آپا یاسمین راشد میرے لئے قابل احترام ہیں، کیوں نہ ہوں کہ برسوں بلکہ عشروں کا تعلق ہے، جب اپوزیشن میں ہوا کرتی تھیں تو میرے پروگراموں میں اپنے مریض چھوڑ کر بھی آجایا کرتی تھیں اور اس وقت کی حکومت کے خوب لتے لیا کرتی تھیں مگر پھر وہ الیکشن ہارنے کے باوجود وزیر بن گئیں، اب ان کو فون لگایا جائے تو ان کا پی اے نجانے کس کس کی راہ دکھاتا ہے اور مجھ پر حضرت علی کے قول کی سچائی واضح کرتا ہے کہ طاقت اور اقتدار ملنے پر لوگ بدلتے نہیں صرف بے نقاب ہوتے ہیں اور میں ہنس دیتا ہوں کہ اچھے وقت کی خوبی اور برے وقت کی خامی ایک ہی ہے کہ وہ دونوں ہمیشہ نہیں رہتے۔
آپا یاسمین راشد کے محکمہ صحت کی پوری مشینری ڈینگی کے وقت کے نعرے کو کرونا کے لئے بھی ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن کی پروا کئے بغیر استعمال کر رہی ہے کہ اس سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ کس نے لڑنا ہے۔ کیا یہ لڑائی عوام نے لڑنی ہے جن کو آپ نے گھروں میں بند کر دیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کرونا آپ کے گھر اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک آپ اسے لینے باہر نہیں جائیں گے۔ اگر تو قلعہ بند ہونا بھی لڑائی کاایک طریقہ ہے تو عوام کی لڑائی کی توجیہ کی جا سکتی ہے مگر مجھے کہنے دیجئے کہ اصل لڑائی تو ہمارے پیرامیڈکس، نرسز اور ڈاکٹروں نے لڑنی ہے۔ میں نے یہاں جان بوجھ کر ڈاکٹروں سے بھی پہلے پیرامیڈکس اور نرسز کا نام لکھا کہ میرے خلاف صف بندی اسی طرح بنتی ہے۔ میری پہلی صف کے مجاہد اور سپاہی یہی ہیں اور ان کے بعد ہمارے ڈاکٹرز ہیں۔ رانا پرویز، پیرامیڈکس ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ہیں اور شکوہ کر رہے کہ وہ سب جو پہلی صف میں ہیں ان کا کوئی نام ہی نہیں لے رہا۔ یہ ہمارا الائیڈ سٹاف ہی ہے جو مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، ان کے وارڈوں کی صفائی کرتا ہے، ہماری نرسز ہی ان کا بلڈ پریشر اور ٹمپریچر ماپتی ہیں، انہیں انجکشن یا کینولا لگا تی ہیں اور اس کے بعد ڈاکٹرز ان کا معائنہ کرتے ہیں۔
مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب وائے ڈی اے پنجاب کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر عاطف مجید چوہدری نے مجھے سروسز ہسپتال کے ڈاکٹروں اور دیگر سٹاف میں حفاظتی کٹس کی تقسم کے موقعے پر مدعو کیا۔ میرا خیال تھا کہ چین میں کرونا جنوری میں آیا اور ہمارے فروری میں اور اب اس کو آئے ہوئے کم و بیش دو ماہ گزر چکے ہیں۔ کسی بھی حکومت کے لئے ایمرجنسی اعلان کئے جانے کے بعد دوماہ اور مجموعی طور پر تین ماہ بہت ہوتے ہیں کہ وہ کسی بدترین صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرلے مگر جنرل ہسپتال سے ڈاکٹر عمار یوسف اور دیگر کا یہی کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے کرونا سے جنگ کے حقیقی سپاہیوں کو کسی قسم کی زرہ بکتر اور ہتھیار فراہم نہیں کئے جا رہے۔ میں ڈاکٹر عاطف مجید کے ساتھ سروسز کی ایمرجنسی وغیرہ میں گیا اور حالات دیکھے، وہاں ڈاکٹرز ان کٹس کے منتظر تھے جوفرینڈز آف وائے ڈی اے کے پلیٹ فارم سے تقسیم کی جار ہی تھیں۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ ہم اس نازک موقعے پر احتجاج کرنے کی بجائے اپنے دوستوں اور مہربانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں۔ ہمیں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کٹس کے عطیات موصول ہورہے ہیں جو ہم مختلف شہروں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ میں نے کھوج لگانی چاہی کہ چین سے بھی ہزاروں، لاکھوں کٹس آئی تھیں اور اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی وزیراعلیٰ سندھ کو پنجاب کے لئے بطور عطیہ یا تحفہ کٹس وغیرہ مہیا کرنے پر شکریے کا فون کیا تھا تو وہ سب کہاں ہیں۔ علم ہوا کہ وہ ماسک اور حفاظتی لباس ڈاکٹروں کی بجائے بااثر لوگوں میں تقسیم ہورہے ہیں اور حال یہ ہے کہ محکمہ صحت کے ڈپٹی سیکرٹریوں اور کلرکوں سے کچھ بچ کر ایم ایس حضرات کے پاس آبھی جاتا ہے تو وہ ڈاکٹروں تک نہیں پہنچتا کیونکہ ایم ایس اور دیگر انتظامیہ نے بھی بہت ساری جگہوں پر اپنی پی آر نبھانی ہوتی ہے۔ مجھے ینگ نرسز ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر خالدہ تبسم بتا رہی تھیں کہ ان کے پاس وہی سامان پہنچا ہے جو سابق وزرائے صحت خواجہ سلمان رفیق، خواجہ عمران نذیر نے پہنچایا ہے۔ میں نے حیران ہو کر پو چھا کہ جو شے سندھ کے وزیراعلیٰ کے پاس اضافی موجود ہے، جس کی دس، دس ہزار کی سپلائی نون لیگ دے رہی ہے، وہ حکومت کے پاس کیوں نہیں ہے؟
میں جب یہ سنتا ہوں کہ ہم نے کرونا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے تو میرے ذہن میں یہی آتا ہے کہ ہم کرونا کے وائرس پر نہ ایٹم بم استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ٹینک اور بندوقیں، یہاں ہماری فوج ہمارے پیرامیڈکس، ہماری نرسیں اور ہمارے ڈاکٹرز ہیں اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں جہاں مریضوں کی ریکارڈ تعداد ہے وہاں ان کی آرمی چیف ہماری آپا یاسمین راشد ہیں مگر یہ وہ آرمی چیف ہیں جو اپنی ہی فوج کا حوصلہ توڑتی ہیں، انہیں بغیر ہتھیاروں کے دشمن کے سامنے پھینکتی ہیں، کہتی ہیں کہ ڈاکٹروں کو سرجیکل ماسکس اور ڈریسز کی کیا ضرورت۔ یہ کیسا آرمی چیف ہے جو اپنی ہی فوج کے خلاف بیان بازی کرتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ہمارے متعدد ڈاکٹراور نرسیں کرونا کا شکار ہوچکے۔ چلڈرن ہسپتال کی نرسوں میں کرونا کی علامات واضح ہوئیں تو وائے این اے کی جنرل سیکرٹری مقدس تسنیم بتاتی ہیں کہ وہ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہسپتال میں دوڑیں، آدھی رات گزر گئی مگر ہماری ان فوجیوں کے لئے کہیں سے کرونا ٹیسٹ ہی دستیاب نہیں ہوا۔ جب وہ سروسز سے میو اور پھر کے پی ایل آئی پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ یہاں وزیر صاحبہ کی منظوری کے بغیر کسی کا داخلہ نہیں ہوسکتا۔ یاد ررہے کہ یہ وہی کے پی ایل آئی ہے جس کے خلاف پروپیگنڈے کے انبار لگائے گئے تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہماری جس فوج نے کرونا سے لڑنا ہے اسے کرونا کے سامنے آسان شکار کے طور پر پھینکا جا رہا ہے۔
ہمارے ہیلتھ پروفیشنلز کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور اب وہ سرعام کیمروں اور مائیکوں کے سامنے معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں کہ وہ ایک ڈاکٹر کو صحت کے شعبے کا وزیر بنانے کے خواب دیکھتے تھے۔ میں نے انہی ہیلتھ پروفیشنلز کو بتایا کہ نئے پاکستان کے معمار ایک اینکر نے اپنے ٹوئیٹ میں آپا یاسمین راشد کی بہت تعریف کی ہے کہ وہ ستر برس کی عمر میں بھی ڈٹی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈکس کے رہنماوں کا اتفاق تھا کہ اب میڈم یاسمین راشد کو آرام کرنا چاہئے کہ پنجاب میں جناب عمران خان کے وسیم اکرم پلس اور ایک خاتون ڈاکٹر کے وزیر ہونے کے باوجو د کرونا بے قابو ہو رہا ہے۔ مجھے کرونا کے خلاف لڑنے والی فوج کی سربراہ سے کہنا ہے کہ اپنے ادارے کو کس طرح مضبوط اورطاقت ور بنایا جاتا ہے وہ اس بارے کچھ سیکھیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ میں آپا کے خلاف اب بھی بات نہیں سننا چاہتا کہ وہ میرے شہر کی ایک پرانی سیاسی کارکن ہیں اور میں سیاسی کارکنوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔ جب مجھے ہیلتھ پروفیشنلز یہ بتاتے ہیں کہ میڈم یاسمین راشد محکمہ صحت کو سنبھالنے اور کرونا کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو، آپا یاسمین راشد نے ابھی تک آپ کو بلوچستان والوں کی طرح پولیس سے ڈنڈے نہیں مروائے، آپ کوہتھکڑیاں نہیں لگوائیں، آپ کو جیلوں میں نہیں ڈلوایا تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی توحکومت کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے خاموشی سے اپنے لئے ماسک اور حفاظتی ڈریس مانگنے شروع کر دئیے۔ دن کا ایک پہر ہم علاج کرتے ہیں اور دوسرے پہر مانگنے نکل جاتے ہیں ورنہ یہی میڈم یاسمین راشد تھیں جنہوں نے ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف احتجاج میں پولیس گردی کروا دی تھی۔
میں ان لوگوں سے زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا جیسے میں نے رانا پرویز کی باتیں سنیں تو پوچھ ہی لیا، رانا صاب تسی پٹواری تے نئیں، رانا صاحب ہنسے اور بولے نہیں اسی رانے آں۔ میں آپا یاسمین راشد سے ہی پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کی فوج بغیر زرہ بکتر اور بغیر کسی ہتھیار کے کرونا کے خلاف کیسے لڑے گی جب ان کی آرمی چیف بھی ان پر مہربان نہ ہو۔ مجھے علم ہے کہ اس وقت وہ ایک وزیر ہیں اور وہ ہما شما لفٹ کروانے کی قائل نہیں ہیں، چلیں کوئی بات نہیں، اللہ ان کو لمبی عمر دے مگر انہوں نے کون سا زندگی بھر وزیر رہنا ہے مگرہم نے تو اللہ کی دی ہوئی ڈیوٹی کے تحت زندگی بھرسوال ہی پوچھتے رہنا ہے۔