یہ وہاڑی کے ایک کسان ملک اشفاق لنگڑیال کی بات نہیں ہے جو اپنے ضلعے میں کسان اتحاد کا فنانس سیکرٹری تھا اوراپنے ساتھی کسانوں کے ساتھ تخت لاہور میں بیٹھے ایک کسان وزیراعلیٰ سے اپنے حقوق لینے آیا تھا۔ وہ نئے پاکستان میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے بھی پریشان تھا اور کھاد کی اسی رفتار سے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی، وہ چاہتاتھا کہ گندم کی امدادی قیمت وہی رکھی جائے جس کا اعلان سندھ کی حکومت نے کیا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ہم سے چودہ سو روپے من گندم خریدی ہے اور بلیک میں یہی گندم بائیس سو سے پچیس سو روپے بیچتے رہے ہو، وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ہم سے گنا دو سوروپے من لیتے ہو اور اس کی ادائیگی بھی نہیں کرواتے اور پچپن روپے کلو والی چینی ایک سو دس روپے بیچتے ہو کہ اس پر مظاہرین کو قتل کرنے کا انوکھا اعزازرکھنے والی لاہور پولیس نے لاٹھیاں برسائیں، آنسو گیس کے شیل پھینکے، ربڑ کی گولیاں ماریں اور اس کے ساتھ ساتھ پانی کی توپ سے ایس پی حفیظ الرحمان کی طرف سے دیا گیا کیمیکل والاپانی بھی یوں پھینکا کہ شہید کسان کے بھائی ملک اشتیاق لنگڑیال کے مطابق اس کاگلا ہی بند ہو گیا۔ میں نے لاہور پولیس کے ذرائع سے پتا کروایا تو بتایا گیا کہ کیمیکل کا مطلب انڈسٹریل رنگ ہے اور وہ پانی میں ا س لئے ملایا جاتا ہے تاکہ مظاہرین فرار ہونے کے بعد بھی اس رنگ سے پہچانے جائیں اور گرفتار کرلئے جائیں جبکہ دوسری طرف ہمارے کرائم رپورٹر اورپروگرام تفتیشی کے اینکر سلمان قریشی کا کہنا ہے کہ کیمیکل وہی ہوتا ہے جو آنسو گیس میں ہوتا ہے اور جس پر یہ پھینکا جاتاہے اس کی سانس بند کردیتا ہے، بے چینی پیدا کرتا ہے اور جسم سے جان نکال لیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مہذب ممالک میں مظاہرین پر پانی تو ضرور پھینکا جاتا ہے مگر کیمیکل جیسی دہشت گردی صرف ہمارے ہاں ہی ہے۔
کسان اتحاد کے چیئرمین چوہدری انور کے مطابق ملک اشفاق لنگڑیا ل پر بھی یہی کیمیکل ملا پانی پھینکا گیا، اشفاق کے دوسرے بھائی امتیاز لنگڑیال کے مطابق اشفاق اس کے بعد سینکڑوں دیگر کسانوں کی طرح لاپتا ہو گیا اور اگلی صبح جھاڑیوں میں سے ملا۔ اسے جناح ہسپتال لے جایا گیا مگر وہاں اس کی ڈیتھ ہو گئی۔ ملک اشتیاق لنگڑیال ایڈووکیٹ سے میری بات ہو رہی تھی اور وہ بتا رہے تھے کہ ان کے شہید کسان بھائی کو دل کا عارضہ لاحق ہی نہیں تھا۔ اس بارے میں پولیس اور حکومتی ذمے داران جھوٹ بول رہے ہیں۔ یوں حکومتی موقف پر عوامی اعتماد دیکھنا ہو تو پنجاب حکومت کی ترجمان کی ٹوئیٹ کے نیچے عوام کا ردعمل پڑھ لیجئے۔ ملک اشتیاق کا مزید کہنا ہے کہ اگر اس کے بھائی کو ہارٹ اٹیک بھی ہوا ہے تو اس موت کی وجہ پولیس تشدد، آنسو گیس، کیمیکل زدہ پانی اورسردی میں کھلے مقام پر پڑے رہنا ہی ہے۔
چلیں، چھوڑیں، ایک شخص مر گیا تو کیا ہوا۔ کیا ہوا کہ اس نے اپنی دسویں جماعت میں پڑھتی ہوئی بیٹی اور دوسروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاہور جا رہا ہے اور وہاں سے ان کے لئے تحفے لے کرآئے گا اور یہاں سے وہ ان کے لئے اپنی ڈیڈ باڈی کا تحفہ لے کر چلا گیا۔ میرا دل دکھ اور افسوس سے بھرا ہوا ہے۔ میں لاہور کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے وہاڑی سمیت دیگر شہروں کے کسانوں سے اس پولیس گردی پرمعافی مانگتا ہوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ سڑکیں بند کرنا قابل تحسین عمل نہیں ہے مگر اس پر کسی کی زندگی کی سانسیں ہی بند کردینا کہاں کی انسانیت ہے۔ اب میں انتظار کر رہا ہوں کہ پولیسنگ آف دی پولیس، کا نعرہ لگانے والے سی سی پی او لاہور اپنے پیارے ایس پی جسے وہ اپنا شیر کہہ کر لاہور لائے ہیں اس قتل پر کیا کارروائی کرتے ہیں کہ یہ کارروائی سی سی پی او نے ہی کرنی ہے ورنہ آئی جی پنجاب کی یہ جرات اور اوقات نہیں کہ کچھ کہہ سکیں۔ اگر کچھ کہیں گے تو ہمارے پاس مثال موجود ہے اس عہدے اور دفتر سے نکال دئیے جائیں گے جہاں وہ ہوٹروں کے پروٹوکول میں آتے ہیں۔ برا ہو اپنی یادداشت کا کہ ایسے واقعات پر سانحہ ماڈل ٹاون اورسانحہ ساہیوال ذہن میں آجاتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ پولیس والے اپنے افسران کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے ایسے وحشی اور جنونی کیوں ہوجاتے ہیں۔ انہیں اور ا ن کے افسروں کوکیوں نہیں پڑھایا اور بتایا جاتا کہ وہ انہی عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لیتے ہیں، انہی کے پیسوں سے ان کے شاندار دفاتر چلتے ہیں، ان کی قیمتی رہائش گاہوں اور گاڑیوں کے خرچے پورے ہوتے ہیں۔ یہ خرچے کوئی عثمان بُزدار، کوئی عمران خان، کوئی نواز شریف اور کوئی آصف علی زرداری اپنی جیب سے پورے نہیں کرتا۔
بات ایک کسان کے مرنے کی نہیں ہے۔ میرے پاس کسان اتحاد کے رہنمارانامحمدظفرطاہر بیٹھے ہوئے تھے اور بتا رہے تھے کہ اس وقت سب کسان ہی مر رہے ہیں۔ دو، تین برسوں میں کپاس، گندم، گنے اور چاول سمیت ہر فصل پیداوارنیچے گئی ہے اور اب وہ آل پارٹیز کسان کانفرنس کا انعقاد کررہے ہیں۔ میں نے خود تھوڑی سی تحقیق کی توعلم ہوا کہ نیا پاکستان بننے کے بعد ہماری کپاس کی پیداوار آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے اورکپاس وہ فصل ہے جس پر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری اور اس ٹیکسٹائل انڈسٹری پر ہماری برآمدات ہی نہیں بلکہ معیشت کا انحصار ہے۔ سابقہ حکومتوں میں ہماری کپاس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ بیلزتک پہنچ گئی تھی مگر اس برس اس سے آدھے پر پہنچنا بھی مشکل محسوس ہو رہا ہے اور مزید یہ کہ بیلز کا وزن بھی ایک سو ساٹھ سے پونے دوسو کلو تک ہوا کرتا تھا جو کم کر کے ایک سو چالیس کلوکر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت میں اڑھائی سو روپے کا اضافہ کر کے اگلے برس کے لئے یہ قیمت ساڑھے سولہ سو روپے کر دی ہے جبکہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں یہی قیمت دو ہزار روپے من مقرر کی ہے۔ ہم جمہوریت کے دس بارہ برسوں کے بعد دوبارہ اس مقام پرپہنچے ہیں کہ ہم وسط ایشیائی ریاستوں سے سرخ رنگ کی گھٹیا معیار کی گندم اڑھائی ہزار روپے من امپورٹ کر رہے ہیں جبکہ اپنی سنہری گندم سستے داموں برآمد کر چکے ہیں اور حکومت کے فیصلہ سازی میں استعمال ہونے والے ناقص دماغوں کی وجہ سے اپنااگایا ہوا سونابرائلر مرغیوں کو کھلا چکے ہیں۔ کسان ذرائع کے مطابق ہماری گنے اور چاول کی فصل بھی نیچے گئی ہے اوراس کی وجہ بدعملی کے ساتھ ساتھ نحوست بھی قرار دی جا رہی ہے کہ حکمرانوں کی نیت اچھی نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جب حکمرانوں کی نیت اچھی نہ ہو تورحمت بھی زحمت بن جاتی ہے جیسے بارش رب کی رحمت ہے مگر اس نے ہماری فصلوں کو تباہ کیا ہے، جی ہاں، اگر جس ملک کے حکمران بدنیت ہوں اس ملک کے درخت بھی پھل دینا بند کر دیتے ہیں۔
مگر میں اشفاق لنگڑیال کے مرنے پر کسانوں کے مرجانے کے حوالے سے کن سے مکالمے کی کوشش کر رہا ہوں، کن سے اقدامات کی توقع کر رہا ہوں کہ جو ایک طرف کرونا کا نام لے کر لوگوں کی شادیوں جیسی خوشیوں پر بھی پابندی لگا رہے ہیں اور خود ایک روز سوات میں اجتماع کر رہے ہیں تو دوسرے روز شہر، شہر سے اساتذہ سمیت سرکاری ملازمین اکٹھے کر کے حافظ آباد میں جلسہ۔ مجھے خود سوچنا چاہئے کہ میں کن سے امید لگا رہا ہوں، ان کے مسائل کچھ اور ہیں، ان کے ٹارگٹ کچھ اور ہیں۔