سب سے پہلے تو ان سب دوستوں کا شکریہ، جنہوں نے میرے پچھلے کالم ’مجھے کرونا نہیں ہوا، پر اچھے اچھے پیغامات بھیجے اور محتاط رہنے کے مشورے دئیے۔ میرے اس کالم کا آخری پیراگراف اسی بارے تھا کہ اگر مجھے کرونا ہوجائے تو اس کے بعد آپ کو ایک زیادہ بہتر نجم ولی خان ملے گا مگر لگتا ہے کہ یہ ایک زیادہ بولنے کے قابل موضوع ہے خاص طور پر جب میں بہت سارے ڈاکٹروں، نرسوں، حکیموں اورمریضوں سے ڈھیروں ڈسکشن کر چکا اور اپنے اس یقین کا اعادہ کر چکا ہوں کہ عزت، صحت، رزق اور زندگی سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔
بنیادی بات تو یہ ہے کہ اگر کرونا ہوگا تو اس کی تین اقسام ہو سکتی ہیں۔ پہلی قسم تو یہ ہے کہ مجھے کرونا ہو مگر اس کے باوجود نہ گلا خراب ہو اور نہ ہی بخار ہو، بس ہلکا پھلکا آئے اور ہو کر چلا جائے مگر اس میں خرابی یہ ہے کہ میں ٹیسٹ نہیں کرواوں گا کیونکہ مجھ میں کوئی علامت ہی نہیں ہوگی مگر میں وائرس پھیلاتا پھروں گا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ وائرس جو میرے مدافعتی نظام کے سامنے شکست کھا جائے کسی دوسرے کے جسم میں جا کے اس کی کمزور ایمیونٹی پر قابو پاتے ہوئے تباہی مچا دے۔ یقین کیجئے ایسے بہت سارے مریض ہمارے درمیان ہوں گے اور انہی کے بارے میں پی ایم اے نے نشاندہی کی ہے کہ صرف لاہور میں کرونا کے پازیٹیو کیس ساڑھے تین ملین تک ہوسکتے ہیں۔ اب اس کا کچھ نہیں ہوسکتا، بس دعا ہی ہوسکتی ہے۔
کرونا کی دوسری قسم یہ ہے کہ بخار بھی ہو اور پیٹ بھی خراب ہوجائے۔ اسی طرح سونگھنے اور چکھنے کی حس بھی ختم ہوجائے۔ یہ کرونا کی عمومی علامات ہیں جس کے بعد اگر کسی کو دل، جگر، گردوں کی کوئی بیماری ہے، اسے ہائپر ٹینشن یا ذیابیطس کا مرض ہے تو فوری طور پرمحتاط ہوجانا چاہئیے کیونکہ کرونا جہاں پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ خون میں کلاٹس بھی بنانے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانی جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسانی جسم میں باقی تمام امراض بھی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں اور اگر کرونا جان نہ بھی لے تو کوئی دوسرا مرض لے لیتا ہے۔ مجھے فی الحال کوئی دوسرا مرض نہیں تومیں ٹیسٹ پازیٹیو آنے کی صورت میں ہوم آئسو لیشن کا آپشن ہی لوں گا۔ میرے پاس ایک علیحدہ بیڈ روم اور اس کے ساتھ اٹیچڈباتھ روم موجود ہیں جہاں آئسولیشن سے باقاعدہ لطف اندوز ہواجا سکتا ہے۔ ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے بہت سارے دوست قرنطینہ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر متحرک کیوں نہیں ہو رہے، وہ اپنا وقت اوردماغ بیماری میں کھپانے کی بجائے کسی دوسری طرف کیوں نہیں لگا رہے، یہ درست ہے کہ بخار کی صورت میں بندے کا موڈ خراب رہتا ہے اور وہ شغل نہیں لگا سکتا مگر جیسے ہی بخار کم ہو تو تھوڑی بہت انجوائے منٹ ضروری ہے۔
میرے بہت سارے ڈاکٹر دوست ہیں اور ان سے مشورے کئے جا سکتے ہیں کہ کون سے دوا لی جائے اور کون سی نہ لی جائے جیسے پیراسیٹا مول کے حق میں سب رائے دیتے ہیں مگر کلوروکوئن، ڈیکسامیتھا زون جیسی ادویات منع کی جا رہی ہیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ وٹامن سی مہنگی ہو گئی ہے تو ڈاکٹر اظہار چوہدری نے ترنت جواب دیا کہ لیموں کا ریٹ اب کم ہو گیا ہے، اس سے بہتر وٹامن سی کہیں نہیں مل سکتی۔ حکیم عطاءالرحمن صدیقی خاندانی حکیم ہیں اور وہ بتا رہے تھے کہ سنا مکی کا کرونا یا سانس کی بیماری میں کوئی کردار نہیں بلکہ اسے قبض کی صورت میں ہی استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر آ پ کو السر ہے، معدے میں زخم ہے اور آنتوں میں سوزش ہے تو اس کا استعمال درست نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جب ہم سنا مکی کا قہوہ پیتے ہیں تو اس سے پیٹ صاف ہوجاتا ہے اور طبیعت ہلکی پھلکی محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں اور حکمیوں کا اتفاق ہے کہ قوت مدافعت بڑھانے کے لئے اگر شہد، زیتون، بادام، کشمش وغیرہ استعمال کئے جائیں، ادرک لہسن اور لیموں کو غذا کا حصہ بنایا جائے تو یہ مفید ہے۔
ویسے اگر اکیلے رہنے اور آرام کرنے کے لئے پندرہ بیس دن مل جائیں تو اس میں سب سے مزے کا کام تو نیند پوری کرنا ہے۔ میرا ڈاکٹروں کے مشوروں کے بعد خیال ہے کہ اگر نیند دس، بارہ گھنٹے بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نیند کے دوران آپ کا جسم بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ اگر بخار میں شدت نہ ہو تو یہی موقع ہے کہ قرآن پاک پڑھاجائے۔ پندرہ دنوں کا اگر شیڈول بنا لیا جائے اور روزانہ صبح اور شام ایک ایک گھنٹہ قرآن پاک پڑھا جائے تو اگر آپ بیس منٹ میں پارہ ختم کر لیتے ہیں تو پندرہ دنوں میں تین مرتبہ قرآن پاک ختم کر سکتے ہیں اور اگرایک پارے میں ایک گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے تو کوئی بات نہیں، ایک مرتبہ تو ختم ہوسکتا ہے۔ اس تنہائی میں نماز کی پابندی بھی ہوسکتی ہے، اللہ اللہ، صرف ہم ہوں اور ہماری رب سے باتیں ہوں۔ نماز جسمانی اور نفسیاتی دونوں حوالوں سے شفا کا باعث بنتی ہے، اس وقت واقعی ٹینشن دور ہوجاتی ہے جب ہم یقین کر لیتے ہیں کہ شفا اور زندگی اللہ تعالیٰ نے ہی دینی ہے، ہم نے صرف حیلہ اور وسیلہ کرنا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس مرض کا مقابلہ وہ لوگ زیادہ اچھے طریقے سے کر رہے ہیں جو اپنے دماغ کے ہاتھوں خوف کے یرغمال نہیں بن رہے، وہ دماغ کے ہاتھوں کنٹرول ہونے کی بجائے خود اپنے دماغ اور اس کے ذریعے پورے جسم کو کنٹرول کر رہے ہیں، موٹیویشنل سپیکروں کا یہ فقرہ درست ہے کہ دنیا ویسی ہی ہے جیسا آپ اسے دیکھتے ہیں۔ باقی وقت انٹرنیٹ کے لئے ہو سکتا ہے اور اس میں اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک پر بھی اچھا وقت گزارا جا سکتا ہے۔ میں اس وقت کو اس پلاننگ کے لئے بھی استعمال کر سکتا ہوں کہ صحت یاب ہونے کے بعد کیا کرنا ہے۔
کرونا کی ایک تیسری قسم بھی ہے اور وہ ذرا مہلک ہے۔ اس سے ان لوگوں کو زیادہ ڈرنا چاہئے جن کی عمر پچاس برس سے زیادہ ہے، وہ سگریٹ یا شراب نوشی کرتے رہے ہیں یا انہیں کسی قسم کے دوسرے خطرناک مرض ہیں۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اگر مجھے کرونا ہو گیا تو میں پوری کوشش کروں گاکہ ہسپتال نہ ہی جاوں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جن لوگوں کو وینٹٰی لیٹر کی ضرورت ہے وہ لاکھوں روپے ہاتھوں میں لے کر پھر رہے ہیں مگر انہیں وینٹی لیٹر نہیں مل رہا مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ وینٹی لیٹر سے واپسی کی پرسنٹ ایج اتنی کم ہے کہ میں آپ کو بتانا بھی نہیں چاہتا۔ ہوتا یہ ہے کہ کرونا کے حملے کی وجہ سے مریض کے پھیپھڑے پہلے ہی فارغ ہوتے ہیں اور اس کے بعد وینٹی لیٹر کا پریشر درست نہیں رہ پاتا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر تحقیق کے مطابق خود وینٹی لیٹر موت کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسرے معاملہ یہ ہے کہ اب تک بڑی تعداد میں ہیلتھ پروفیشنلز خود کورونا کے شکار ہو چکے اور موت کے منہ میں جا چکے۔ اب صورتحال کا اندازہ لگائیں کہ کسی بھی مرض کا شکار کوئی بھی مریض کسی بھی ہسپتال میں پہنچتا ہے تو ڈاکٹر اسے ہاتھ تک نہیں لگاتے اورنتیجہ یہ نکلتا ہے وہ کورونا سے مرے نہ مرے اپنے کسی دوسرے مرض میں انٹینسیو کئیر نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ میں اس پر اپنے ڈاکٹروں کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہراتا کہ جب حکومت بار بار احتجاج کے باوجود انہیں پی پی ایز نہ دے رہی ہو تو کون موت کے منہ میں جانا پسند کرے گا۔
کرونا میں اگر بات پھیپھڑوں کی تباہی تک پہنچ جائے تو پھر بچنا مشکل ہے مگر اس سے ہٹ کر اٹھانوے فیصد لوگ صحت یاب ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان میں بھی صحت یاب ہونے والوں کی تعداد اور رفتار دونوں ہی اطمینان بخش ہیں۔ یہ درست ہے کہ بخار وغیرہ بھی تکلیف دیتے ہیں کہ مرض ہے اورہر مرض تکلیف اور پریشانی کے سوا کیا ہے لیکن اگر آپ کسی تکلیف اور پریشانی کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں اور آپ خود کو پیغام دے رہے ہوں کہ آپ اس پر قابو پا سکتے ہیں تو یہ کشتی کے مقابلے جیسا ہے جس میں آپ ننانوے فیصد جیت جاتے ہیں اگر آپ واقعی جیتنے کا اعتماد رکھتے ہوں اور ننانوے فیصد آپ کی ہار ہے اگر آپ ذہنی طور پر مخالف کے تھلے لگے ہوں لہذااگر مجھے کورونا ہوتا ہے تو ہوجائے کہ یہ تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مقابلہ ایسا کروں گا کہ میاں کرونا خان تم یاد رکھو گے۔