اس کالم کا عنوان "جسٹس فار شہروزہ" یا "شہروزہ کو انصاف دو" بھی ہو سکتا تھا مگر میں نے سوچا کہ اس دروازے پر دستک دوں جہاں سے انصاف مل سکتا ہے۔ آپ کا سوال ہوگا کہ شہروزہ کون ہے تو یقین کیجئے میں بھی اسے نہیں جانتا۔ میں نے تئیس برس کی اس لڑکی کی صرف تصویریں دیکھی ہیں یا اس کے والدین اور کچھ ہمدردوں سے ملا ہوں۔ میرے سمیت کوئی بھی ابھی اس سے نہیں مل سکتا کیونکہ وہ منوں مٹی تلے سو چکی ہے۔ آپ ارکان پنجاب اسمبلی ہیں تو آپ کا یہ سوال ہوسکتا ہے کہ مرجانے والی ایک عام لڑکی کے لئے ہم وقت کیوں ضائع کریں، ہمارے اور ڈھیروں کام ہیں، ہمیں اپنے اپنے کام دھندے بھی دیکھنے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی کی سیاست بھی کرنی ہے، اگر آپ نے مجھے جواب دے دینا ہے تو بتا دیں میں اس کالم کا عنوان اللہ رب العزت کے نام، یا اللہ قہار و جبار کے نام، کر دیتا ہوں۔
شہروزہ غریب ماں باپ کی بیٹی تھی، اس کے والد سے میری ملاقات ہوئی وہ پنجاب کے کسی عام سے سرکاری محکمے میں عام سے ملازم ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو پڑھایا، لکھایا اورپھر اس نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے ٹاون پلاننگ میں ڈگری لے لی۔ اسے لاہور میں رئیل اسٹیٹ کے نئے آنے والے ادارے میں گرانا ڈاٹ کام، میں اسٹنٹ مینیجر کی نوکری بھی مل گئی۔ ابھی اس کی انٹرن شپ مکمل ہونے کے بعدنوکری پکی ہوئی ہی تھی کہ اسے سر میں درد اور متلی کی شکایت ہونے لگی۔ سب نے مشورہ دیاکہ لاہور کا جنرل ہسپتال اور اس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا شروع کیا گیا جبکہ شہباز شریف کا مکمل کیا گیا نیوروسرجری کا انسٹی ٹیوٹ علاج کے لئے پرائیویٹ اداروں سے بھی بہتر سمجھا جا سکتا ہے اس پر اعتماد کیا جائے مگراس اعتماد نے دو بڑے سانحوں کو جنم دیا۔
پہلا سانحہ یہ ہوا کہ اس اسٹیٹ آف آرٹ نیوروسرجری انسٹی ٹیوٹ میں شہ روزہ کو بتایا گیا کہ اس کے دماغ میں پانی ہے اور شائد رسولی بھی۔ اسے کہا گیا کہ اس کے دماغ میں سٹینٹ ڈالا جائے گا اور والدعاصم رضا سے کہا گیا کہ وہ سٹینٹ کا انتظام کریں۔ یہ ایک معمول کی بات تھی کہ مرض کی تشخیص ہوئی اور اس کا علاج شروع ہو گیا چاہے وہ دوا کی صورت میں ہو یا سرجری کی صورت میں۔ یہ ساری کہانی اپریل کے وسط سے مئی کے وسط تک کی ہے۔ شہ روزہ کے دماغ کا آپریشن ہوا اور اسے گھر بھیج دیا گیا مگر تیسرے چوتھے روز ہی اسے جھٹکے لگنے شروع ہو گئے اور الٹیاں بھی۔ دوبارہ ایمرجنسی میں لائے تو علم ہوا کہ آپریشن درست نہیں ہوا اور والد کے مطابق ایک سینئر ڈاکٹر نے کہا کہ پہلا آپریشن سٹوڈنٹس نے کیا تھا، د وسرا اب وہ خود کریں گے اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ ظالمانہ بات ایک باپ کو کہے جانے کے قابل تھی۔ پھر دوسرا آپریشن ہوا اور حیرت انگیز طور پر وہ بھی خراب ہو گیا۔ کیا دماغ میں پانی آنے کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ سٹیٹ آف دی آرٹ انسٹی ٹیوٹ میں اس کے آپریشن ناکام ہوتے رہیں۔ یہ اس انسٹی ٹیوٹ پر ہمارے خون پسینے کی کمائی سے لگنے والے ٹیکسوں کے پیسوں اور ان تمام ماہرین کی مہارت پر بہت بڑا سوال ہے۔ اس کے بعد صرف آٹھ گھنٹوں کے بعد تیسرا آپریشن ہوا اور بچی کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ درد سے کراہ رہی تھی اوروالدین کی اس کو دیکھ کر جان نکل رہی تھی۔ میرے محترم ارکان اسمبلی اس کرب کا اسی صورت اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ان کی بہن، بیوی یا بیٹی اس حالت میں ہو، سوری، اس فقرے کو نظرانداز کر دیجئے کیونکہ آپ ہماری طرح عام لوگ نہیں ہیں۔
ابھی دوسرا سانحہ منتظر تھا اوروہ ہو گیا۔ شہ روزہ بتول سر کی درد کے علاوہ بالکل ٹھیک حالت میں ہسپتال پہنچی تھی مگر کسی ستم ظریف نے اسے کرونا سسپیکٹ ڈیکلئیر کر دیا یعنی ایک طرف وہ دماغ کے تین آپریشنوں کے بعد زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے اور دوسری طرف اس کا کرونا ٹیسٹ کروایا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کا کوئی ایس او پی ہویا آپ کی کوئی ضرورت مگر اسے کرونا کی مشتبہ مریض ڈیکلئیر کر کے آئسولیشن وارڈ میں منتقل کر دیا گیا اور اس آئسولیشن وارڈ میں جہاں ایمرجنسی اور انتہائی نگہداشت کی کوئی سہولت تو ایک طرف رہی پورے پنکھے بھی موجود نہیں تھے۔ میں اس ہسپتال کے انتظامی سربراہ کے بارے کوئی الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا کہ میں ڈاکٹروں کا دوست رہا ہوں مگر کیا مجھے ایسے لوگوں کا دوست رہنا چاہئے، اس سوال کا جواب بعد میں دے دیجئے گا۔ والدین پروفیسر خالد محمود کے پاس بھی جا کے روئے پیٹے، بیٹی کے اس سر کی دہائی دی جو پٹیوں اور آلات میں جکڑا ہوا تھا مگر کورونا تو کورونا ہے، وہی اس وقت کا سب سے بڑا مرض ہے، وہی ترجیح ہے اور وہی کارکردگی ہے۔
یہ بڑا سانحہ ہے اور جگہ جگہ ہو رہا ہے کہ کورونا کے نام پر بچوں کو ماوں سے چھینا جا رہا بلکہ اغوا کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ سانحہ ہے جس نے عام لوگوں کو پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں سے دور رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر دل، جگر، گردوں دماغ سمیت کسی بھی مرض میں موت بھی آنی ہے تو گھر میں اپنے پیاروں کے پاس ہی آجائے مگر ہسپتال کے قید خانے میں تڑپ تڑپ کر نہ مریں اور نہ ہی ان کا مردہ خرا ب ہو۔ یوں اس کہانی کا وہی انجام ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ تین مرتبہ دماغ کے آپریشن سے گزرنے والی نوجوان لڑکی کو جب آئسو لیشن وارڈ میں پھینکا گیا جہاں کوئی ڈاکٹر اورکوئی نرس وزٹ تک نہیں کرتا تو وہ اگلے ہی روز وہاں چیخیں مارتے مارتے، ایڑھیاں رگڑتے رگڑتے دروازے کی جھریوں سے جھانکتی ماں کی نظروں کے سامنے بے بسی کی موت مر گئی۔
اے میرے پیارے ارکان اسمبلی، اگر آپ کے سینے میں دل ہے تو آپ اس اگلے فقرے کے بعد چاہیں چیخیں نہ ماریں مگر آنسو نہیں روک سکیں گے کہ شہ روزہ بتول کے کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ سرکاری کے ساتھ ساتھ شوکت خانم ہسپتال سے بھی نیگیٹو آ گئی اور یہ واردات میری نظر میں صریح قتل ٹھہری۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں اگر وہ کرونا پازیٹو1 بھی ہوتی تو کیا اسے کسی بھی ایس او پی کے مطابق اس آئسو لیشن وارڈ میں منتقل کر کے اس کی بنیادی بیماری کے علا ج اور نگہداشت سے گریز کیا جا سکتا تھا، ہرگز نہیں، مجھے اس دور میں جس عورت نے اپنے ظلم، جبراور بے حسی سے سب سے زیادہ حیران کیا ہے وہ کبھی میری نظر میں آئیڈیل ہوا کرتی تھی اورمجھے اس کیس میں اس عورت سے کوئی درخواست نہیں کرنی۔
کیا میں چودھری پرویز الٰہی، سپیکر پنجاب اسمبلی سے درخواست کر سکتا ہوں کہ چاہے آپ ذاتی طور پر مجھے ناپسند ہی کرتے ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ آپ میری بہنوں کی طرح محترم اپنی بیٹیوں کو ناپسند نہیں کرتے ہوں گے اور شہ روزہ بھی تو آپ کی بیٹیوں جیسی ہی تھی توکیا آپ اس کیس میں پنجاب کے عوام کا حق ادا کر سکتے ہیں، کیا کوئی اعلی سطحی کمیشن یا کمیٹی بنا کے معاملے کی تحقیق کر کے نہ صرف اپنے بنائے ہوئے نیورو سرجری کے انسٹی ٹیوٹ کے معاملات کی جانچ پڑتا ل کر سکتے ہیں، کیا آپ شہ روزہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں۔ میں پنجاب کے سابق وزرائے صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر سے اپیل کر سکتا ہوں کہ وہ میری بات پر یقین کریں کہ کرونا کے نام پر باپ، بیٹے، شوہر، مائیں، بہنیں، بیٹیاں قتل ہو رہی ہیں، وہ ایوان میں معاملہ اٹھائیں کہ صحت کے شعبے پر عام شہریوں کا اعتماد اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ کیا میں جناب عبدالقہار راشد سے درخواست کر سکتا ہوں کہ وہ اس اپیل کی نقل ہر رکن پنجاب اسمبلی تک پہنچا دیں کہ اگرپنجاب کے بارہ کروڑ عوام کا کسٹوڈین ایوان اگر آنکھیں اور کان رکھتا ہے تو وہ دیکھے اور سنے کہ کرونا کے نام پرباقی تمام امراض کے شکار مریضوں کا کس طرح قتل عام ہو رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کسی دریا کے کنارے پیاس سے مرتے کسی کتے کا حکمران جواب دیں گے یا نہیں مگر اپنے ہی ٹیکسوں سے چلائے جانے والے ہسپتالوں میں اس طرح مار دئیے جانے والوں کا حساب آپ سب سے ضرور لیا جائے گا کہ آپ سب صرف تنخواہیں، ٹی اے ڈی اے، ڈیلی الاونس اور نہ جانے کیا کیا الا بلا لینے کے لئے ارکان اسمبلی نہیں بنائے گئے۔