جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بنچ نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کی درخواستوں پر جو تفصیلی فیصلہ جاری کیاہے وہ محض سترہ مارچ کو ہونے والی ضمانت کا نہیں بلکہ وسیع تناظر میں وہ پاکستان کی حالیہ لکھی گئی سیاسی تاریخ کے مقدمے کاتاریخ ساز فیصلہ ہے۔ ٹو ڈی پوائنٹ بات کی جائے تو نیب کے اس پورے کیس کو ہی ختم کردیتا ہے جسے وہ سیاسی کارکنوں کی کرپشن کے عنوان سے پیش کرتا ہے۔ یہ ستاسی صفحات نیب جیسے ادارے کے قیام، کارکردگی اوراس کے ذریعے حاصل کئے گئے سیاسی نتائج پر بھی مکمل چارج شیٹ ہیں۔ میں ماہر قانون نہیں ہوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ ماتحت عدالتوں میں موجود تمام ایسے نیب کیسز کو ختم کرنے کی طاقت اور اہلیت رکھتا ہے جو سیاسی مخالفین پر احتساب کے نام پر درج کئے گئے۔
میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں کہ یہ محض ضمانت کیس کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اپنے اثرات میں یہ نیب کے پورے ریفرنس کو اٹھا کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ معزز عدالت نے آبزرو کر لیا کہ پیراگون ایک باقاعدہ طور پر منظور شدہ ہاوسنگ سوسائٹی ہے جس کا حصہ شاملات کی زمین نہیں بنائی گئی۔ شاہد بٹ اور حاجی رفیق کے جن تنازعات کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ ان میں سے اول الذکرسول نوعیت کا کیس تھا اور معاملہ طے پا چکا تھا اور حاجی رفیق کا معاملہ بھی پہلے عدالت میں زیر سماعت رہ چکا ہے لہٰذا یہ ایک راز ہے کہ اس کیس کو کیسے بنایا گیا کیونکہ ریفرنس اور تفتیشی رپورٹ میں واضح تضادات ہیں۔ یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ زمین کا تبادلہ قانون کے عین مطابق تھا۔ پیراگون کی ایگزیکٹوز کو ادائیگیاں باقاعدہ طور پر ڈیکلئیرڈ تھیں جن پر نہ صرف ٹیکس ادا کیا گیا بلکہ یہ لین دین باقاعدہ کراس چیکس کے ذریعے ہوا اوریہاں اڑسٹھ میں سے باسٹھ شکایت کنندگان کی شکایات کا ازالہ ہوچکا ہے۔ بنیادی طور پر تمام باتیں اس کیس کے بارے میں ہیں جس کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خواجہ سعد رفیق بطور وزیر ریلویز حلف نامہ لیا تھا اور وہ حلف نامہ حرف بحرف درست ہوگیا۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا کہ خواجہ برادران کے خلاف کیس انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے۔ یہ فیصلہ شہباز شریف کی ہائی کورٹ سے ضمانت کے فیصلے کی یاد دلاتا ہے جس میں معزز عدالت نے نیب کے ریفرنسز کو ایکسپوز کر کے رکھ دیا تھا اور پھر جناب ثاقب نثار کو کہنا پڑا تھا کہ ضمانت کے مقدمے میں کیس کو ڈسکس کیوں کیا گیا۔ یہ بات قانون دان تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ضمانت میں کیس ہی ڈسکس ہوتا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں، ضمانت کے مقدمے میں ہی کیس کا پچاس سے اسی فیصد فیصلہ ہوجاتا ہے جو یہاں سو فیصد ہو گیا ہے اور اب نیب کورٹ کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا۔
بات صرف ضمانت کی اس درخواست کی نہیں ہے جس کا ابتدائی فیصلہ آنے سے پہلے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کو سوا برس سے زائد کی قید بھگتنا پڑی بلکہ یہ تفصیلی فیصلہ بتاتا ہے کہ مقدمہ کچھ اور تھا۔ یہ وہ مقدمہ تھا جو براہ راست دائر ہی نہیں کیا جا سکا اور ہمارے معروضی حالات بتاتے ہیں کہ دائر بھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ یہاں ہاتھوں نے دستانے اور چہروں نے نقاب پہن رکھے تھے۔ چہرے اور ہاتھ نظر بھی آتے تھے مگر فنگر پرنٹ نہیں پکڑے جاسکتے۔ یہ پاکستان کی اس سیاسی تاریخ کا مقدمہ ہے جو دھرنوں سے شروع ہوئی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے ایک مرتبہ پھر عہدہ چھین لیا گیا، انہیں جیل بھیجا گیا اور پھر جلاوطنی کی تاریخ دہرائی گئی۔ یہ فیصلہ اس وقت کھڑے کئے گئے سیاسی نظام کو پوری طرح ایکسپوز کرتا ہے۔ یہ اس تھیوری کی بھی نفی کرتا ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک بڑا جرم ہوتا ہے۔ اس فیصلے کاآغاز عظیم قانون دان جان سٹوارٹ مل کے ایک قول سے ہوتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ جب ریاست بظاہر خوش کن عنوانات کے تحت رہنماوں کو اپنا مطیع بنانے کے لئے ان کا قد گراتی ہے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ بونوں کو اقتدار میں لاکر کوئی عظیم کارنامہ سرانجام دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ فیصلہ اپنے اختتامی صفحات میں اس فلسفے کی بھی نفی کرتا ہے جس کے تحت ماضی قریب میں یہ کہا جاتا تھا کہ عدالتوں کو ( من چاہے) انصاف کے حصول کی راہ میں قوانین اور ضوابط کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے اوریہ کہ قانون وہی ہو گا جو منصف چاہے گا۔ یہ فیصلہ کہتا ہے کہ اس معاشرے میں شہری آزادیاں اور حقوق محفوظ نہیں رہتے جہاں من چاہے نتائج کے لئے جائز عمل اور قانونی ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔
ہم کسی حقیقی آئینی اور جمہوری معاشرے میں ہوتے تو یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی بحث ہوتا اور فوری طور پر نیب جیسے ادارے کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہوتا۔ ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک رہے ہوتے، خود احتسابی کا عمل شروع ہو چکا ہوتاکیونکہ یہ فیصلہ لگی لپٹی رکھے بغیر بتاتا ہے کہ جمہوری اقدار، احترام، برداشت، شفافیت اور مساوات کو مذاق بنا دیا گیاہے، نیب سیاسی لائن کی دوسری طرف (جس طرف پی ٹی آئی او ر اتحادی ہیں ) کھڑے افراد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ یہ فیصلہ خاموش نہیں ہے، دبے لفظوں میں بھی نہیں ہے، یہ فیصلہ چیخ رہا ہے، چنگھاڑ رہا ہے کہ بہتر برس کے بعد بھی عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ بار بار غیر آئینی مداخلت، ہوس اقتدار، ہر چیز پر قبضے کی خواہش نے اداروں کی توہین کی، بدنما ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ ہولڈر لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھادیا گیا۔ اس فیصلے میں کچھ ایسا نہیں ہے جو اہل دل اور اہل نظر کے لئے نیا ہو مگر بہرحال کہیں کی اینٹ اور کہیں کے روڑے سے جوڑے گئے بھان متی کے کنبے کی حقیقت پوری طرح کھول کے رکھ دی ہے۔ اس فیصلے کے الفاظ برطرف کئے گئے جج ارشد ملک کے ایکسپوز ہونے کے عمل کے تسلسل میں ہیں، یہ صرف خواجہ برادران کی ضمانت کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ نواز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناءاللہ خان، احسن اقبال، حنیف عباسی اور ایسے بہت سارے دیگر اپوزیشن رہنماوں پر الزامات کا بھی بالواسطہ جواب ہے۔
یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں بھی اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ہماری الماریاں نظریہ ضرورت کے تحت کئے گئے فیصلوں سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے پاس ایسے فیصلوں کے ڈھیر ہیں جنہیں ہم اپنی ہی عدالتوں میں بطور نظیر پیش نہیں کر سکتے۔ ان فیصلوں میں ہم نے مارشل لاوں کو جائزیت عطا کی ہے، منتخب وزیراعظموں کو کبھی پھانسی دی ہے اور کبھی جیلوں میں بھیجا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ایک سو اٹھائیس ملکوں کی رینکنگ میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہم ایک سو بیسویں نمبر پر کھڑے ہیں، یہ پوزیشن بتاتی ہے کہ دنیا ہمارے عدالتی نظام کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ میں گُمان رکھتا ہوں کہ یہ فیصلہ کتابوں میں دفن نہیں ہوگا جبکہ چراغ بنے گا جو اس اندھیرے راستے میں جمہوری سیاسی کارکنوں کی مدد کرے گا۔ اس فیصلے کو آسانی سے نظرانداز یا مسترد نہیں کیا جاسکے گابلکہ ان درجنوں سے بھی زیادہ مقدمات میں نظیر بنے گا جہاں نیب نے موجودہ حکمرانوں کی ہاتھ کی چھڑی کا کام کیا ہے۔ سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو ہانک کر ایک مخصوص سیاسی باڑے میں لے جانے کی کوشش کی ہے۔ یہ فیصلہ ملکی معیشت کو ڈسکس نہیں کرتا مگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو علم ہو سکتا ہے کہ ہماری جی ڈی پی کیوں سکڑ رہی ہے، ہمارا گروتھ ریٹ منفی میں کیوں ہے، ہمارے قرضے کیوں بڑھ رہے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے، اس فیصلے کو غور سے پڑھیں، علم ہوجائے گا کہ جو قومیں اپنے سقراطوں کو زہر پیش کرنے لگیں، بلند قامت لوگوں کے سر کاٹنے لگے اور شاہ دولہ کے چوہوں کو پوجنے لگیں توپھر ان کے یہی حال ہوتے ہیں جو حال اس وقت ہمارا ہے۔