یہ بحث بہت پرانی ہے کہ قوموں کی تشکیل میں افراد زیادہ اہم ہیں یا ادارے۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر مستقل اور پائیدار ترقی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ادارے بنانے ہوں گے، انہیں مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ افراد آتے جاتے رہتے ہیں، ادارے قائم رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی جڑا ہوا سوال یہ ہے کہ اداروں کو ادارے بناتا کون ہے، یہ افراد ہی ہوتے ہیں جو ان کی "کپیسٹی بلڈنگ" کرتے ہیں اوریہ بھی افراد ہی ہوتے ہیں جن کی قیادت اور قابلیت سے ادارے چیلنج قبول کرتے ہیں۔ میں نے لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو کام کرتے ہوئے دیکھا، یہ درست ہے کہ بہت سارے مقامات پر اس ادارے سے بہت ساری شکایات بھی ہیں مگر اس کے باوجود یہ ادارہ چیلنج قبول کرتاہے اور انہیں پورا بھی کرتا ہے۔ میری شیخ محمد عمران سے پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے جب وہ اپٹما کی نمائندگی کرتے ہوئے میرے پروگرام میں آئے تھے مگر اب وہ ایل ڈی اے کو بطور وائس چیئرمین لیڈ کر رہے ہیں۔ میں نے ان سے لارنس روڈ پر، باغ جناح کے ساتھ، ایک بہت بڑے واٹر ٹینک کی تعمیر پران سے مکالمہ کیا جو اس علاقے کا بارشوں کے دنوں کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے جا رہا ہے۔ لارنس روڈ پر آپ لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ سے چائنہ چوک کی طرف آئیں یا چائنہ چوک سے چڑیا گھر اور پھر مال روڈ پر جانے کی کوشش کریں تو یہ علاقہ بالکل لکشمی چوک کی طرح ایک پیالے کی طرح ہے جس میں بارشوں کے دوران ارد گرد علاقے کا سارا پانی جمع ہوجاتا رہا ہے مگر اب نہیں ہوگا۔
میں اداروں کے ساتھ ساتھ افراد کو کیوں اہمیت دیتا ہوں تو اس کے پیچھے حکیم الامت کی یہ سوچ بھی ہے کہ ہر فرد ہے ملت کے مقدرکا ستارہ، مگرسوال یہ ہے کہ کتنے افراد چمکتے ہیں، اپنی اہلیت اور صلاحیت اپنے کام اور نتائج سے اپنا آپ ثابت کرتے ہیں۔ اس کی مثال آپ کسی بھی سرکاری تعلیمی ادارے سے لے سکتے ہیں کہ اگر وہاں ایک اچھا پرنسپل آجائے تو وہ ادارہ اپنے نظم و ضبط اور پڑھائی میں بہت بہتر ہوجاتا ہے اور اگرکوئی نااہل اور نکما سربراہ بن جائے تو اسی کے نتائج گرنے لگتے ہیں۔ میرے ساتھ ایس ایم عمران کا یہ وعدہ ہے کہ ہم فردوس مارکیٹ انڈر پاس کی بروقت تعمیر پر بھی ایک پروگرام کریں گے جس کے بارے میں میڈیا اور باالخصوص سوشل میڈیا پر ڈھیر سارے شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے تھے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ لاہور کے اس انڈرپاس کا منصوبہ پشاور میں بی آر ٹی تعمیر کرنے والی کمپنی کو ہی دے دیا گیا ہے جس کے بعد اس کا بھی اللہ ہی حافظ ہے مگر میں نے ریورراوی فرنٹ ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کی تفصیلات ڈسکس کرتے ہوئے بھی ان سے پوچھا تو وہ اپنے وعدے پر قائم تھے کہ ہم چھ ستمبرکوجس میں اب صرف پچیس دن باقی رہ گئے ہیں اس انڈر پاس کی تکمیل پر وہاں موقعے پر کھڑے ہو کر پروگرام کریں گے یعنی بی آر ٹی کی تکمیل کی وجہ سے جس پروپیگنڈے اور خفت کا سامنا ہے وہ یہاں لاہور میں ایل ڈی اے کے منصوبے سے دور ہونے کے بارے وہ پریقین ہیں۔ ایل ڈی اے ہی کے ادارے واسا نے لارنس روڈ پر بارشی پانی کو جمع کرنے کے لئے جو واٹر ٹینک بنایا ہے اس پر پندرہ کروڑ روپے لاگت آئی ہے، اس کا رقبہ چودہ ہزار مربع فٹ اور گہرائی پندرہ فٹ ہے۔ اس میں چودہ لاکھ گیلن پانی جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ایس ایم عمران بتا رہے تھے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد بادامی باغ میں بھی برساتی پانی کو جمع کر کے استعمال میں لانے کے انڈر گراونڈ ٹینک بنائے جائیں گے، جس سے نہ صرف یہ علاقے نہیں ڈوبیں گے بلکہ یہ پانی پارکوں اور گرین بیلٹس کوبھی دیا جاسکے گا۔
ایس ایم عمران، مجھے لگتاہے کہ نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم پر کام شروع کر وا سکیں گے جو ابھی تک صرف وعدوں، دعووں اور اعلانات میں ہی ہے۔ وہ سرکاری ملازمین کم آمدن والے افراد کو فلیٹس دینے کا منصوبہ فاسٹ ٹریک پر لے آ ئے ہیں اور انیس ہزار سے کچھ زیادہ کنالوں پر 35ہزار 32فلیٹوں کی تعمیر کا لے آوٹ پلان تیارہو گیا ہے جس میں سرکار کاکوئی پیسہ خرچ نہیں ہو گا، ایل ڈی اے سٹی کے ساتھ ساڑھے چھ سو سے پندرہ سو مربع فٹ تک چار سے بارہ منزلہ بلندی والے ایک ہزار کے قریب بلاکس بنیں گے۔ اس پراجیکٹ میں اچھی بات یہ ہے کہ ہم رہائشی منصوبوں میں ورٹیکل کنسٹرکشن کی طرف جائیں گے جو اس سے پہلے ہمیں عسکری فلیٹس میں نظر آتی ہے۔ میں نے اس طرز تعمیر کو استنبول سمیت دیگر جدید شہروں میں دیکھا ہے، استنبول میں بھی وہاں کی بلدیہ نے ایسی عمارتیں بنائیں اور انہیں کم قیمت پر کم آمدن والے لوگوں کو فراہم کیا۔ ایس ایم عمران، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈڈیویلپرز کو بھی لیڈ کرتے رہے۔ میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ یہاں مفادات کا ٹکراو ہوسکتا ہے کہ ہمارے بلڈرز اور ڈویلپرز ہمارے ریگولیٹری اداروں سے زیادہ سے زیادہ مراعات چاہتے ہیں مگر دوسری طرف جب موجودہ حکومت کنسٹرکشن انڈسٹری کو دوبارہ پاوں پر کھڑا کرنے جا رہی ہے تو ان کا یہی کردار حکومت اور ڈیویلپرز کے درمیان پُل کا بھی ہو سکتا ہے۔ ہماری کنسٹرکشن انڈسٹری سے درجنوں چھوٹی اور بڑی صنعتوں کاپہیہ جڑا ہواہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر کے لگ بھگ انڈسٹریز اور پھر ان سے جڑے ہوئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں محنت کش اور ہنر مند۔ موجودہ حکومت کے جس اقدام کی سب بلاتفریق تعریف کرتے نظر آتے ہیں وہ اسی کنسٹرکشن انڈسٹری کی بحالی کے لئے اقدامات ہیں جس سے بے روزگاری میں کمی لائی جا سکتی ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کیا جا سکتاہے، ایس ایم عمران کا اس پیکج میں بھی کردار ہے، وہ وزیر نہیں ہیں مگر موجودہ حکومت میں وزیراعلیٰ کے بعد اہم ترین کردارادا کر رہے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ ریور راوی فرنٹ ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ بھی ایل ڈی اے کا ہی ایک منصوبہ تھا مگر اب اس کے لئے ایک الگ اتھارٹی بنا دی گئی ہے۔ میرے اس منصوبے کے حوالے سے بہت سارے تحفظات اور سوالات ہیں جن کا میں الگ کالم میں ذکر کروں گا مگر میں سمجھتاہوں کہ اگر یہ منصوبہ ایل ڈی اے کے پاس ہی رہتا او ر اس کی ایک الگ سٹیئرنگ کمیٹی بن جاتی تو ایل ڈی اے موجودہ قیادت میں اسے زیادہ تندہی کے ساتھ مکمل کر سکتا تھا۔ ایک نئی اتھارٹی بہت برس تو اپنے وجود کو بنانے اورمنوانے میں ہی لگا دے گی اور موجودہ حکومت کی مدت پوری ہوجائے گی۔ ہمارے سکڑتی جی ڈی پی، گرتے گروتھ ریٹ، بڑھتی مہنگائی وغیرہ وغیرہ سے بہت سارے خوف جڑے ہوئے ہیں مگر یہ بات واقعی طے شدہ ہے کہ تعمیراتی کام بہت کچھ تبدیل کر سکتے ہیں، جہاں ایل ڈی اے اور اس سے جڑے اداروں میں متحرک، فعال اور کام کرنے والوں کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہاں سے ہمیں نتائج بھی موصول ہو رہے ہیں جیسے ایل ڈی اے میں ایس ایم عمران، واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی ( واسا) میں شیخ امتیاز محمود، پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی میں یاسر گیلانی جو اداروں کو آگے لے کر جا رہے ہیں، جہاں مسائل حل ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، کام ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اداروں کی کپیسٹی، بلڈنگ ہو رہی ہے۔
میں پھر کہوں گا کہ قوموں کے لئے مضبوط ادارے بہت ضروری ہیں اور ادارے صرف پارلیمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج کا نام نہیں، ہمیں اپنے تمام اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں ایسے سیاستدان ہوں گے جو ملک، قوم، آئین اور جمہوریت کے ساتھ مخلص ہوں گے تو پارلیمنٹ مضبوط ہو گی۔ جج ایسے فیصلے کریں گے جو پوری دنیا میں فخر کے ساتھ پیش کئے جا سکیں گے اور خود ہماری عدلیہ میں نظائر بنیں گے تو عدلیہ مضبوط ہو گی اور اسی طرح تمام ادارے۔ بلاشبہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہے مگر اس کے لئے مضبوط افراد اور باصلاحیت قیادت ضروری ہے اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کورونا کے بعد اس مشکل وقت میں بھی ایل ڈی اے آگے بڑھ رہا ہے، یہ خوش آئند ہے، اس پر شیخ محمد عمران تعریف اورمبارکباد کے مستحق ہیں۔