بابائے قوم کے 145 ویں یوم پیدائش سے کچھ دن پہلے، سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کی یاد مناتے ہوئے، قائد اعظم کے پاکستان کے قائداعظم سے بڑھ کر ہمدرد بنتے ہوئے سوشل میڈیا کے ایک دوٹکے کے دانشور نے اپنی جعلی علمیت جھاڑتے ہوئے ایک پوسٹ کی جس میں اس نے قائد کے لہجے کو بھی طنزاور مزاح کا نشانہ بناتے ہوئے اردو کو قومی زبان بنانے کے فیصلے کا مذاق اڑایا اور بالواسطہ ا سے غلط قرار دیا۔ وہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ پاکستان ٹوٹنے کی وجہ اردو کو قومی زبان قرار دینا تھا۔
سوشل میڈیا نے عام لوگوں میں بھی وہ جنونیت پیدا کر دی ہے کہ اگر انہیں علم ہو کہ اس سے انہیں شہرت او رمقبولیت ملے گی تو یہ چوک میں ننگے ہو سکتے ہیں، اپنے منہ پرکالک مل سکتے ہیں، اپنے باپ کو بھی گالی دے سکتے ہیں تو پھر یہ بابائے قوم کو کیسے معاف کر یں گے۔ میں اس بحث میں جانا ہی نہیں چاہتا کہ اردو کو قومی زبان بنانا درست تھا یا نہیں اور ایک ایسی ریاست میں اس وقت کون سے زبان رابطے کی زبان بن سکتی تھی جس میں ہر علاقے کی بولی یکسر مختلف تھی۔
میں ان تمام سوالوں کے جواب ایک طویل مطالعے کے بعد پا چکا ہوں۔ یہ سوال قیام پاکستان کے بعد پہلے دو، چار عشروں میں ہی بہت زیادہ اٹھائے جانے لگے تھے اور ان سوالوں کے اٹھانے والوں کے اپنے مفادات تھے۔ ان میں سے بہت سارے اپنے اپنے زمانے کے طاقتوروں کی غیر آئینی اور غیر قانونی حرکتوں کو جواز دینا چاہتے تھے لہذا ہر دور کے کاسہ لیسوں کو اپنے اپنے طاقتوروں کوفرشتہ ثابت کرنے کے لئے قائداور اقبال کو غلط قرار دینا ضروری تھا۔
ہمیں یہ جعلی دانشو ر بتاتے ہیں کہ انہیں قائداور اقبال جیسے قومی مشاہیر کے فیصلوں کو جانچنے، پرکھنے اور تنقید کرنے کا حق حاصل ہے تو میں ان سے کئی سوال کرتا ہوں، پہلا یہ کہ اگر آپ بابائے قوم کو غلط قرار دیں گے، ان پر تنقید کریں گے تو پھر آپ کے مخالف کیا کریں گے۔ میں تاریخ کے ادنی طالب علم کے طور پر جانتا ہوں کہ تاریخ کے ہر فیصلے کے کئی پہلو ہوتے ہیں، یہ شعوری فیصلہ ہوتا ہے کہ آپ نے کس کا ساتھ دینا ہے اور کس کی مخالفت کرنی ہے۔
ہمارے پاس بحث و مباحثے اور اختلافات کے لئے ایک لاکھ ایشوز موجود ہیں مگر کچھ معاملات اور شخصیات پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم قائداعظم کو بابائے قوم یا فادر آف دی نیشن کہتے ہیں تووہ جعلی دانشورعملی طورپر ایسا نہیں سمجھتے جو اپنے کسی تھڑے کی پیداوار، دوٹکے کے باپ کو سوشل میڈیا پر افلاطون اور حکیم لقمان ثابت کریں گے مگر قوم کے باپ کی توہین کو اپنی علمیت، قابلیت اورصلاحیت کی بنیاد اور دلیل بنائیں گے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ بابائے قوم کے فیصلوں کا جائزہ او ر تنقید ان کا حق ہے تو یہ اپنے باپ کے فیصلوں پر سوشل میڈیا پر تنقید کیوں نہیں کرتے، کیوں نہیں بتاتے کہ ان کے باپ کی ان سمیت کون کون سی غلطیاں تھیں اور اس سوال پر ان محاورے کے عین مطابق ان کی ماں مر جاتی ہے، یہ اچانک غیرت مند ہوجاتے ہیں، غصے میں آجاتے ہیں۔ یہ مجھے کہتے ہیں کہ بطور صحافی مجھے تنقید کی حمایت کرنی چاہیے اور میں کہتا ہوں کہ ایک صحافی اس وقت تک اچھا صحافی ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اچھا انسان نہ ہو، محب وطن نہ ہو، اچھی تربیت اور اخلاق کاحامل نہ ہو۔ میرا شکوہ ہے کہ محض اپنی واہ واہ کے لئے ہر دور کی مبشر لقمانیت، اور حسن نثاریت، نے میرے معاشرے کی بہت ساری اچھی ااقدار کو تباہ کر دیاہے۔
میں مانتا ہوں کہ محمد علی جناح، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان وغیرہ سے بھی بشری، سماجی اور سیاسی غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر میں قائل ہوں کہ ہمیں ان مشاہیر کی غلطیوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہئے جو ہم اپنے مرحوم والدین کے لئے دعا کرتے ہوئے ان کے گناہوں کے حوالے سے کرتے ہیں کہ نہ ہم ان کے گناہوں کا ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر تجزیہ اور تبصرہ فرماتے ہیں۔ اردو کو قومی زبان، جو حقیقت میں رابطے کی زبان بنائی گئی تھی، بنانے کے فیصلے کو ہی لے لیا جائے تو میں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ اس پر تنقید کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح سے زیادہ اس ملک اور قوم کے لئے عقل، محبت اور فکر رکھتے تھے۔
دنیا بھر کے سیاسی فیصلوں کے کئی پہلو ہوتے ہیں مگر اس میں دیکھنے والی بنیادی بات صرف ایک ہوتی ہے کہ فیصلہ کرنے والے کی نیت کیا ہے۔ میں اپنے پورے ایمان کے ساتھ گواہی دے سکتا ہوں کہ قائداعظم ملک دشمن نہیں تھے، بدنیت نہیں تھے، کم فہم نہیں تھے مگر ان کے تمام مخالفین میں یہ سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہوسکتا ہے۔
مجھ سمیت کون ہے جو سقوط ڈھاکہ میں بطور قوم اپنی غلطیوں سے انکا رکر سکتا ہے مگر یہ غلطیوں کا یہ ڈھیران قوتوں نے لگایا جنہیں بہر صورت اقتدار چاہیے تھا۔ اس امر میں کوئی انکار ہی نہیں کہ پاکستان ٹوٹنے سے بچ سکتا تھا اگر انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا جاتا۔ جنرل ایوب خان کے دور کا چاہے معاشی طور پر جتنا مرضی سنہرا بنا کے پیش کر لیا جائے مگر پاکستان ٹوٹنے کی جڑیں اسی دور میں ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی بے جا مداخلت اور بھٹو مرحوم جیسے سیاستدانوں کی اس پالیسی میں ہیں جس میں وہ کم سیٹوں کے باوجود اس وقت کی مقتدر قوتوں کے نواز شریف اور عمران خان بن کر اقتدار چاہتے تھے، جو انہیں بچے کھچے پاکستان میں پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ملا۔
مجھے اس وقت بھی حیرت ہوتی ہے جب میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی سیاسی قوتوں کو دیکھتا ہوں جن کی قیادت اپنے دور کے جید علما کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے وقت میں قائداعظم محمد علی جناح کی فکر او رآل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد پر اعتراضات کئے تھے، وہ سب کے سب قائداعظم محمد علی جناح کی دیانتدارانہ اور دانشورانہ قیادت پر ایمان لے آئے مگر یہ چمونے نہیں۔ وہ قیادت جس نے دنیا کا جغرافیائی نقشہ ہی نہیں بلکہ نظریاتی تاریخ تک بدل ڈالی۔ جس قیادت نے ریاست مدینہ کے قیام کے صدیوں بعد ایک دوسری اسلامی ریاست قائم کی۔ تاریخ اور سیاست کے بنیادی علوم سے نابلد ان بونوں کو وہ قائد اپنے فیصلوں میں غلط نظر آتاہے۔
یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کے آقاوں کے جاری کئے ہوئے پیپرز نے بہت ساری حقیقتیں بے نقاب کر دی ہیں اورمیں کہتا ہوں کہ تم تاریخ کو انگریزوں کے لکھے ہوئے خطوط سے دیکھتے ہو اورمیں تاریخ کواپنے اس فہم اور ایمان کے ساتھ دیکھتا ہوں کہ ہندووں کے روایتی تعصب اور نفرت سے بھرے ہندوستان میں پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔ میں یہ نظریاتی اور تاریخی گمراہی کبھی نہیں پھیلنے دوں گا، اس کا راستہ روکوں گا چاہے یہ سیلاب کے سامنے ایک چیونٹی کی مزاحمت ہی کیوں نہ ہو، بار باربآواز بلند کہوں گاکہ قائداعظم محمد علی جناح کی امانت، دیانت اور قیادت بے نظیر تھی۔ یہ ان ہی کے طفیل ہے کہ یہاں اذان کی آوازیں بغیر کسی ڈر اور خوف کے بلند ہوتی ہیں۔
جو خود کو بابائے قوم سے بڑھ کر قوم کا ہمدرد ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ فراڈئیے ہیں، پھپھے کٹن ہیں، نوسر باز ہیں، جعل ساز ہیں۔ بھلا کوئی باپ سے بھی بڑھ کر اولاد کا ہمدرد ہوتا ہے۔ جوبابائے قوم کی غلطیوں کو ڈسکس کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے اپنے اپنے باپوں کی غلطیوں کو ڈسکس کر کے اظہار رائے کی آزادی کا حق ثابت کریں کہ ہمیں بھی ان کی ماوں، باپوں کی غلطیوں کے چسکے لینے کا اتنا ہی حق ہے۔