خود نظر آتے ہیں نہ سمجھ میں آتے ہیں۔ آنکھیں خود نہیں دیکھتیں، ہم آنکھوں کے ذریعے دیکھتے ہیں۔ کان خود نہیں سنتے ہم کانوں کے ذریعے سنتے ہیں۔ ایک لا ش کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں، کان زبان اورہاتھ بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے ذریعے دیکھنے سننے چھکنے، چھونے اور سو نگھنے والا نہیں ہوتا۔ خواب میں آدمی چلتا پھرتابھی ہے مختلف مقامات میں رہتا بھی ہے، باتیں کرتا ہے اورسنتا بھی ہے لیکن آنکھیں بندہوتی ہیں، زبان ساقط اورکان بہرے کیونکہ آدمی گہری نیند میں ہوتاہے اس مطلب یہ ہے کہ حواس خمسہ مشاہدے کو مکمل کرنے کے باوجود اُسکے پیچھے پوشیدہ لیکن کار فرماحقیقتوں کو سمجھ ضرور سکتے ہیں لیکن دیکھ نہیں سکتے۔
آدمی جدیدترین دُور بینوں کی مددسے ایک ایٹم کے اندر مثبت اورمنفی حرکتوں کودریافت تو کرسکتاہے، انھیں ننگی آنکھوں سے دیکھ ہر گز نہیں سکتا۔ یعنی ان کا مشاہدہ نہیں کرسکتا۔ یہیں سے آدمی کے اندر مشاہدے اور سمجھ کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ یہ جنگ آدمی اپنی پیدائش سے لیکر آج تک لڑرہاہے اور انگت معجزاتی اور کرشماتی دریافتوں کے باوجود مشاہدے اور سمجھ کے درمیان جاری جنگ میں کسی کی ہار جیت کا فیصلہ نہیں کرسکا۔
آدمی مشاہدے کے بغیر جان چکاہے کہ ہماری زمین ہماری اپنی کہکشاں کے اندر ایک نقطے کا درجہ رکھتی ہے جبکہ دیگر اربوں کہکشایوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تواس حقیر اورکمترین درجے سے بھی نیچے چلی جاتی ہے۔ اس سب کے باوجود جان ہے توجہان ہے کے مصداق میرے لئے اس کے بے کراں کائنات کا وجود میری زندگی تک ہی محدود رہتاہے اسلئے کہ
اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نا پایا توکدھر جائیں گے
اس پس منظر میں اب ہم مشاہدے اورسمجھ کے درمیان جنگ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جوروزازل سے جاری ہے۔ یہ صحیح ہے کہ خالی مشاہدہ کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ کسی نہ کسی طرح کی سمجھ سے ملحق نہ ہوکیونکہ مشاہدے اورسمجھ کا چولی دامن کاساتھ ہے۔ مشاہدہ سمجھ پیداکرتاہے اورسمجھ مشاہدے کو بامعنی بناتی ہے۔ انسانی ترقینے ایجادات اورخیرہ کن تکنیکی معجزات سے جومقام حاصل کرلیا ہے وہ مادی حقائق اورانکے درمیان اٹل اورناقابل تردید اصولوں کو جاننے کی بناپرحاصل کیاہے۔ آہستہ آہستہ اُن اصولوں کی دریا فت نے آدمی کے مشاہدے اورسمجھ کے باہمی تعلق کولازم وملزوم جان کر تسخیر کائنات کے عمل کواب حیران کن حدتک تیز کردیا ہے۔
میری نسل کی گذشتہ ساٹھ سترسالوں کی زندگی میں ان سائنسی ایجادات اورتکنیکی معجزات کے ذریعے جس قدر، تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، انسانی معاشرت اورتہذیب میں اتنی تبدیلیاں پوری انسانی تاریخ میں مجموعی طور پر بھی رُونما نہیں ہوسکی تھیں۔ اس کے باوجود اُس مادے کی حقیقت حواس خمسہ کی گرفت سے پہلے بھی باہر تھی اور آج بھی باہر ہے۔ آدمی کی کسمپرسی اور بے چارگی کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتاہے کہ انسان آج بھی اپنے اس حیران کن ارتقاکو بندر سے منسوب کرنے پر مجبورہے اور کائنات کے روزافزوں پھیلائو اور ارتقاء کو ایک عظیم دھماکے سے۔
ان دونوں باتوں کاسرپیر آج تک واضح تو کیا ہونا تھا۔ سمجھ تک میں بھی نہیں آسکا۔ انسان کی بدقسمتی کااندازہ صر ف اس بات سے ہی لگایاجاسکتاہے کہ ایک طرف چاند رپرکمندیں ڈالنے والاانسان دوسری طرف آج بھی کنویں میں ڈول ڈال رہاہے۔ سات ارب لوگوں میں سے کم از کم ایک چوتھائی لوگ آج بھی صحت و صفائی کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ وہ ساری زندگی بھوک اوربیماری سے لڑنے میں گزاردیتے ہیں ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا نے کے لئے انفرادی و اجتماعی طور پر کوشاں رہتے ہیں۔
وعظ تنگ نظر نے مجھے کافر جانااور کافریہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں گذرنے والا لمحہ فوراً ماضی بن جاتاہے اور غائب ہوجاتاہے اور آنے والالمحہ مستقبل میں غائب رہتاہے اسکے باوجود انسان اُن کا انکاری نہیں ہوتا کیونکہ اب ایکشن ری پلے کے ذریعے انسان گذرئے ہوئے لمحوں کو قید کرنے کے قابل ہوگیا ہے اورانھیں ماضی قریب کے اندھیروں سے کھینچ کردوبارہ حال کے مشاہدے میں لاسکتاہے۔
جب سے وڈیو ریکاڈنگ ایجاد ہوئی ہے اربوں کھربوں لمحے محفوظ کئے جاچکے ہیں جو وقت ضرورت پیش بھی کردیئے جاتے ہیں۔ یہ بات پہلے مشاہدے میں نہیں آئی تھی لیکن حواس خمسہ کے علاوہ فراہم کی گئی وحی کے ذریعے سمجھ کے عین مطابق تھی۔ ایک عام ذہن اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ناساکی تحقیق کے مطابق ہماری اپنی کہکشاں جو کڑوروں کہکشائوں میں سے ایک کہکشاں ہے اس کے اندر بھی جس طرح کی زمین پر ہم رہتے ہیں اس طرح کی زمینوں کی تعدادایک ارب سے زیادہ ہے۔
چودہ سو سال پہلے رب العالمین کامعنی سمجھ سے باہر تھا لیکن اب مشاہدے نے بہت ساری باتیں آشکار کردی ہیں۔ اس سب کے باوجود مشاہدے کی عاجزی صرف اس بات سے ہی ظاہر ہوجاتی ہے کہ ہر بات اور ہرچیز کو ٹھیک ٹھیک نشانے پردیکھنے والی دوآنکھیں جو کچھ دیکھنے سے آج بھی قاصر ہیں۔ اسکے باوجود خود سرانسان غائب کا انکاری ہے۔ مادے کی حقیقت کو مانتاہے لیکن مادے کو خلق کرنے والے کی حقیقت پر ایمان نہیں لاتا۔ کیوں؟
اس لئے کہ یہ مشاہدے اورسمجھ کی جنگ ہے۔ یہ جنگ زمین پر انسان کے اترنے کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ یہ جنگ انسان نے نہیں شیطان نے شروع کی تھی۔ یہ جنگ جاری ہے اورقیامت تک جاری رہے گی۔ اس جنگ میں ہار جیت کافیصلہ حشر کے دن ایکشن ری پلے کے ذریعے مشاہدے اور سمجھ کے درمیان مکمل ہم آہنگی سے ہوگا۔ اُس وقت ہوگا جب مشاہدے اورسمجھ کے درمیان سے شیطان نکل جائے گا۔ وہ شیطان جو سمجھ پر طرح طرح کے پردے ڈال دیتا ہے۔