یہ ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے کہ ہمارے کئی دوست شدید قسم کی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ وہ عشروں سے اس یقین میں ہیں کہ دنیا ان کے سینگوں پر قائم ہے۔ جب وہ سر ہلاتے ہیں تو دنیا میں زلزلے آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ ان کے مشوروں پر چلتے ہیں۔ وہ اب بھی یاد کرتے ہیں کہ وہ ناشتوں کے وقت اور رات کے کھانوں کے بعد بھی اچانک بڑی بڑی فصیلوں میں فہم و فراست کی بڑی بڑی بوریوں کے ساتھ بلا لئے جاتے تھے۔
پھر باتیں بھی ہوتی تھیں اور گھاتیں بھی مگر دو، دو والے سال کی سردیوں سے اب دو، چار والے سال کی گرمیاں آگئیں کوئی ان سے ملاقات ہی نہیں کر رہا، کوئی ان کے مشورے ہی نہیں لے رہا، ہائے کیا ممکنہ طور پر دو، پانچ والے سال کے موسم سرما سے دو، آٹھ والے سال کے آخر تک کیا اب یہ بلبلیں پنڈی میں نہیں گنگنائیں گی، تیغ وسنان کو اول سمجھنے والے ایک حافظ قرآن ان کے قیمتی مشوروں کے بغیرہی معاملات کیسے چلا تا رہے گا؟
یہ بات انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جو ستر برس سے نہیں ہوا وہ اب کیسے ہو رہا ہے یعنی چین، ایران، افغانستان اور بھارت کے ہمسائے میں واقع ایک ملک کی سپاہ اس ملک کے آئین کے عین مطابق کیسے چل رہی ہے۔ جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اُس ملک میں آج سے تین برس پہلے ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ سیاست اور عدالت میں مداخلت نہیں ہوگی، اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا گیا تھا تو وہ یقین نہیں کرتے۔ وہ ایک مسکراہٹ چہروں پر سجاتے ہیں، کہتے ہیں، تم بھولے ہو اور احمق بھی، بھلا یوں کبھی ہوا ہے۔
ہم نے تو کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اب مداخلت نہیں ہو رہی اور ابھی کل، پرسوں ہی اس ملک کے قاضی القضاۃ نے سمندر کنارے کالے کوٹوں والوں سے خطاب کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا کہ ان کے دورمیں کسی ایک منصف نے بھی مداخلت کی شکایت نہیں کی۔ وہ وقت پرانا تھا جب کہا جاتا تھا کہ سرینا ہوٹل سے کوئی لفافہ نکلتا ہے اور سڑک پار دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس دلیل کو بھی نہیں مانتے کہ اپنی ہی فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والوں گڈ ٹو سی یو بھی کہا جاتا ہے، ان تمام جرائم میں بھی ضمانتیں لے لی جاتی ہیں جو انہوں نے مستقبل میں کرنے ہوتے ہیں تو وہ پھر بھی نہیں مانتے، انہیں واقعی یقین نہیں آتا۔
میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت اہم ہے۔ میں بھی کہتا ہوں کہ واقعی بہت اہم ہے مگر وہ اس وقت سیخ پا ہوجاتے ہیں جب میں انہیں بتاتا ہوں کہ ایک مسنگ پرسن سمندر کنارے دفتر پر دہشت گردانہ حملے کرتے ہوئے مارا جاتا ہے اور ایک دوسرا مسنگ پرسن منشیات کی فروخت کے جرم میں سمندر کے دوسرے کنارے کی جیل سے برآمد۔ کئی مسنگ پرسنز ایک دوسرے ملک کی سرزمین پر سُرمچار بنے ملتے ہیں۔ یہ عجب ہے کہ دہشتگردی کرنے والوں کے لیے دانشوروں کی ہمدردیاں ہیں مگر جو اپنی جانیں قربان کرکے اس دہشت گردی کو روک رہے ہیں وہ ان کے نشانے پر ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ لوگوں کو ماورائے آئین غائب نہیں ہونا چاہئے مگر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ لوگوں کو بموں کے دھماکے بھی نہیں کرنے چاہئیں، انہیں ملک و قوم کی محافظ افواج پر حملے بھی نہیں کرنے چاہئیں، یہ سب ماورائے آئین بھی ہے اور انسانیت کے بھی خلاف، آہ، مگر وہ سب سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا نہیں چاہتے۔
میرے کچھ دوستوں کا اصرار ہے کہ اڈیالہ کے باسی سے بات چیت کی جائے مگر سوال ہے کیا جب وہ ایوان وزیراعظم کا باسی تھا تب اس نے لاہور والوں سے بات چیت کی تھی۔ اگر نو مئی کو بھارت میں جشن کا سماں پیدا کرنے والے سے ہی بات چیت کرنی ہے تو پھر ملک بھر کی جیلوں میں بند ہر قتل اور ڈکیتی کے ہر مجرم سے بھی بات چیت کی جائے کہ وہ جرم اس سے بڑے جرم نہیں ہیں۔ وہ ڈراتے ہیں، اگر بات چیت نہ کی تووہی ہوگا جو اکہتر کی سردیوں میں ہوا تھا مگر میں کہتا ہوں کہ ناں میرے چن ناں۔ اک سیاسی قیادت کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کوئی زمینی تعلق ہی نہیں تھا اور درمیان میں ا یک دشمن بیٹھا ہوا تھا۔
میں ان سے کہتا ہوں کہ مجیب الرحمان کو بھی عدالتوں سے اسی قسم کے ریلیف ملتے تھے جس قسم کے آج دھمکیاں دینے والوں کو ملتے ہیں تو وہ حیران ہو کے گوگل کرنے لگتے ہیں۔ میں کچھ دوستوں کو واقعی مارجن دیتا ہوں جب میں انہیں بطور باپ دیکھتا ہوں۔ میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں غیر آئینی ہیں تو ان سے پوچھتا ہوں کہ اپنے ہی ملک میں اپنی ہی فوج پر جا کے حملہ کرنا کیا آئینی ہے۔ یہی کام بھارت، انگلینڈ یا امریکا میں ہوا ہوتا تو کیا وہاں کا میڈیا بھی حملہ آوروں کا وکیل بنا ہوتا، مان لیجئے، یہ دانش کا غلط استعمال ہے۔ میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ سابق حکمران کی رخصتی غیر آئینی عمل تھی مگر میں ان سے بحث کرتا ہوں کہ ا س سے زیادہ آئینی
اور سیاسی عمل ہی کوئی نہیں تھا کہ جن اتحادیوں کو ڈنڈے کے زور پر بنی گالہ کے مکین کے نیچے لگ رکھا تھا ان سے ڈنڈا ہٹا لیا گیا، انہیں سیاسی فیصلے کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ وہ ملکی تاریخ کا پہلا حکمران تھا جو سو فیصد آئینی طریقے اور سیاسی قوتوں کے ذریعے اقتدار سے نکلا۔
یہ بات نہیں کہ میرے دوست نہیں سمجھتے۔ وہ سب سمجھتے ہیں اور بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ اب ان کے پاس ہماری محفلوں میں بیٹھ کے یہ بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہ وہ فلاں طاقتور شخصیت کے پاس بیٹھ کے دو گھنٹے تک جو مشورے دیتے رہے من و عن ان پر اسی طرح عمل ہوا۔ کوئی یوٹیوبر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ملک کی طاقتور ترین شخصیت ناشتے کے وقت اس کا وی لاگ سنتی ہے۔ سو جب یہ خبریں آتی ہیں کہ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق چل رہا ہے تو وہ پریشان ہوتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ میرے بہت سارے مہربانوں کے پاس ڈھیر سارے قیمتی مشورے کلبلا رہے ہیں۔ ان کی ذہنوں کی پٹاریوں سے نکلنے کے لئے بے تاب ہیں۔ سو ان کا اصل مسئلہ نہ حکومت کی تبدیلی ہے نہ ہی انتخابات، مسئلہ نہ مسنگ پرسنز ہیں نہ ہی کسی سے مذاکرات، مسئلہ وہ ایک ملاقات ہے جو ڈیڑھ برس سے ہو نہیں پا رہی۔ اب آپ اس کالم کو آغاز سے دوبارہ پڑھیے کہ یہ انتہائی اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے کہ ہمارے کئی دوست شدید قسم کی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ وہ عشروں سے اس یقین میں ہیں کہ دنیا ان کے سینگوں پر قائم ہے۔ جب وہ سر ہلاتے ہیں تو دنیا میں زلزلے آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ ان کے مشوروں پر چلتے ہیں۔