Thursday, 05 December 2024
  1. Home/
  2. Mustansar Hussain Tarar/
  3. Eid Ki Mubarkan, Eid Ki Udasiyan

Eid Ki Mubarkan, Eid Ki Udasiyan

میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ عید کے مبارک موقع پر ہمیں سب گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگا لینا چاہیے اور میری مراد ہے کہ روئیت ہلال کمیٹی کے سب اراکین کو تو ضرور ہی گلے لگانا چاہئے تا کہ سب شکایتیں دور ہو جائیں اور ہم مسلم امہ کی یک جہتی کا ثبوت دے سکیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور اگر وہ عورت ہو تو خطا کی پتلی ہے؛ چنانچہ مجھ سے خطا ہو گئی کہ میں نے خواہ مخواہ دعویٰ کر دیا کہ اگر قرآن پاک کا فرمان ہے کہ یہ چاند ستارے اور سورج ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں تو پھر چاند کا بھی طے ہے کہ اس نے کونسے مہینے کب طلوع ہونا ہے۔ اس کالم کی وجہ سے میری وہ درگت بنی کہ اللہ کی پناہ۔ علماء کرام جو روئیت حلال کمیٹی میں رضا کارانہ خدمات سرانجام دے رہے تھے ان کے سربراہ تو باقاعدہ طیش میں آ گئے اور اپنے مکمل غیض و غضب کو مجھ غریب پر نچھاور کر دیا؛اگرچہ وہ اس دوران اپنے حلیم الطبع اور انکسار پسند ہونے کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے رہے اور اپنے کراچی کے ذاتی مکان کا بھی سرسری حوالہ دے دیا۔ یہاں تک تو خیریت گزری لیکن انہوں نے جوابی کارروائی کے دوران مجھ غریب کو لبرل قرار دے دیا۔ یقین کیجئے کہ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ہائیں میں لبرل ہوں۔ مجھے تو علم ہی نہ تھا کہ روئیت ہلال کا نام لینے سے ہی انسان بیٹھے بٹھائے لبرل وغیرہ ہو جاتا ہے۔ شکر ہے مجھے طاغوتی طاقتوں کا نمائندہ نہیں کہا گیا ورنہ میرا تو بھٹہ بیٹھ جاتا اور آپ جانتے کہ بھٹہ ایک مرتبہ بیٹھ جائے تو پھر اٹھتا کبھی نہیں۔ اچھا میں تو قدرے ہلکے پھلکے انداز میں ادھر ادھر کی ہانک دیتا ہوں لیکن اظہارالحق تو نہایت مدلل طریقے سے نہایت سنجیدگی سے بین الاقوامی حوالے دے کر وہی لکھتا ہے، جس کا اظہار میں نے ڈرتے ڈرتے کیا تھا لیکن اسے مجال ہے کوئی کچھ کہے، ایک تو وہ باریش ہے اور پھر کالم کے ساتھ اپنی ایسی خشونت آمیز تصویر چھپواتا ہے کہ اسے دیکھ کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جائے۔ علاوہ ازیں وہ علماء کرام کے ایک ایسے خاندان کا چشم و چراغ وغیرہ ہے، جنہوں نے دین العلوم کی خاموش خدمت کی اور جن کی نیت پر شک صرف کافر ہی کر سکتے ہیں۔ اظہار اپنے آبائو اجداد کا ہم پلہ تو نہیں ہو سکا لیکن اس کی پلے میں وہ کچھ ہے جو کسی اور شہرت یافتہ کے پلے میں تو نہیں کہ ان کے پلے تو دنیاوی سہولتوں کے حصول کے لیے کب کے کھل چکے، جیسے کسی نازنین کا بازو بند کھل کھل جاتا تھا، ادھر فواد چودھری نے بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی جسے میں نے تو بہت ناپسند کیا میں تو کب کا توبہ تائب ہو کر اقرار کر چکا ہوں کہ عید کی رونقیں مکمل ہو نہیں سکتیں، جب تک کہ ہم یہ لمبی لمبی دوربینوں میں باری باری جھانکتے حضرات کی ٹیلی ویژن پر زیارت نہ کرلیں اور ان کے اعلان کے ساتھ محترم پوپلزئی کا مخالفانہ رد عمل نہ آ جائے، اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ روئیت ہلال والوں کا اقبال بلند رکھے، اتنا بلند کہ وہ خود چاند پر جا پہنچیں ؛چنانچہ آئیے سب گلے شکوے بھلا کر اپنی رعونت فراموش کر کے ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں، ایک دوسرے کے گلے پڑ نہ جائیں اور ایسا بھی نہ ہو کر تم گلے سے آ لگے اور سارا گلا جاتا رہا، یعنی فواد چودھری کے گلے لگنے سے پرہیز کی جائے۔ چلئے اس عید کے دن میں ماضی کی دوچار عیدوں کو یاد کرتا ہوں جب یہ بکھیڑے نہ ہوا کرتے تھے، اگرچہ انگلستان میں میرا قیام کئی برس پر محیط ہے اور غالباً انہی دنوں میں بے خبری کے عالم میں شاید لبرل بھی ہو گیا تو نوٹنگھم میں پہلی عید آئی اور ماں باپ، بہن بھائیوں اور وطن سے بچھڑنے کی اداسی لے کر آئی۔ امی جان نے میرے لیے عید کا جو خصوصی جوڑا شلوار قمیص بنوا کر مجھے بھیجا وہ راستے میں چڑ مڑ ہو گیا اور میں نے اسے ایک انگریز دھوبی کے سپرد کیا کہ اسے استری نہیں کرنی، اسے کلف لگانی ہے، اکڑا دینا ہے اتنی کلف لگانی ہے، جب دو چار روز کے بعد اپنا جوڑا وصول کرنے کے لیے گیا تو انگریز دھوبی دکان کے اندر گیا، باہر آیا تو دونوں ہاتھوں سے میری اکڑ چکی شلوار کو اس طرح تھاما ہوا تھا جیسے سپاہی ڈھال تھامے ہوئے میدان جنگ میں اترتے تھے، یہ شلوار تہہ نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ میں نے بھی اسے دونوں کانوں سے چٹکیوں میں پکڑا اور دکان سے باہر آ گیا اور یہ منظر دیکھنے کے لیے گورا لوگ رک گئے اور تالیاں بجائیں کہ دور سے یوں لگتا تھا جیسے ایک اکٹری ہوئی شلوار کے پائنچے ہیں کہ میرا چہرہ اس کے پیچے شلوار پوش تھا۔ اس شلوار کو پہننا بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ آپ سمجھ لیں کہ دو دوستوں نے اس کے کونے تھامے اور میں غڑاپ سے اس میں کود گیا۔ عید کی نماز پڑھتے ہوئے جب رکوع میں جاتا یا سجدے کے لیے جھکتا تو کلف زدہ شلوار یوں کڑ کڑاتی کہ دیگر نمازی چوکنے ہو جاتے کہ یہ کیا شے بولی ہے۔ دو برس پیشتر ایک عیدالضحی فلوریڈا کے شہر آرکینڈو میں بیٹی عینی کے گھر آ گئی۔ عینی ڈاکٹر ہونے کی حیثیت میں بے حد منظم بچی ہے اس نے باقاعدہ پیشگی منصوبہ بندی کی۔ چنانچہ بڑا بیٹا سلجوق یو این او سے چھٹی لے کر بال بچوں سمیت نیویارک سے آ گیا۔ دنیا کے دوسرے کونے ویت نام سے سمیراپنے خاندان سمیت اڑان کر کے پہنچ گیا اور ہم نے ایک مدت کے بعد پورے خاندان نے عید منائی۔ خاص طور پر عید کی نماز پڑھنے کا کیا ہی لطف آیا۔ مقامی مسلمان تنظیموں نے مشترکہ طور پر ایک کانفرنس ہال بک کروایا اور وہاں عید پڑھنے کے لیے پیشگی بکنگ ضروری تھی۔ ہال کے اندر داخل ہونے پر آپ کی کلائی کے گرد ایک ثقافتی پٹی باندھ دی جاتی تھی جسے دروازے پر چیک کیا جاتا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے تحت کم از کم پانچ چھ ہزار لوگوں کا اجتماع تو ہو گا جن میں ظاہر ہے عورتیں بھی شامل تھیں۔ اس عید کی نماز کے سپر سٹار ایک امریکی افریقی امام تھے، جنہیں خصوصی طور پر نیویارک سے مدعو کیا گیا تھا۔ وہ ایک ہنس مکھ شخص تھے جنہوں نے لیکچر نہیں دیا، ہم سے باتیں کیں جیسے ہمارے اپنے خاندان کے ہوں، نہ ڈرایا نہ دھمکایا صرف محبت کا اظہار کیا، کبھی ہنسایا اور کبھی ذکر رسول اللہﷺ سے آنکھوں کو نم کیا، بعد میں عید ملتے ہوئے ضرورت سے زیادہ گرم جوش ہو گئے کہ ماشاء اللہ تنومندوہ بھی بہت تھے۔ دیار غیر میں عید منانا معاشی طور پر بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کہ بال بچوں کو عیدی ڈالروں کی صورت میں دینی پڑتی ہے۔ اس عمر میں پہنچ کر بھی عید کا لطف تو بہت ہوتا ہے کہ ماشاء اللہ اردگرد اپنے بچے ہوتے ہیں اور ان کے بچے ہوتے ہیں لیکن ہمہ وقت ایک اداسی دامنگیر رہتی ہے۔ بیت چکے زمانے اور ان کی عیدیں یاد آتی چلی جاتی ہیں جب ہم بھی بچے تھے، ہمیں بھی عیدی ملتی تھی۔ نئے کپڑے پہن کر نماز کے لیے نکلتے تو امی جان گلے لگاتیں تو ہم اپنے کپڑوں کی استری بچانے کی خاطر ذرا دور رہتے اور وہ ہر نئی شے کی مبارک دیتیں کہ بیٹا اللہ یہ جوڑا مبارک کرے، یہ نئے بوٹ، یہ جرابیں یہ نیا رومال مبارک کرے اور ہم مسجد کی جانب چلتے تو ابا جی ایک قد آور شجر کی مانند ہم پر سایہ فگن ہوتے، ٹریفک کا دھیان رکھتے، گھر واپس آتے تو خود ہی امی جان سے لپٹ جاتے کہ اب تو نماز پڑھ چکے کپڑوں کی استری بے شک خراب ہو جائے۔ اور اب اسی برس کی عمر میں بھی ہر عید پر امی جان کے دوپٹے کی خوشبو کہیں سے آ جاتی ہے، مجھ سے لپٹ جاتی ہے، ان کی قبر سے آتی ہے۔ اور ابا جی کی نیلی آنکھیں تتلیوں کی مانند رخساروں پر پھڑپھڑاتی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی قبر سے آتی ہیں۔ آپ سب کو نئے کپڑے مبارک ہوں۔ عید مبارک ہو!

About Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar is a Pakistani author, actor, former radio show host, and compere.

He was born at Lahore in 1939. As a young boy he witnessed the independence of Pakistan in 1947 and the events that took place at Lahore. His father, Rehmat Khan Tarar, operated a small seed store by the name of "Kisan & co" that developed to become a major business in that sphere.

Tarar was educated at Rang Mehal Mission High School and Muslim Model High School, both in Lahore. He did further studies at the Government College, Lahore and in London.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran