اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ جب بھی کچھ اچھا ہوتا ہے تو اس کی غلطیاں نکالنے والے، اس کی برائیاں گننے والے اوراس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے کچھ منحوس متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ منفی سوچ والے لوگ ہیں جنہیں ہر موقعے میں ایک مشکل نظر آتی ہے اور وہ مکھیاں ہیں جو گندگی اور زخم ڈھونڈ کر وہاں جا کر بیٹھتی ہیں۔
پہلے یہ کام صرف انڈیا والے کیا کرتے تھے اور اب کے ساتھ وہ بھی شامل ہوگئے ہیں جو انڈیا میں جشن کا سماں پیدا کرنے کے لئے اپنی فوج پر حملے کرتے ہیں اور اپنے ملک کو خدانخواستہ معاشی موت دینے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو خطوط تک لکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار سے عین آئینی اور قانونی طریقے سے محروم ہوجائیں تو کہتے ہیں کہ اس ملک پر ایٹم بم پھینک دیا جائے۔
ارشد ندیم کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے، بہتری کی گنجائش کہاں نہیں ہوتی اور میرا تو خیال یہ بھی ہے کہ ہمیں کرکٹ کے جنون سے باہر نکلتے ہوئے اب دوسرے کھیلوں پربھی روپوں اور توجہ کی سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ ارشد ندیم نے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تواس کے ساتھ ہی ہماری ترقی اور خوشی کے دشمن سرگرم ہو گئے۔ اس کی ابتدا انڈیا کے کچھ ویلاگرز نے کی جنہوں نے پاکستان کو ہر صورت بُرا ہی دکھانا ہوتا ہے، اس کی ہر اچھائی سے برائی نکالنی ہوتی ہے مگراس کے بعد وہ لوگ تھے جوپاکستانیوں کوپاکستان سے نفرت کروانے کا دھندے سے ڈالر کماتے ہیں۔
کہا گیا، ارشد ندیم نے جو کچھ کیا وہ اپنے بل بوتے پر کیا، اس میں حکومت کی کوئی مدد نہیں تھی۔ اس کے گھر کے مناظر دکھائے گئے کہ اس کے پاس تو روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے اور میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کے روٹی کھانے کے پیسے بھی نہ ہوں تو وہ میاں چنوں سے لاہور نہیں ا ٓسکتا، رہ سکتا، بین الاقوامی مقابلوں میں کیسے جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے اس کی جیولین ٹوٹ گئی تھی اوراس کے پاس اسے لینے کے پیسے بھی نہیں تھے اور ان تمام منفی پوسٹس کے ہزاروں میں شئیرز تھے مگر حقائق کچھ اور ہیں۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ ارشد ندیم کو شہباز شریف کے بطور وزیراعلیٰ شروع کئے گئے سپورٹس فیسٹیولز میں ہی آ گے آنے اور اپنے آپ کو منوانے کا موقع ملا اور شہباز شریف کی نوجوانوں کی کھیلوں کے لئے دلچسپی کا سب سے بڑا ثبوت جگہ جگہ بنے ہوئے سپورٹس کمپلیکس ہیں۔ ارشد ندیم ہرگز ہرگز حکومت کی طرف سے نظرانداز نہیں ہو رہا تھا بلکہ اس کی وزیراعلیٰ شہباز شریف اور رانا مشہود وغیرہ کے ساتھ بے شمار تصویریں ہیں اور ان میں ایسی بھی ہیں جن میں وہ ملین، ملین روپوں کے چیک وصول کر رہا ہے۔ اسے واپڈا میں باقاعدہ ملازمت حاصل ہے۔
وہ گریڈ سترہ میں بھرتی ہوا اور اس وقت گریڈ اٹھارہ میں ہے۔ اس نے 2016 میں حکومتی خرچے پر ہی سائوتھ ایشین گیمز میں حصہ لیا اوربرونز میڈل جیتا اور اس کے ساتھ ہی اسے ماریشیس میں دنیا کے بہترین تربیتی مرکز سے ٹریننگ کا موقع بھی ملا۔ وہ اسی برس چین کے شہر ہوچی مِن بھی حکومت کے خرچ پر گیا اور میڈل جیت کر لایا۔ یہی نہیں اس کے بعد وہ 2017 سے2019 تک باکو، آسٹریلیا، جکارتہ، د وحہ وغیرہ جاتا رہا اور ہر جگہ حکومتی خرچہ ہی ہوتا تھا۔
2022ء میں ورلڈ چیمپین شپ سٹارٹ ہونے سے پہلے وہ سائوتھ افریقہ میں دنیا کے بہترین کوچز سے ٹریننگ شروع کر چکا تھا، اس کے لئے جرمنی میں اسی کوچ سے وقت لیا گیا تھا جس نے نیراج چوپڑا کو ٹریننگ دی تھی مگر اس نے خود سائوتھ افریقہ کا انتخاب کیا۔ 2019 سے اب تک اسے دو کروڑ تیس لاکھ روپے کی ادائیگی ہوچکی تھی، 2022 میں اس کی کہنی اور گھٹنے کی انجری کا علاج بھی انگلینڈ سے ہوا۔
ارشد ندیم کو اسی دوران جن کمپنیوں سے سپانسر شپ ملی ان میں یوفون، پی ٹی سی ایل کے ساتھ ساتھ ٹویوٹا سمیت دیگر کمپنیاں بھی شامل ہیں اور یہ کوئی چھوٹی موٹی کمپنیاں نہیں ہیں۔ کسی کو اس پر شک ہو تو وہ سوشل میڈیا پر اس کے اپنے اشتہارات دیکھ لے جو میڈل جیتنے کے بعد بنے۔ میاں چنوں والوں سے پوچھیں کہ اس کے پاس وہاں کی اچھی سوسائٹی رحیم گارڈن میں گھر ہے، گاڑی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہماری سپورٹس کی ایسوسی ایشنوں میں بہت سارے مسائل ہیں اور انہیں درست بھی ہونا چاہئے۔
میں یہ بھی کہتا ہوں کہ خواجہ آصف جیسے تگڑے وزیر کو صرف اس پر ٹوئیٹ نہیں کرنی چاہئے بلکہ آگے بڑھ کے معاملات کو پروفیشنل بنانے میں کردار بھی ادا کرنا چاہئے لیکن ریکارڈ کی درستگی کے لئے ایوارڈ جیتنے کے بعد ارشد ندیم نے جس شخص سے جذباتی ہو کے گلے مل کے آنسو بہائے وہ شخص سابق صدر ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان جنرل ریٹائرڈ اکرم ساہی تھے مگر کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایتھلٹیکس ایسوسی ایشن آف پاکستان نے اسے بے پناہ سپورٹ کیا۔
قوم ارشد ندیم پر صدقے واری ہو رہی ہے۔ شہباز شریف کی وہ ویڈیو سب سے نے دیکھ لی جس میں وہ اس کی کامیابی کاجشن منا رہے ہیں، انہوں نے عزم استحکام کے نام سے یادگاری ڈا ک ٹکٹ جاری کروا دیا، صدر زرداری نے ہلال امتیاز کا اعلان کر دیا۔ نقد انعام دینے میں سب سے آگے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازر ہیں جنہوں نے دس کروڑ روپوں کااعلان کیا اور پھروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پانچ کروڑ۔
پنجاب اور سندھ کے گورنر بھی بالترتیب بیس لاکھ اور دس لاکھ، ایتھلیٹکس فیڈریشن ایک کروڑ چالیس لاکھ دے گی۔ مریم نواز اس کے نام پر میاں چنوں میں سپورٹس سٹی بنائیں گی جس کا اسے بھی فائدہ ہوگا جبکہ مراد علی شاہ کراچی میں سپورٹس اکیڈمی بنائیں گے۔ سکھر کے مئیر نے سونے کا تاج پہنانے کا اعلان کیا ہے اور زیر تعمیر سٹیڈیم اس کے نام کر دیا ہے۔ بہت سارے پاکستانی کاروباری افراد ایسے ہیں جو اپارٹمنٹس وغیرہ کے اعلانات بھی کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف بک بک کرنے والے ٹولے کی طرف سے کیا اعلان کیا گیا ہے؟
وہ اس پر پریشان ہے کہ بانوے میٹر سے بھی آگے کی تھرو ان کے مہاتما کے بانوے کا چورن نہ ضائع کروا دے جو وہ تین عشروں سے بیچ رہے ہیں۔ یہ تلخ بھی ہے اور المناک بھی کہ عمران خان جیسے کھلاڑی نے اپنے دور میں ڈپیارٹمنٹل سپورٹس ختم کرکے ہزاروں کھلاڑی بے روزگار کر دئیے تھے، انہیں فاقے دئیے اور کھیل سے دور کر دیا تھا۔ مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ کرکٹ ہمارے درمیان نفرت پیدا کرتی ہے جبکہ اولمپکس میں ارشد ندیم اور نیراج چوپڑا کی ماؤں نے محبت بوئی ہے۔
میں ارشد ندیم کی محنت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اگر وہ باصلاحیت اورمحنتی نہ ہوتا تو کوئی بھی اس کی مد دنہ کرتا۔ اس کی کامیابی ان تمام نوجوانوں کو ایک جواب ہے جو محنت اور کوشش کی بجائے شکووں اور شکایتوں میں لگے رہتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ان کی تمام ناکامیوں کے ذمے دار ان کے والدین، اساتذہ، رشتے دار اور حکمران ہیں۔