Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Musa Raza Afandi/
  3. Taasub Ki Tabahiyan

Taasub Ki Tabahiyan

فیزوز اللغات کے مطابق تعصب ایک مذکر لفظ ہے جس کا مطلب بے جاحمایت یا طرفداری بتلایا گیا ہے۔ کسی شخص، بات یا چیز کا طرفدار یا مخالف ہونا بذات خود کوئی اچھی یا بری بات نہیں ہے لیکن بے جا حمایت یا طرفداری ضرور ایک بری بات ہے۔ اب یہ آدمی کی سمجھ پر منحصرہے کہ وہ کب جائز حمایت سے نکل کر تعصب کے دائرے میں داخل ہو تا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرفداری یا حمایت کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اللہ اور رسول کے فرمانوں اورا حکاما ت کی جتنی بھی طرفداری کی جائے کم ہے کیونکہ یہی ایمان کا تقاضہ ہے ۔

تعصب کے حامل افرادصرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعصب کے معاملے میں لوگوں کی درجہ بندی نہیں کی جاسکتی کیونکہ تعصّب سے کسی کا مبّرا ہونا ا گر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اسلئے یہ ایک عام مشاہد ہے کہ ہر قسم کے لوگ چاہے وہ کالے ہو ں یا گورے، صحت مند ہوں یا بیمار، امیرہوں یا غریب پڑھے لکھے ہوں یا اَن پڑھ، دیہاتی ہوں یا شہری، غرضکہ کسی بھی رنگ نسل یا علاقے کے لوگ ہو ں کہیں نا کہیں اور کبھی نا کبھی کسی نا کسی چھوٹے بڑے تعصّب کا شکار رہتے ہیں حتیٰ کہ مذہب واخلاقیات کا درس دینے والے بھی متعصب ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی عزت دار اور محترم لو گ بھی چھوٹے چھوٹے تعصبات کا شکار ہوکر اپنی بزرگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ تبھی تو فرمایا گیا کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اللہ واکبر کا ورد کرتے رہو اور اترتے ہوئے لاالہ الا اللہ کا ذکر کرو۔ کیوں؟ اس لئے کہ تعصبات، بغض، حسد، نفرتوں، محبتوں، گمانوں، خواہشوں اور خوش فہمیوں کی اندھی گرفت سے بچ سکو۔ بہرحال اس وقت ہمارا موضوع بحث صرف تعصّب ہے۔

تعصّب کوئی ایک بنیاد نہیں ہوتی۔ البتہ تعصّب کی سب سے بڑی وجہ ننگی جہالت ہے۔ جسے ذات کی نفرتیں، محبتیں، عقیدتیں اورسب سے بڑھ کر مفادات پروان چڑھاتے ہیں کسی بھی تعصّب کو اگر سامنے رکھیں تو اسکے تجزئیے سے جو بات سب سے پہلے سامنے آئے گی وہ صرف اور صرف جہالت ہوگی وہ جہالت جس نے ذات کی نفرتوں، محبتوں، عقیدتوں اور مفادات کا لبادہ اوڑ ھ رکھا ہوگا۔ تعصبات کو بے نقاب کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ظاہر ہے دوسروں کے تعصبات پر لب کشائی کرنے سے پہلے اگر آدمی اپنے اندر کے تعصّب کا احاطہ کرے تو یہ قدم دنیا او رآخرت میں اُس کی اپنی نجات کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرسکتاہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ آدمی اسقدر لاتعداد اور گوناگوں تعصبات میں گھرا ہوتاہے کہ اُسکے لئے شعوری سطح پر اپنے تعصبات کا احاطہ کرنا تو دُور کی بات، ان کا سمجھنا ہی مشکل ہوتاہے۔ لاتعداد اور گوناگوں اس لئے کہ آدمی کی پیدائش سے لے کر جوانی اور بڑھاپے تک ہر دوسرا شخص، دوست، بھائی، رشتے دار، ہم مذہب، ہم پیشہ، ہم جماعت اورناجانے کون کون اپنے اپنے تعصبات دینے اور دوسروں سے اُن کے تعصبات لینے میں ہی زندگی گذار دیتاہے پھر ایسی صورت میں آدمی تعصبات سے کیسے خالی رہ سکتا ہے؟ آسان الفاظ میں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ آدمی ہے ہی تعصبات کا مجموعہ۔ جس قدر تعصبات آدمی کے اندر ہوتے ہیں اس قدر کوئی اور اچھا یا برا خیال یا جذبہ آدمی کے اندر نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ کیا پھر اس سے یہی نیتجہ اخذکیا جائے کہ کوئی بھی شخص تعصبات سے عاری ہوہی نہیں سکتا؟ نہیں اس کا ہر گز مطلب نہیں۔ کیوں؟ سورۃ حجرات میں ارشاد ربانی ہے کہ "یہ لوگ کیوں قرآن میں تدبر نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟ " اس کا مطلب ہے کہ جب تک دلوں پر قفل لگے ہوں گے غور وفکر کی صلاحیت ہی سے آدمی عاری رہے گا۔

یہ جو کہا جا تاہے کہ ایمان کے دوپہلوں ہیں۔ ایک زبان سے اقرار اور دوسرا دل سے تصدیق۔ مسلمان اور مومن میں یہی فرق ہے۔ مسلمان صرف زبان سے اقرار تک محدود رہتاہے اور مومن دل سے تصدیق کے مراحل بھی طے کرلیتاہے۔ یہ تفریق بھی خود قرآن نے ہی کی ہے جب ارشاد ہوا کہ "اے بنی ؐ جو اعرابی آپکے پاس آکے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، اُن سے کہہ دیجئے کہ آپ اسلام لائے ہیں ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا" (پارہ 26 سورۃ حجرات آیت 14)

یہی غیب پر ایمان کا نچور ہے۔ جسے علی مرتضیٰ نے "اپنی تنہائیوں میں اللہ سے ڈرنے کانام دیاہے" زبان کا اقرار سننے اوردیکھنے والوں کے لئے ہوتاہے جبکہ دل کی تصدیق تزکیہ نفس کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی اُن تمام خصائل رذیلہ پر قابو پالیتاہے جن میں سے ایک تعصّب بھی ہوتاہے۔ دانا آدمی کبھی متعصب نہیں ہو تا کیونکہ "دانائی کی بنیاد خوف خدا ہے" اشفاق احمد مرحوم ومغفور سے جب مسلمان اور مومن کے فرق کے بارے میں کسی نے پوچھا تو انھوں نے پنجابی میں اس طرح جواب دیا تھا۔"مسلمان اللہ نُو مندا اے تے مومن اللہ دی مند ااے " (یعنی مسلمان اللہ کو مانتا ہے جبکہ مومن اللہ کی مانتاہے)

تعصّب کو سمجھا کیسے جاسکتاہے؟ اس سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ تعصّب کو صرف حق کی معرفت کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتاہے جس طرح صحابہ کرام ؓ نے حق کو سمجھا تھا۔ سرکار دوعالم ؐ کے ارشاد گرامی کے مطابق

"جب تک میں تمہیں تمہارے ماں باپ مال واولاد سے زیادہ عزیز ناہوجائوں تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا" یہی وہ واحد کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر ناصرف ہر قسم کا تعصّب پہچانا جاسکتاہے بلکہ اس سے مستقل طور پر نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چونکہ دین کے بارے ہماری سمجھ ز بان کے اقرار سے آگے نہیں بڑھتی اس لئے اللہ کو ایک اور حضورؐ کوآخر ی نبی ماننے کے باوجود ہمارے تعصّب کی یلغار خطابت کے ممبروں اور عبادت گاہوں سے ہی ہوتی ہے۔ ہمارے سیاسی، علاقائی، لسانی، صوبائی اور دیگر طرح طرح کے خاندانی اور برادری کے تعصبات نے الگ ایک اُدھم مچایا ہوا ہے جس نے ہر طرف تباہی پھیلارکھی ہے ہم اللہ کے آخری رسول ؐ کے فرمان مبارک پر عمل کرتے ہوئے اس تباہی وبربادی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran