یہ ایک دلچسپ بحث ہے جس میں کچھ سیاسی رہنما آئینی عدالت کی مخالفت میں عجیب وغریب دلائل پیش کر رہے ہیں جیسے جے یو آئی کے حمد اللہ صاحب۔ کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر فرد واحدکرے گا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ فرد واحد کون ہوگا تو فرمایا وزیراعظم۔ یہ عجیب وغریب دلیل ہے، بھائی صاحب، وزیراعظم ایک آئینی عہدہ ہے، آپ کی اپنی جماعت کا بلامقابلہ منتخب سربراہ بھی ایک فرد واحد ہے، پھر اس کی کیوں مانتے ہیں؟
حضور! وزیراعظم ہو یا چیف جسٹس، صدر مملکت ہو یا آرمی چیف کوئی بھی فرد واحد نہیں ہوتا بلکہ ایک ادارہ ہوتا ہے بلکہ وزیراعظم کے ساتھ پوری کابینہ ہوتی ہے، اس کابینہ کے پیچھے پوری پارلیمنٹ ہوتی ہے اور پارلیمنٹ کے پیچھے عوام۔ میرا نہیں خیال تھا کہ جس پارٹی کا سربراہ ہر بات میں تہتر کے آئین کا تناظر نکالتا ہے اس کا اہم ترین رہنما ایسی بے تُکی دلیل دے گا۔ کیا کل یہ صدر اور گورنر کو بھی فرد واحد کہہ دیں گے جو قانون سازی پر دستخط کرتے ہیں؟ چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کریں گے تو کیا وہ آرمی چیف کا تقرر نہیں کرتے؟
میں نہ مانوں، والے ہی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت فارم سینتالیس کی حکومت ہے، اسے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔ یہ بھی بودی دلیل ہے کہ اگر انتخابی نتائج پر اعتراضات ہیں تو آپ الیکشن ٹریبونلز میں جائیں اور وہاں سے فیصلے کروا لیں۔ اپنی اکثریت بنا لیں اور حکومت قائم کر لیں۔ اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو پھر حکومت یہی ہے، فیصلے بھی اسی کے ہی چلیں گے اور وہ عین آئینی اور قانونی بھی ہوں گے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے گورنر بھی عجیب وغریب بیانات دے رہے ہیں۔
گورنر صاحب، چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرکے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری کا پنجاب میں مسلم لیگ نون کے ساتھ چلنے کا فیصلہ غلط ہے۔ گورنر بھائی، اگر زرداری صاحب غلط فیصلے کر رہے ہیں اور آپ اُن سے زیادہ پیپلز پارٹی کے مفاد کے نگہبان، سیاسی طور پر دانشمند اور پارٹی میں مقبول ہیں تو انہیں قیادت اور صدارت سے ہٹا دیجئے، خود پارٹی کے سربراہ اور صدر بن کے نون لیگ سے اتحاد توڑ دیجئے، آپ کو کون روک رہا ہے لیکن اگر آپ کسی پارٹی اور کسی صدر کے تابع ہیں تو پھر ان کے فیصلوں کا مذاق اڑانا اور ان کا بھرتہ بنانابھی بند کردیں۔
میں نہ مانوں، میں ممتا ز قانون دان اور جے یو آئی ہی کے رہنما جناب کامران مرتضیٰ کو میں نے صدیق بلوچ صاحب کے پروگرام میں سنا۔ کہہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ میں پچاس، ساٹھ ہزار مقدمات ہیں جبکہ آئینی مقدمات کو ئی دو سو۔ اب کوئی ان سے کہے کہ جناب عالی، یہی تو سانحہ ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار مقدمات ایک طرف پڑے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنی اپیلوں پر فیصلہ ہونے سے پہلے پھانسیوں پر چڑھ رہے ہیں اور ہمارے جج صاحبان انہی دو اڑھائی سو مقدمات پر سپریم کورٹ کا ستر، اسی فیصد تک وقت خرچ کر رہے ہیں۔
اپیلٹ کورٹس یعنی اعلیٰ عدالتوں کے جج کئی کئی دنوں تک، رات گئے بیٹھ کے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنماوں کا انتظار کرتے ہیں کہ انہیں ریلیف دے سکیں، انہیں دیکھ کے گڈ ٹو سی یو کہتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ سیاسی جماعت ریلیف لینے کے لئے ان کے سامنے درخواست گزار تک نہیں ہوتی مگر وہ اسے نام لے کر ریلیف دیتے ہیں یعنی اسے نہ رٹ کرنے کی ضرورت نہ وکیل کرنے کی کہ ہمارے جج صاحبان موجود ہیں جو مکمل انصاف فراہم کرنے کی تھیوری پر آئین تک کو طاق پر رکھ رہے ہیں۔
ہمارے جج کہتے ہیں کہ فوج آئین کو سبوتاژ کرتی ہے تو بہت برا کرتی ہے، بہت غلط کرتی ہے (ویسے یہ بھی آج کل ہی کہا جا رہا ہے ورنہ ہم نے یہاں آمروں کو جائزیت دیتے ہوئے ہی نہیں، تین تین برس تک آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیتے ہوئے تک دیکھا ہے) مگر جب خود ان کے فیصلوں کو آئین اور قانون سے کوئی سپورٹ نہیں ملتی، وہ خو د آئین کو ری رائیٹ کرتے ہیں تو کیا یہ غلط نہیں ہے یعنی فوج کرے تو غلط اور جج کریں تو درست؟ ایسے تونہیں ہوتا ناں کہ ہم کریں تو رام لِیلا ہے، دوجے کریں تو کریکٹر ڈھیلا ہے۔ آئینی عدالت کے تمام مخالفین اس سے پہلے کسی نہ کسی موقعے پر اس کی ضرورت کا مقدمہ لڑچکے ہیں لیکن اب اس کی مخالفت محض اس لئے ہے کہ موجودہ حکومت کیوں بنا رہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مخصوص نشستوں والے فیصلے کے بعد حکومت، سپریم کورٹ کے ان ججوں سے خوفزدہ ہے جو آئین اور قانون سے ہٹ کر مخصوص نشستوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں تو وہ کچھ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عمران خان کہہ چکے کہ ان کے پسندیدہ جج اختیار اوراکثریت کے ساتھ الیکشن کا معاملہ کھولیں گے اور حکومت کو گھر بھیج دیں گے۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ حکومت کو محض مفروضوں سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے مگر کیا یہ محض مفروضہ ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پانامہ کے مقدمے میں ایک وزیراعظم کو اقامے کے الزام میں نااہل کر چکا ہے اور اس سے پہلے ایک اور چیف جسٹس افتخار چوہدری پیپلزپارٹی کے وزیراعظم کو بھی گھر بھیج چکا ہے۔ جب وزیراعظموں کو گھر ہی نہیں بلکہ جیل اور پھانسی تک بھیجنے کی ایک شرمناک تاریخ موجود ہے تو ایسے میں حکومت کیوں نہ خوفزدہ ہو اور اپنی بچت کے لئے راستے کیوں نہ ڈھونڈے۔
ہماری عدلیہ دنیا میں سب سے نچلے نمبروں پر ہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ وہ ملک کے ہر ادارے میں مداخلت کرے مگر کوئی اس میں مداخلت نہ کرے چاہے وہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی کیوں نہ ہو۔ میں نہ مانوں، والا گروہ اگر یہ چاہتا ہے کہ ریاست کے اندر ریاستیں بنی رہیں تو وزیراعظموں کے ہاتھ باندھتے رہیں (اور آپ کے یہ ہرگز مشکل نہیں کہ آپ تو گلے تک کاٹتے رہے ہیں)۔ بلاول بھٹو آج کل بہت میچور تقریریں کر رہے ہیں۔ انہوں نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ ججوں کا جج ہی تقرر کریں، یہ کہاں کا طریقہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ افتخار چوہدری کی بحالی والی تحریک کے بعد ججوں نے اپنے چیمبروں اور رشتے داروں سے ججوں کی تقرریاں کیں، نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ عدلیہ ایک مخصوص سوچ اور مفاد کا کلب بن کے رہ گئی، پھر جو کچھ ہوا اس کا تماشا پورا دنیا نے دیکھا اور عوام نے بھگتا۔
میں نہ مانوں، گروپ میں دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا اسٹیبلشمنٹ کو زچ کرنا چاہتا ہے کہ تم نے ہمیں کیوں نہیں جتوایا اور دوسرا اپنا انتقام لینا چاہتا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ سے وہ لوگ خوفزدہ ہیں جو اپنے کردار میں ان کے کردار کے الٹ ہیں جیسے قاضی صاحب نے کرپشن کے الزامات پر اپنے وقت کے فرعونوں کا مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے۔ جیسے وہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قائل ہیں۔ جیسے انہوں نے ریاست سے پلاٹ لئے نہیں بلکہ اپنا پلاٹ اسے دیا ہے۔ ایسے لوگ اس وقت میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔