پی ٹی آئی کے دوستوں نے تکیہ کلام بنا لیا ہے کہ آٹھ فروری کو دیکھنا، لگ پتا جائے گا۔ ویسے ان کا ڈائیلاگ خان کی حکومت ختم ہونے سے پہلے بھی یہی ہوتا تھا کہ اسے ختم کرکے دیکھنا، لگ پتا جائے گا۔ پھر یوں ہوا کہ تحریک عدم اعتماد سے حکومت گر گئی مگر ہم نے دیکھا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک شور یہ بھی تھا کہ جب خان لانگ مارچ کرے گا پھر دیکھنا، لگ پتا جائے گا۔
میں نے اس لانگ مارچ کی کال کو بھی دیکھا اور لانگ مارچ کو بھی جس میں خانصاحب خود نشانہ بنے۔ اس کے بعد خانصاحب کے حامیوں نے ڈائیلاگ پکڑا کہ خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں ختم کرکے بڑی گیم کر رہا ہے، اب دیکھنا لگ پتا جائے گا۔ پھر یوں ہوا کہ گذشتہ برس جنوری میں پرویز الٰہی جیسے گھاگ سیاستدان کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے یہ حماقت بھی کر ڈالی گئی اور پھر لگ پتا گیا (خود انہیں)۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، پھرکہاجانے لگا کہ خان کو گرفتار کرکے دیکھنا، لگ پتا جائے گا، ہاں، ہم نے دیکھا کہ خان کے حامیوں نے نو مئی برپا کیا مگر اس کے بعد ان سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان کو نااہل کرکے دیکھنا، اسے پارٹی کی قیادت سے ہٹا کے دیکھنا اور یہ بھی کہ عمران خان کو سزا دے کر دیکھنا۔ اسے سزا بھی ہوئی اور وہ نااہل بھی ہوا۔ اب پوزیشن یہ ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پرسزا پا چکی، انتخابی نشان واپس لیا جا چکا اور ابھی دیکھنے کو بہت کچھ باقی ہے۔
جب پی ٹی آئی کے یار دوست کہتے ہیں کہ آٹھ فروری کو دیکھنا تو میں ان کی طرف دیکھتا ہوں کہ کیا ان کی ذہنی حالت ٹھیک ہے۔ مجھے ان میں سے بہت ساروں کی ذہنی حالت پر ٹھیک ٹھاک قسم کا شک ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ بہت سارے ڈھیڈ ہُشیار ان کی حماقت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہیں بھنگ والے لڈُو کھِلا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ نوسربازی کی جا رہی ہے جیسے کچھ دن پہلے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا کہ ان کا لیڈر پندرہ جنوری کی شام سات بجے تک جیل سے رہا ہو جائے گا۔ ویسے پی ٹی آئی والے احمقوں کی جنت میں رہنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے رہے اور شرطیں لگاتے رہے کہ نواز شریف اکیس اکتوبر کو وطن واپس نہیں لوٹ رہے۔
اس وقت تک نواز شریف لندن سے جدہ پہنچ چکے تھے۔ وہ اس حد تک خوش گمان رہے کہ نواز شریف دوبئی سے واپس چلے جائیں گے مگر ان کی خواہش، خواہش ہی رہی۔ پھریہ خواب دیکھا گیا کہ نواز شریف آتے ہی گرفتار ہوجائیں گے اوراس پر بھی وہ شرطیں لگانے کے لئے تیار تھے مگر نواز شریف کی حفاظتی ضمانت منظو رہوگئی۔ پھر یہ دعویٰ کیاگیا کہ نواز شریف کے مقدمات ختم نہیں ہوں گے۔ جب وہ مقدمات بھی ختم ہو گئے تو اگلا خواب تاحیات نااہلی ختم نہ ہونے کا تھا۔ پیارے پیارے اہل یوتھ اب بھی منہ بھر کے کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف وزیراعظم نہیں بن سکیں گے تو ان کا منہ دیکھ کے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔
بات ہو رہی تھی اس ڈھیڈ ہُشیار کی جس نے چورن بیچا کہ عمران خان پندرہ جنوری کی شام سات بجے جیل سے با ہر ہو ں گے اور اس پر خوب واہ واہ کروائی۔ اب پندرہ اور سولہ جنوری بھی گزر چکی ہے اور مجھے بانی پی ٹی آئی ابھی کئی برس باہر آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ کچھ صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ عمرا ن خان نے جیل میں رونا شروع کر دیا ہے مگر کچھ کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا مگر یہ ضرور ہوا ہے کہ نومئی کے مزید بارہ مقدمات میں بھی گرفتار یاں پڑ گئی ہیں، توشہ خانہ چوری اور غیر شرعی نکاح سمیت کئی مقدمات میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے یعنی انہوں نے پندرہ جنوری کو باہر کیا آنا تھا، ان کے پیروں میں مزید پندرہ زنجیریں پڑ چکی ہیں۔
میں پھر اس پر آتا ہوں جو ہمارے خواب پرست اور شخصیت پرست دوستوں کا کلٹ کہہ رہا ہے کہ آٹھ فروری کو دیکھنا۔ مطلب ان کا یہ ہے کہ ووٹروں کا ایسا جم غفیر نکلے گا جو سب کچھ بہا کے لے جائے گا۔ میں نے سنا، بیرسٹر گوہر کہہ رہے تھے کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے بغیر ہی وہ آٹھ فروری کو ایسی کامیابی حاصل کرنے جا رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ وفاق اور پنجاب میں بھی حکومتیں قائم کریں گے۔
میں نے آٹھ فروری کو ان کی کامیابی جو دیکھنی ہے اس بارے اللہ جانے مگراس وقت حلقوں میں انتخابی مہم دیکھنے جا رہا ہوں تو پی ٹی آئی کے جھنڈے اور جلسے تو ایک طرف رہے مجھے اُمیدوار تک دیکھنے کونہیں مِل رہے۔ یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی نے اُمیدواروں کی ایک فہرست ضرور دے دی ہے مگر ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگ کون ہیں، کہاں ہیں کسی کو علم نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے لئے الیکشن کے حوالے سے مشکلات ہی مشکلات ہیں جیسے ان کے پاس دینے کے لئے کوئی امید نہیں، کوئی پروگرام نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے جو امید اور پروگرام دئیے تھے وہ تو انہی کی زبان میں وڑ گئے،۔ حلقوں میں معاملہ یہ ہے کہ جہاں لوگوں کو انتخابی نشان کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے وہاں امیدوار بارے بھی بتانا ہے۔ میں نے مسلم لیگ نون کے ایک رہنما سے پوچھا کہ کمپین کیسی چل رہی ہے۔
اس نے کہا کہ وہ پہلے دو بار اس حلقے سے الیکشن لڑ کے جیت چکا، سب کچھ اس کی فنگر ٹپس پر ہے مگر دوسری طرف پی ٹی آئی وکیلوں کے پاس ہے اور بہت سارے ٹکٹ بھی وکیلوں کے پاس ہی چلے گئے ہیں۔ حلقوں کی سیاست، عدالت میں وکالت سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹر آٹھ فروری کو خود بخودبستروں اٹھ کے ووٹ کی لائن میں لگتا ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کہنا آسان اور ہونا مشکل ہے، الیکشن ڈے کی حکمت عملی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
آٹھ فروری کو ہم سب دیکھیں گے مگر اس وقت گیلپ سمیت تمام سرویز نواز شریف کی مقبولیت، عمران خان سے زیادہ دکھا رہے ہیں۔ میں آٹھ فروری کے بعد جو دیکھ رہا ہوں وہ پی ٹی آئی کے لئے خوش کُن نہیں۔ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے ہی پی ٹی آئی کے عہدیداروں کونو مئی پر سزائیں ہوں گے اس کے فوری بعد اگلی منتخب حکومت، تحریک انصاف کو ایک ثابت شدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے کر کالعدم قرار دے دے گی۔ ریفرنس سپریم کورٹ جائے گا جس سے لطیف کھوسہ اینڈ کمپنی ایک منصوبے کے تحت تعلقات سخت خراب کر چکی۔ میں پی ٹی آئی کو کہیں نہیں دیکھ رہا اور مجھے دِکھ رہا ہے کہ آٹھ فروری کے بعد انہیں لگ پتا جائے گا،۔