Wednesday, 04 December 2024
  1. Home/
  2. Mustansar Hussain Tarar/
  3. Mexico Ka Mae Khana, Cancun

Mexico Ka Mae Khana, Cancun

ہم جب کبھی آرلینڈو کا رخ کرتے ہیں توبہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن ہوتے ہیں اور امریکی سال بھر کی کڑی مشقت کے بعد اپنے بال بچوں سمیت گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ کاروں چلتے پھرتے گھروں، کاروانوں پر سوار پر فضا مقامات کی طرف نکل جاتے ہیں تاکہ پاپی دنیا سے دور، فکر فاقے سے آزاد، فرصت کے رات دن کچھ تو گزار سکیں۔ وہ امریکہ کے مشہور نیشنل پارک کا رخ کرتے ہیں ساحلوں کی جانب سفر کرتے ہیں اور جھیلوں کے کناروں پر عارضی طور پر ہی آباد ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ یورپ اور جنوبی امریکہ کی جانب نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ عینی کا خاندان بھی آرلینڈو سے فرار ہو کر کسی اور من پسند مقام پر چھٹیاں بسر کرنے کے منصوبے بنا رہا ہوتا ہے جب ہم دھم سے ان کے ارادوں کے صحن میں کود جاتے ہیں۔ وہ اچھے بچوں کی طرح ہمیں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ ورنہ ایک اسی برس کے بابا جی اور ان کی بڑھیا کو چھٹیوں میں ساتھ گھسیٹتے پھرنا کچھ حماقت سی ہے کہ ہمہ وقت ان کا خیال رکھو کہ بابا جی کاازار بند لٹک رہا ہے۔ ابو یہ غسل خانہ خواتین کے لئے ہے کہاں گھسے جا رہے ہیں۔ امی یہ فرنچ ریستوران ہے۔ گلاس میں شربت نہیں ہے سرخ وائن ہے، اسے نہیں پینا۔ ابو آپ نے تو ادھر دیکھنا بھی نہیں وغیرہ۔ لیکن عینی کا اللہ بھلا کرے اپنی چھٹیاں غارت کرنے کے لئے ہمیں ضرور ساتھ لے جاتی ہے۔ دو برس پیشتر ہم حیرت انگیز کی ویسٹ کے ایک لگژری ریسٹورنٹ میں چند روز ٹھہرے تھے۔ نیلے سمندروںمیں ڈبکیاں لگاتے پھرے تھے۔ کی ویسٹ امریکہ کے جنوب کا آخری کونہ ہے جہاں سے کیوبا صرف نوے میل کی سمندری مسافت پر واقع ہے۔ اس شہر کی خصوصیت وہ مرغ اور مرغیاں ہیں جو اس کے گلی کوچوں میں آوارہ پھرتے ہیں اکثر کوئی مرغ سڑک کے عین درمیان میں گردن اکڑائے کھڑا ہے اور ٹریفک رکی ہوئی ہے کہ ان قومی خزانوں کو گزند پہنچانا قابل تعزیر جرم ہے۔ کی ویسٹ میں مجھے ارنسٹ ہیمنگوے کے ایک گھر میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا اور وہاں ہر سو چھ پنجوں والی موٹی موٹی بلیاں دندناتی پھرتی تھیں کہ وہ ان بلیوں کی اولادیں تھیں جو ہمینگوے کی پالتو ہوا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ اس گھر کے ایک گوشے میں بلیوں کا ایک خصوصی قبرستان بھی ہے جہاں کم فرینک سناترا گریگوری پیک نام کی موقر بلیاں اور بلے دفن ہیں۔

اس بار گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے کہاں کا رخ کیا جائے۔ ایسے ایسے نام زیر غور آئے کہ میرے بدن میں تو ایک سنسنی سی دوڑ گئی کہ کیا یہ واقعی ممکنات میں سے ہے کہ ہم برازیل جا سکتے ہیں۔ اس ملک کو عینی نے فہرست سے خارج کر دیا کہ ابو ریوڈی جنیرو کی کوپا کبانا بیچ پر لوگ بہت برے برے اور تھوڑے تھوڑے کپڑوں میں ہوتے ہیں۔ اگر ہوتے ہیں تو بچے ساتھ ہیں وہاں نہیں جانا۔ ہم چلی بھی جا سکتے ہیں جو دراصل چِلّے ہے اور میرا دل رک گیا پابلو نروداکا چلی، سلوا ڈور آلینڈے کا چلی مزدور نے کہا تھا کہ محبت مختصر ہوتی ہے اور نہیں جانتی کہ وہ مختصر نہیں ہے۔ فیض صاحب کے ساتھ بھی تو نروداکی یاریاں تھیں اور پھر عینی کہنے لگی۔ ابو ہم پیرو بھی جا سکتے ہیں ماچو پیچو دیکھنے کے لئے اور یہ تو ایک تیر تھا جو میرے سینے میں نروداکی شاعری کی مانند اتر گیا۔ دنیا کی بڑی حیرتوں میں شمار کئے جانے والا انکا تہذیب کا آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع کھنڈر شہر جس کے بارے میں نرودانے ایک شاہکار نظم تخلیق کی۔

تب میں زمین کی سیڑھی پر چڑھتا چلا گیا۔ جنگلوں کی گھناوٹ میں، تم تک"لیکن ماچو پیچو کے درمیان دو رکاوٹیں آ گئیں۔ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس انکا تہذیب کے کھنڈر میں داخلے کے لئے جو ٹکٹ درکار تھے وہ کم از کم دو ماہ پیشتر بک کروائے جاتے تھے اور وہ بھی ساٹھ ڈالر فی ٹکٹ کے حساب سے۔ علاوہ ازیں آرلینڈو سے پیرو تک تقریباً نو گھنٹے کا طویل ہوائی سفر تھا۔ اس سے بہتر تھا کہ ہم پاکستان کی جانب پرواز کر جاتے اور نصف راستہ طے کر جاتے۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ ہم میکسیکو کے جدید شہر کین کون کے ساحلوں پر پھیلے ایک مشہور لگژری ریسٹورنٹ" فائنسٹ پلایا مجیرس" کا رخ کریں چند روز اس کی آسائش سے لبریز زندگی سے لطف اندوز ہوں اور بحرالکاہل میں ڈبکیاں لگا کر واپس آ جائیں۔ اس لئے میں شروع سے ججھکتا ہوا عرض کرتا جاتا تھا کہ میں میکسیکو جا بھی رہا تھا اور نہیں بھی جا رہا تھا کہ "فائنسٹ پلایا مجیرس کا چھ سو کمروں پر نیشنل لگژری ریسٹورنٹ اپنی ذات میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس کے باہر تو میکسیکو تھا لیکن اس کے اندر ایک بین لااقوامی ماحول تھا۔ البتہ اس قیام کے دوران ایک پورا دن ہم نے کین کون سے دور مایا تہذیب کے کھنڈروں میں بسر کرنا تھا یعنی ہم نے کم از کم ایک دن تو اصلی میکسیکو میں گزارنا تھا اور میرے لئے اس ٹوئر کی سب سے بڑی کشش وہی ایک دن تھا۔ آبنائے میکسیکو کے کناروں پر پھیلا ہوا سیاحتی شہر کین کون آرلینڈو سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی فضائی مسافت پر واقع تھا لیکن اس روز بدقسمتی سے کوئی براہ راست پرواز نہ تھی اس لئے ہم پہلے میکسیکو کی مخالف سمت میں سفر کرتے نارتھ کیرولینا کے شہر شارلٹ تک پہنچے۔ جہاں سے ایک اور پرواز نے ہمیں کین کون لے جانا تھا۔ لیکن تین گھنٹے کے انتظار کے بعد۔ میرے تجربے کے مطابق ایئر پورٹ دنیا کے سب سے اکتا دینے والے اور بیہودہ مقام ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت شوروغل اور اعلانات کی گونج، خوراک کی خوشبو مسافروں کے قدموں کے گھٹنے کی اذیت ناک رگڑ رگڑ۔ اجنبی اور بیزار ہو چکے لوگ اور بھاگ دوڑ۔ ریلوے سٹیشن ان کی نسبت نہائت دلچسپ، سنسنی خیز اور رومانوی ہوتے ہیں کوئی ایسا نظام رائج ہو جائے کہ بندہ سفر تو بائے ایئر کرے لیکن اگر انتظار گلے پڑ جائے تو ریلوے سٹیشن پر کرے۔ شارلٹ بھی ایک ایسا ہی ایئر پورٹ تھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ "شادی آن لائن" میں جو میری ساتھی میزبان اچھی شکل والی سیماب مظفر ہوا کرتی تھی وہ اپنے خاوند اور دو بچیوں کے ہمراہ اسی شارلٹ میں مقیم تھی۔ بعدازاں اس نے فون پر بہت احتجاج کیا کہ آپ میرے شہر آئے اور مجھے خبر تک نہ کی ورنہ میں آپ سے ملنے چلی آتی(جاری ہے)اور اپنے ہاتھوں سے کوفتے پراٹھے بنا کر لاتی۔ مجھے سیماب سے زیادہ کوفتوں پراٹھوں سے ملاقات نہ ہونے پر زیادہ افسوس ہوا۔ کین کون ایئر پورٹ کے امیگریشن ہال میں امریکیوں کے علاوہ باہر کے ملکوں سے آنے والے سیاحوں کا ہجوم تھا کہ کین کون دنیا کے پانچ ایسے شہروںمیں شمار ہوتا ہے جہاں لگژری ریسٹورنٹس کی کثرت ہے، اس لئے یہ پارٹی ہٹی کہلاتا ہے۔ قطاریں منتظر سیاحوں کی ہولے ہولے سرکتی گئیں۔ اور بالآخر ہم بھی پاسپورٹ چیکنگ وغیرہ کے مراحل سے فارغ ہو کر باہر آ گئے جہاں ہمارے لئے خصوصی شٹل سروس منتظر تھی۔ ایئر پورٹ سے ہمارا ریسٹورنٹ تقریباً پینتالیس منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ کین کون گلف آف میکیسکو کے کناروں پر 1976ء میں آباد کیا گیا اور اب پورے میکیسکو میں شاید اتنے سیاح نہیں آتے جتنے کین کون میں وارد ہوتے رہتے ہیں۔ ایک نہایت ستھرا اور دل کو خوشی دینے والا شہر جو سمندر سے چہلیں کرتا تھا کبھی سمندر اس کے اندر تک چلا آتا تھا اور کبھی وہ سمندر میں نقب لگاتا اس میں اپنے گھر بنا دیتا تھا۔ ہوا گرم تھی لیکن سمندر کی نیلاہٹ اس میں گھل کر خوشگوار کرتی تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کین کون میں اعلیٰ معیار کے تقریباً آٹھ سو ہوٹل موجود ہیں۔ ہوٹلوں کے علاوہ فلیٹوں کی عمارتیں، رہائشی گھر سپر سٹور اور ریستوران وغیرہ سب کے سب دل کش تھے۔ شاہراہ سے دائیں جانب ہم مڑے تو دونوں جانب درختوں کی گھناوٹ امڈتی گئی۔ فائنسٹ پلایا مجیرس ریسٹورنٹ گویا ایک قلعہ تھا جس میں داخل ہونے کے لئے مختلف حفاظتی رکاوٹیں عبور کرنی پڑتی تھیں۔ آپ کے پاسپورٹ نمبر روم نمبر وغیرہ چیک کئے جاتے تھے۔ شبہ ہے کہ میکسیکو میں بھی لا اینڈ آرڈر کے کچھ مسائل ہیں یہ حفاظتی اقدامات سیاحوں کو اطمینان دلانے کے لئے تھے کہ فکر نہ کریں آپ یہاں سے آسانی سے اغوا نہیں کئے جا سکتے۔ فائنسٹ پلایا مجیرس ریسٹورنٹ نہ تھا سمندر کنارے ایک پورا شہر تھا اور اس شہر کی گلیاں پانی کی تھیں یعنی خشک راستے کم تھے اور سوئمنگ پول زیادہ تھے بہت سے کمروں کے آگے ان کے خصوصی چھوٹے چھوٹے سوئمنگ پول نیلاہٹ کی چادروں کی مانند بچھے تھے۔ یہ کمرے نہ تھے بلکہ پرآسائش چھوٹے چھوٹے فلیٹ تھے ہم اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو ہم جو صبح منہ اندھیرے کے جاگے ہوئے تھے اس کی ستھری آسائش میں سانس لیتے ہیں سب تھکاوٹیں اور کلفتیں بھول گئے۔ میمونہ سامان کھولنے میں مشغول ہو گئی۔ ایک مدت کے بعد بارش میں نہانے کا لطف اٹھایا کہ واش روم کی چھت میں سے پانی بارش کی مانند برستا تھا۔ واش روم سے باہر آیا تو میمونہ منہ بنائے کھڑی تھی۔ یہ کمرہ ہے یا مے خانہ۔ پانی کے لئے فرج کھولا ہے تو اس میں بھی یہی خانہ خراب ٹھنڈی ہو رہی ہے تم یہ بتائو ہم یہاں نماز کہاں پڑھیں گے؟ میں نے کہا بیگم کمرے کے آگے جو وسیع بالکونی ہے وہاں جا کر پڑھ لیا کریں گے۔ وہ خفا ہو گئی۔ بالکونی کے نیچے سوئمنگ پول ہے اور اس میں تقریباً عورتیں بے پردگی سے نہا رہی ہیں کیا واقعی؟ میں نے اپنی باچھوں کو کھلنے سے بچایا۔ ذرا دیکھتے ہیں۔ اس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ کیا دیکھتے ہیں۔ بیٹھے رہو آرام سے۔ یہ بیویاں اسی برس کے ایک خاوند کو بھی خوش ہوتا دیکھ نہیں سکتی۔ (جاری)

About Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar is a Pakistani author, actor, former radio show host, and compere.

He was born at Lahore in 1939. As a young boy he witnessed the independence of Pakistan in 1947 and the events that took place at Lahore. His father, Rehmat Khan Tarar, operated a small seed store by the name of "Kisan & co" that developed to become a major business in that sphere.

Tarar was educated at Rang Mehal Mission High School and Muslim Model High School, both in Lahore. He did further studies at the Government College, Lahore and in London.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran