عقل یا بھینس کے بڑے ہونے کا سوال تماثیل تھیٹر میں بیٹھے ہوئے اس وقت ذہن میں آیاجب پنجاب پروڈیوسرآرٹسٹ تھیٹر ایسوسی ایشن کے صدر قیصرثناءاللہ بتا رہے تھے کہ محکمہ پرائمری اینڈسیکنڈری ہیلتھ نے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تمام تھیٹروں کو کورونا کی وجہ سے شو رات دس بجے تک ختم کرنے کا پابند کر دیا ہے کہ بازاروں سمیت دیگر کاروباروں کو بھی اتنے بجے تک ہی کھلے رہنے کی اجازت ہے۔ زمینی صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہمارے تھیٹر کا بزنس چوبیس میں سے صرف دو گھنٹوں کا ہی رہ گیا ہے، تھیٹر شو رات گیارہ بجے شروع اور ایک بجے ختم ہوتا ہے۔ منطق اس کی یہ ہے دکانداروں سمیت دیگر کاروباری حضرات اسی وقت فارغ ہوتے ہیں اور دن بھر کی تھکن کے بعد تفریح کے لئے تھیٹر کا رخ کر لیتے ہیں لیکن اگر دکانیں بھی دس بجے بند ہوں گی اور تھیٹر بھی تو پھر تھیٹر میں کون آ ئے گا اور یوں فلم انڈسٹری کے بعد فن اور فنکاروں سے تعلق رکھنے والی یہ صنعت بھی دم توڑ جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان کہہ رہے تھے کہ وہ پہلے مرحلے کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دوسرے مرحلے میں کسی کے کاروبار کو تباہ نہیں کریں گے مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ کئی کاروبار تباہ کئے جا رہے ہیں، ایک تعلیم کا ہے، دوسر ا میرج ہالزاور تیسراانٹرٹینمنٹ کا۔
میں اس سوال کا جواب جب بہت سار ے ایسے دوستوں سے پوچھتا ہوں جو مجھے اس وقت فیصلہ ساز پوزیشنوں پرنظر آتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ بھینس بڑی ہے، وہ مجھے اپنے چاروں ہاتھ، پیر پھیلا کر اور منہ میں پوری طرح پھُلا کر بتاتے ہیں کہ بھینس تواتنی زیادہ بڑی ہوتی ہے جبکہ عقل دماغ میں ہوتی ہے جو انسان کے چھوٹے سے سر میں ہوتا ہے، اب بھلا کہاں عقل اورکہاں بھینس۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ یہ عقل ہی ہے جس سے انسان زمینوں اور آسمانوں کو مسخر کرتا ہے، بحری اور ہوائی جہاز ہی نہیں بلکہ خلائی شٹل تک بنا تا، چلاتا اوراڑاتاہے، اسی سے سمندروں کے سینوں پر حکمرانی کرتا ہے اورپہاڑوں کی چوٹیوں پرجھنڈے لہراتا ہے لہٰذا ہمیں بھینس کو عقل سے بڑا نہیں سمجھنا چاہئے مگر جب میں یہ دلیل دیتا ہوں تو وہ ایک مرتبہ پھر ہاتھ اور پاوں پھیلالیتے ہیں، منہ میں ہوا بھر کے اس کا غبارہ بنا لیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں، باوا جی بھینس، باوا جی بھینس، اب مجھے بتائیں کہ باوا جی سیالکوٹ، باوا جی سیالکوٹ مشہور اورمقبول تو بہت ہے مگر اس کی منطق کیا ہے؟
پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈپیارٹمنٹ کے سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ محمدعثمان ہیں۔ میری ان سے ان کی ڈی سی او شپ کے علاوہ فوڈاتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے ایک سے زائدملاقاتیں ہیں اورمیں نے انہیں ہمیشہ اپنے کام میں سمارٹ اور سمجھدار پایا ہے مگر لگتاہے کہ دو برسوں میں وہ بھی نمک کی کان میں نمک ہو گئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر شعبے کو ریگولیٹ کرنے کے لئے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ہی نوٹیفیکیشن جاری کر رہا ہے جس کے لئے متعلقہ شعبوں اورسٹیک ہولڈروں سے کوئی مشاورت نہیں کی جا رہی۔ ہونا یہ چاہئے کہ تعلیم کا شعبہ ہو تو محکمہ تعلیم، ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہو تو محکمہ ٹرانسپورٹ، صنعتیں اور کاروبار ہو ں تو محکمہ صنعت و تجارت اورانٹرٹینمنٹ ہو تو محکمہ ثقافت حکم جاری کرے چاہے اس میں سفارش اور گائیڈ لائنز ہیلتھ ڈپیارٹمنٹ کی ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے فائدہ یہ ہوگاکہ متعلقہ محکموں کے ماہرین کی رائے بھی اس میں شامل ہوجائے گی۔ عملی طور پر حکومتی احکامات کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سکول اور کالجز جہاں نوے فیصد سے بھی زائد کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد ہو رہا ہے انہیں بند کر دیا گیا ہے اور ہمارے بازاروں سمیت دیگر مقامات جہاں نوے فیصد سے زیادہ (بلکہ ننانوے فیصد تک) خلاف ورزیاں ہیں وہ کھلے ہوئے ہیں حالانکہ ہم اپنے طالب علموں کو اپنے تعلیمی اداروں سے ماسٹر ٹرینر بنا کے بھیج سکتے ہیں اور وہ اپنے اپنے گھروں ا ور علاقوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے حکومت کے سفیر بن سکتے ہیں مگر یہاں کام الٹا ہے۔ کیپٹن صاحب کے پاس ایک گلاس ہے جسے انہوں نے مشہور ٹک ٹاک سٹارز فزااورمنیب کی طرح الٹا پکڑا ہوا ہے۔ منیب کہتا ہے، دیکھو، اس گلاس کا منہ اوپر سے بند ہے اور فزاکہتی ہے، ہاں ہاں، اس کا تو پیندا بھی نہیں ہے۔
کورونا ایس او پیز کیا ہیں کہ جسمانی فاصلہ، جی ہاں سماجی نہیں بلکہ تین سے چھ فٹ کا جسمانی فاصلہ، برقرار رکھا جائے کہ سماجی فاصلہ تو سوشل میڈیا نے ختم کر دیامگر حیرت انگیز طور پرمحدود وقت کی شرط لگائی جا رہی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے مارکیٹوں کو پانچ بجے بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو وہاں تین بجے پنجابی محاورے کے مطابق بندے پر بندہ چڑھا ہوتا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت مختلف علاقوں میں مختلف مارکیٹوں کو سہولت اورتحفظ دیتے ہوئے پابند کرے کہ وہ چوبیس گھنٹے کاروبار کریں یعنی خریداروں کی آمد کا وقت پھیل جائے، کوئی دن کو آئے اور کوئی رات کو، یوں جسمانی فاصلے برقرار رہیں اور کاروبار بھی محدود نہ ہوں مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم عقل کو بھینس سے بڑا تسلیم کر لیں مگر ان کی ضد ہے کہ بھینس بڑی ہے کہ یہ شاہ دولہ کے چوہوں سا آئی کیو لیول رکھنے والوں کو حقیقت میں بڑی نظر آتی ہے۔
میں پنجاب پروڈیوسر آرٹسٹ تھیٹر ایسوسی ایشن کے صدر قیصر ثنا¾ءاللہ، معروف فنکاروں نسیم وکی، راشدمحمود، طاہر انجم، شاہد خان، قیصر پیا اور دیگر کی بات کر رہا تھا جو اس وقت تھیٹر انڈسٹری کو بچانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ہوا یوں کہ اے سی سٹی نے اپنا پٹواری بھیج کر تماثیل تھیٹر کو وقت کی پابندی نہ کرنے پر سِیل کر دیا اورفنکاروں کی پریس کانفرنس اور احتجا ج کے بعد اگلے روز ڈی سِیل۔ فنکار اور تاجر ڈرپوک ہوتے ہیں، وہ اے سی کے منشی اورپٹواری سے بھی ڈر جاتے ہیں اورجب انہیں کاروبار کرنے کا حق واپس کیا جاتا ہے تو نسیم وکی جیسا بڑافنکار بھی ایک خوشامدانہ ویڈیو جاری کردیتا ہے۔ فنکاروں کے پاس دلیل موجود ہے کہ جب سارے بازاربند ہوجائیں تو اس وقت تھیٹر کھولنے کی اجازت دے دیں۔ اس سے نہ کاروبار متاثر ہو گا اورنہ ہی سڑکوں پر رش ہو گا لیکن اگر آپ تمام کاروبار ایک ہی وقت میں بند کر دیں گے تو اس کے نتیجے میں ایک وقت میں کورونا کو لاکھوں شکار اکٹھے ملیں گے مگر ایک لہر کے تجربے کے بعد بھی حکمران کنفیوژ ہیں اور الٹے سیدھے چھکے مار رہے ہیں جیسے شادی کی تقریبات بارے ایک وزیر صاحبہ فرماتی ہیں کہ وہ دن گیارہ سے تین بجے تک ہی ہوں گی کہ اس وقت کوروناتھک ہار کر سو رہا ہوتا ہے جبکہ دوسری مشیر صاحبہ وقت کی کسی ایسی پابندی سے لاعلمی کااظہارکرتی ہیں۔
کامن سینس ایک ایسی شے ہے جو کامن پرسنز کے پاس نہیں ہوتی مگر ہمارے حکمران اوربیوروکریٹ توکامن پرسن نہیں ہیں مگرمیری دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو سپیشل پرسن بھی ثابت نہ کریں۔ مان لیں کہ اصل گائیڈ لائن یہی ہے کہ ہم نے کورونا ایس او پیز پر عمل کروانا ہے مگراس کی آڑ میں کاروبار تباہ نہیں کرنے اور اگر کوئی کاروبار ایس او پیز پرعمل کرتے ہوئے سہولت کے ساتھ جاری رکھا جا سکتا ہے تو سٹیک ہولڈروں کی مشاورت اور ضمانت سے جاری رکھا جانا چاہئے کہ یہی انسانی عقل، کاروباری مفاد اور وزیراعظم کے اعلانات کے تقاضے ہیں لیکن جب آپ اپنی دونوں انگلیوں سے وکٹری کا سائن بنا کے آوازلگاتے ہیں، باوا جی بھینس باواجی بھینس تو پھر عقل ہکابکا رہ جاتی ہے۔