وہ ایک ہی باپ کے دو بیٹے تھے۔ ایک کہتا تھا کہ اس نے شعور پاٹے خان سے لیاہے۔ وہ جب گھر سے نکلتا تو محلے کے ہر شخص کو چور کہتا۔ اس کا گریبان پکڑنے، اس کی داڑھی نوچنے کی کوشش کرتا۔ وہ جب شو ر مچاتا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور وہ اسے اپنی کا میابی اور مقبولیت سمجھتا۔ اس کے ہاتھ میں کیچڑ کی بالٹی ہوتی، اس کی کوشش ہوتی کہ کوئی بھی دامن اُجلانہ رہ جائے۔
انڈین فلموں کے لوفر ہیروز کو آئیڈیل بنانے والی بہت ساری لڑکیوں کا وہ پسندیدہ تھا، وہ اسے دیکھ کے آہیں بھرتیں، کہتیں کہ اس سے بڑھ کے ہینڈ سم کون ہے ا ور اسی چکر میں وہ خاندان کی ہر لڑکی پر ڈورے ڈالتا، کوئی اعتراض کرتا توکہتا کہ یہ ا س کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ سب کی نظروں میں آیا تو علاقے کے تھانے دارنے اسے اپنا ٹاؤٹ بنالیا پھر تو اس کی دہشت اور شہرت بہت بڑھ گئی، کوئی میٹرک اور کوئی ایف اے میں فیل ہوجانے والا اس کا ساتھی بن گیا، سارے نہلوں اور نکموں نے اسے اپنا لیڈر بنا لیااوراس کا گینگ پورے علاقے میں مشہور ہوگیا۔
چھوٹے پاٹے خان نے اپنے علاقے میں نہ کوئی دیوار باقی رہنے دی اور نہ ہی کوئی گملا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے علاقے کو نیا بنائے گا۔ بہت ساروں کو یقین ہوگیا کہ اگر کوئی تبدیلی لا سکتا ہے تو چھوٹا پاٹے خان ہی لا سکتا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ اس کی رگوں میں پاٹے خان کا لہو ہی دوڑ رہا ہے۔ محلے کے کونسلر کے الیکشن ہوئے تو اس نے چوہدری کی مہربانی سے اپنے محلے میں سب سے بونگے اورنہلے کوکونسلر بنوا دیا اور ساتھ والے محلے میں ادھر کے کن ٹٹے کو۔ علاقے میں تباہی پھر گئی مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ تعمیر کر رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی صوبے دارکے گدھے کو دولتی جھاڑنے کی عادت ہوگئی اوراس نے ہر کسی کو دولتی جھاڑنی شروع کر دی۔
شروع، شروع میں توسب برداشت کرتے رہے کہ اگر وہ دولتی کی شکایت کرتے تھے تو صوبے دار بھی چھڑی مار دیتا تھا مگر پھر یوں ہوا کہ عادت سے مجبور گدھے نے ایک دن بم کو دولتی مار دی۔ پاٹے خان ہمیشہ اوور کانفیڈنس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس نے تھانے دار کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ تھانے دار کی طاقت بھی اسی سے ہے۔ اگر وہ تھانے دار کے ساتھ نہیں رہے گا تو تھانے دار، تھانے دار نہیں رہے گا۔ اس نے تھانے پر بھی حملہ کردیا۔ وہاں آگ لگائی، توڑ پھوڑ کی، چیزیں چوری کیں اور پھر جیل پہنچ گیا۔ اس کے ساتھیوں کی بھی حوالات میں خوب خاطر تواضع ہوئی۔ بہت سارے ڈراتے تھے کہ چھوٹا پاٹے خان واپس آئے گا تو تھانے دار سمیت سب کی ایسی کی تیسی پھیر دے گا۔
کسی مخصوص پاٹے خان سے مماثلت اتفاقیہ ہے کہ آپ کے ارد گرد ایسے بہت سارے چھوٹے، موٹے، لمبے، چوڑے پاٹے خان ضرور ہوں گے۔ جو تعلیم کو کچھ سمجھتے ہیں نہ تہذیب کو، بدتمیزی کو جرأت اور گالی کو بہادری سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بڑے بھی غلط تھے اوران سے چھوٹے بھی۔ وہ تعمیر کی بجائے تخریب پر محنت کرتے ہیں۔ ایسے بہت سارے پاٹے خان کسی نہ کسی پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں اور اپنے پیچھے اپنے پیاروں کے لئے رونا دھونا چھوڑ جاتے ہیں۔ میں نے ایسے بہت سارے پاٹے خان سٹوڈنٹس پالیٹیکس میں بھی دیکھے اور پھر عملی سیاست میں بھی۔
مجھے یاد آیا کہ ایک ارشد امین چوہدری بھی ہوا کرتا تھا اوراس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے چوہدری بھی جن کے لاہور جیسے شہر میں طوطی بولا کرتے تھے۔ پاٹے خانوں کی زندگیاں اور کامیابیاں پانی کے بلبلے ہوتی ہیں۔ ایک سوئی لگتی ہے اور بہت بڑا بلبلا پلک جھپکتے غائب ہوجاتا ہے۔ کچھ بڑے پاٹے خان کچھ زیادہ وقت گزار لیتے ہیں، زیادہ جگہ اور زیادہ توجہ لے لیتے ہیں مگر آخر میں ان کا کھاتہ زیرو جمع زیروبلکہ منفی میں۔
میں نے کہا، وہ ایک ہی باپ کے دوبیٹے تھے۔ ایک نے پاٹے خان سے شعور لیا تھا اور دوسرے نے چاچا شریف سے۔ چاچا شریف محلے کے تاجر تھے اورپاٹے خان کے بالکل مخالف۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے پڑھیں، لکھیں۔ ان کے پا س لیپ ٹاپ ہوں۔ ان کے محلے کی گلیاں پکی اور صاف ستھری ہوں۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ جب پاٹے خان باہر نکلتا تھا تو ہر کسی کو گالیاں دیتا تھا اور اس کی گالیاں سن کے سب اس کی طرف دیکھتے تھے تو سمجھتا تھا کہ وہ سب سے مقبول ہے مگر دوسرا بیٹا بازار میں نکلتا تو سب کو سلام کرتا۔ ان کی طبیعت بارے پوچھتا اور یوں لگتا تھا کہ اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا، وہ بالکل مقبول نہیں ہے۔ سب اسے کہتے تھے کہ یہ تو بھولا ہے مگر پاٹے خان کہتا کہ وہ میسنا ہے۔
پاٹے خان اس لئے ایسا کہتا کیونکہ وہ سب کے بارے میں ہی برا کہتا تھا حتیٰ کہ محلے کے امام مسجد کے بارے بھی۔ پہلے وہ علاقے کے تھانے دار کا ٹاؤٹ تھا اور پھر وہ اسی کا اشتہاری ہوگیا۔ بہرحال، ہم بھی پاٹے خان کی باتوں میں الجھ گئے، بات تو دوسرے بیٹے کی کرنی تھی۔ اس بیٹے کا یہ کہنا تھا کہ ایک لمبی لائن کو مٹائے بغیر اسے چھوٹا کیا جا سکتا ہے، طریقہ یہ ہے کہ ا سکے سامنے اس سے بھی لمبی لائن کھینچ دو۔ پہلی والی خود بخود چھوٹی ہوجائے گی۔ دوسرے بیٹے نے اپنی لائن لگائی۔ اس نے محنت کے ساتھ پڑھائی شروع کر دی۔
ہمارے ارد گرد ایسا بہت سارے بچے کرتے ہیں اور پھر ان میں سے کوئی سی ایس ایس کرکے اے ایس پی بن جاتا ہے اور کوئی اے سی۔ مگر پاٹے خان ایسے نہیں کرتے۔ وہ کسی بھی لمبی لائن کو چھوٹا کرنے کا یہی طریقہ سمجھتے ہیں کہ اسے مٹا دو، اسے ختم کر دو۔ دوسرا بیٹا بڑبولا نہیں تھا مگر ذہین تھا اور وہ حقیقی اور مستقل کامیابی کا طریقہ جان گیا تھا۔ اس نے پاٹے خان کے شعور کو مکمل طورپر مسترد کر دیا اور اپنے سامنے ٹارگٹ وہی بننا رکھ لیا جن سب کو پاٹے خان گالیاں دیتا تھا، برا بھلا کہتا تھا۔ پھر یوں ہواکہ مقابلے کے امتحان کے بعد وہ افسر بن گیا اور پاٹے خان تب تک جیل پہنچا ہوا تھا۔
مجھے آج کے کالم کے ذریعے آپ سے یہی کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو بڑا، چھوٹا یا موٹا پاٹے خان مت بنائیں۔ انہیں تمیز اور تہذیب سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ تعلیم اور شرافت حقیقی کامیابی کے راستے ہیں۔ انہیں شکوے کرنے کی بجائے محنت اور شکر کرنا سکھائیں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ ہر گدھا دیوار پھلانگنے سے پہلے خود کو ہرن سمجھتا ہے۔ گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے اوربھونکتے کتے ان گاڑیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ڈرائیور اور سواریاں لمحہ بھر کے لئے خوفزدہ ضرور ہوسکتی ہیں مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈرائیور انہیں کچل دے اور اگر وہ نہ بھی کچلے تو گاڑیاں چلتی رہتی ہیں، ان کے ہاتھوں، چہروں پر دھول، مٹی کے سواکچھ نہیں آتا۔