اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے حکومت، فوج اور ایجنسیوں کے خلاف خط پر بہت سارے سوالات ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری راجا ذوالقرنین ایڈووکیٹ نے اس خط کی ٹائمنگ پر سوال اٹھایا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب ہماری فوج اور سیکورٹی فورسز پر روزانہ حملے ہو رہے ہیں، دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا رہا ہے، ہم روزانہ اپنے بیٹوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں تو اس موقعے پر اسلام آباد کے عدالتی ایوان سے یہ حملہ کیوں کیا جاتا ہے۔
جب گھر پر حملہ ہو، فوتیدگی ہو تو چھوٹے چھوٹے موٹے اختلافات بھلا کے سب ایک ہوجاتے ہیں یا کم از کم خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب امریکا، ایران سے گیس پائپ لائن پر بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس خط کا وقت عین وہی ہے جب دہشت گرد ہماری سرزمین پر چینی انجینئروں کو بارود بھری گاڑی ٹکرا کے قتل کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس خط کو اسی میز سے لکھا گیا ہے جس میز سے باقی ساری پلاننگ ہو رہی ہے، ان کا الزام بہت خوفناک ہے۔
ان ججوں نے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے حق میں فیصلے کو جواز بنایا ہے یا تکلف برطرف اپنا بغض نکالنے کا موقع تلاش کیا ہے مگر شوکت عزیز صدیقی خود کہہ رہے ہیں کہ جب ان پر کڑا وقت آیا تو ایک جج کے سوا، جو ان چھ میں شامل بھی نہیں، کسی نے ان سے ہمدردی کرنا تو کیا سلام لینا بھی چھوڑ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خلا ف پورے معاملے کے سب سے پہلے بینیفیشری اطہر من اللہ تھے، اس کے بعد عامر فاروق اور پھراس کے بعد محسن اختر کیانی۔
ہم یہ گمان رکھتے ہیں کہ ہائیکورٹ جیسے بڑے ادارے میں بیٹھے ہوئے جج آئین اور قانون کو بہت زیادہ سمجھتے ہوں گے مگر اخباری اطلاعات کے مطابق ایگزیکٹو اور ایجنسیوں پر الزامات لگانے کے بعد ان ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے ایک کنونشن بلانے یعنی وکلاء کا ایک جلسہ منعقد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں سے میری بدگمانی شروع ہوتی ہے کہ ہائیکورٹ میں بیٹھے ہوئے ججوں کو سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ کار تک معلوم نہیں۔ یہ وہ جج ہیں جنہوں نے سماجی سے حکومتی مشکل ترین معاملات میں آئین اور قانون کے مطابق راہ تلاش کرنا ہوتی ہے اور اگر ان کا علم اور فہم ایسا ہے تو ان کی اہلیت اور صلاحیت پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
وکلا عہدیدار بار بار کہتے ہیں اور میرے پروگرام میں بھی کہا کہ مخصوص چیمبروں کے علاوہ ججوں کے قریبی رشتے داروں کو جج بھرتی کرنے کا طریقہ کار انتہائی غیر موزوں ہے۔ میرٹ اور شفافیت کے خلاف ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایجنسیوں کے نہیں بلکہ ججوں کے محاسبے کا فورم ہے۔ اگر جج کوئی سیاسی تحریک چلانا چاہتے ہیں تو وہ اس کے لئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے رابطہ کر سکتے ہیں مگر کیا میڈیا ٹرائل ان کے مقام اور مرتبے کے شایان شان ہے؟
میں ایک صحافی ہوں اور ہمارا کام ہی سوال اٹھانا ہے۔ اس خط کی ٹائمنگ کی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ناکام تحریک اور نو مئی کے مقدمات کے سزائوں سے بھی ایک تعلق، ایک سیاسی جماعت کے مفادات کو پورا کرتا نظر آتا ہے۔ وہ مذموم مفادات جن کے لئے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور شہداء کی یادگاروں پر حملے کئے گئے۔ یہ فوج اور ایجنسیوں پر اسی کے تسلسل میں ایک دوسرا حملہ ہے۔
یہ جج اس سے پہلے اس سیاسی جماعت کے سربراہ کی سہولت کاری کرتے ہوئے سو کے قریب ایسے مقدمات میں ضمانتیں دے چکے ہیں جن میں عام شہری برس ہا برس تک جیل میں رہتے ہیں۔ بات پھر ٹائمنگ کی ہے توسب کے علم میں ہے کہ ایک جج صاحب جنہوں نے اس پر دستخط کئے ہیں اور اس میں لیڈنگ رول پر ہیں، ان کے خلاف ریفرنس آ رہا ہے۔ یہ ریفرنس بہت سنگین سوالات پر مبنی ہے جیسے کہ ان کے ڈیکلئیر کئے ہوئے اثاثے پانچ کروڑ ستر لاکھ کے ہیں مگر حقیقی اثاثے ایک سو ستاسی کروڑ سے بھی زیادہ۔
سوال آمدن سے زائد اخراجات کا بھی ہے جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ موصوف نے فیملی کے ساتھ کچھ عرصے میں برطانیہ، ا مریکہ، تھائی لینڈ وغیرہ کے جو دورے کئے ان پرچھ کروڑ بیالیس لاکھ کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ سوال ان کی قائم کی ہوئی ایک لیگل فرم پر بھی ہے جس کی شہرت وکیل کی بجائے جج کرکے دینے کی ہے۔ ایک دوسرے جج کے خلاف ڈوزئیر تیار ہے کہ اس نے اپنے سرکاری ملازم بھائی کی کرپٹ پریکٹسز کو تحفظ دیا، دوہری شہریت کا حامل ہے، غیر قانونی اثاثوں کا بھی الزام ہے۔ عدالتی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جس جج کو گروہ بنا کے چیف جسٹس بنانا چاہتے ہیں اس کا انجام مظاہر علی نقوی والا نہ ہو۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ٹرول بریگیڈ ان ججوں کے حق میں بائو لا ہوا پھر رہا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا یہ خط لیک بھی پی ٹی آئی کے ٹرول بریگیڈ کے ذریعے ہی گیا ہے یعنی ان کا پہلے سے آپس میں اس طریقہ کار پر اتفاق تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ٹرول بریگیڈ وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات پر نوحے اور مرثیے لکھ رہا ہے جو چیف جسٹس کے چیمبر میں ہو ئی، وزیراعظم کی یہ ملاقات ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پرسو فیصد آئینی اور پیشہ ورانہ ہے جبکہ اسی کلٹ کا سربراہ بطور وزیراعظم، ججوں کے گھروں میں ان کی عورتوں کو ایک ہی فریم میں بٹھا کے فوٹو شوٹ کرواتا رہا ہے۔ اس وقت انہیں نہ شرم آتی تھی اور نہ آئین یاد آتا تھا۔
افسوس کا مقام ہے کہ ان ججوں نے وہی کام کیا ہے جو بھارت اور اسرائیل کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج اور ایجنسیوں کو کٹہرے میں لایا جائے مگر مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر یک رکنی کمیشن بنانے کا فیصلہ ہوگیا ہے تو انہیں الزامات کو ثابت کرنے کا موقع دیا جائے، الزامات کے حق میں دلائل اور ثبوت مانگے جائیں لیکن چونکہ دوسری طرف اداروں کو فریق بنایا گیا ہے تو وہ بھی تمام حقائق سامنے رکھ دیں کہ ایسے ججوں کی وجہ سے ہی عدلیہ دنیا کے ایک سو اڑتیس عدالتی نظاموں میں ایک سو تیسویں نمبر پر ہے۔
وہ الزامات بھی جن کا اوپر ذکر کیا گیا کہ جب کسی کو سزا ملنے لگتی ہے تو وہ سیاسی سٹنٹ بازی شروع کر دیتا ہے۔ اس امر کا بھی فیصلہ کیا جائے کہ یہ خط صریحا مس کنڈکٹ ہے، تجویز ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ہونے تک ان تمام ججوں کو عہدوں پر کام کرنے سے روک دیا جائے۔
قاضی فائز عیسی ایک جرأت مند قائد کے طور پر ماضی کا بہت سارا گند صاف کر رہے ہیں، انہیں اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عدلیہ میں صفائی کا انقلابی اور تاریخ ساز کام بھی کر گزرنا چاہئے تاکہ اداروں میں موجود مخصوص مقاصد کے لئے کام کرنے والے کلٹ کا خاتمہ ہو سکے۔