میں نے ایک ہفتے بعد ستر ویں برس میں قدم رکھنے والے بوڑھے اورکینسر جیسے موذی مرض کا شکار بیمارشہباز شریف کو احتساب عدالت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھا، اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی اور حکم یہ تھا کہ اگلی پیشی پر اس کی بیماراہلیہ اوردوسری بیٹی بھی فرد جرم وصول کر لیں۔ شہباز شریف نے سیڑھیاں اترتے ہوئے اپنے خلاف مقدمات کو نیب نیازی گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار دیا۔ میں جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس وقت شہباز شریف کے لاڈلے بیٹے حمزہ کوجیل میں سوا برس سے زیادہ ہو چکا ہے اور تیز بخار کے بعد کورونا تشخیص کر لیا گیا ہے، اس وقت مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی مال روڈ پر احتجاج کر رہے ہیں کہ حمزہ شہباز کوعلاج کے لئے اتفاق ہسپتال منتقل کیا جائے کیونکہ انہیں جیل کے بعد سرکاری ہسپتالوں پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ شہباز شریف کا دوسرا بیٹا سلمان شہباز اور داماد میاں عمران علی یوسف بھی اشتہاری قرار پا چکے ہیں۔ شہباز شریف خودا گرچہ ضمانت پر ہے مگر نئے کیسوں کی شنید بھی ہے۔ میں ماہر قانون نہیں ہوں لہٰذا مقدمات کی سنگینی کے بارے کچھ نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب سابق وزیراعلیٰ کی ضمانت کافیصلہ ہو رہا تھا تو اس نے نیب کے کیسوں کی بنیادیں ہی ختم کر دی تھیں۔ وہ فیصلہ اتنا واضح تھا کہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اسے کاونٹر کرنے کے لئے باقاعدہ ریمارکس دینے پڑے تھے کہ یہ محض ضمانت کا فیصلہ تھا اور اس پرپورے کیس کا ہی فیصلہ کر دیا گیا۔
میں پھر کہوں گا کہ میں شہباز شریف پر قائم مقدمات کی سنگینی کے بارے کچھ نہیں جانتا اورجو کچھ جانتا ہوں اس کا ذریعہ عدالتیں اور ماہرین قانون ہی ہیں مگر میں بطورسیاسی تجزیہ کار اتنا ضرور جانتا ہوں کہ شہباز شریف، ان کی اہلیہ، بیٹیاں اور بیٹے اس وقت جن الزامات پر عدالتوں میں حاضریاں اور جیلوں میں خواریاں بھگت رہے ہیں ان سے کہیں زیادہ سنگین الزامات والے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں حالانکہ پاکستان کے تاریخی اور سیاسی منظرنامے میں ان کا موقف اور نظریہ ننانوے فیصد وہی ہے جو شہباز شریف کا ہے۔ شہباز شریف مزاحمت نہیں مفاہمت کا داعی ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ مفاہمت کے حامی ہے جو اس پالیسی کی وجہ سے اقتدار میں ہیں مگر شہباز شریف کی اپنی جماعت میں رہتے ہوئے پالیسی، بیانات اور اقدامات تینوں ایسی نیکیاں ہیں جنہیں مسلسل دریا میں پھینکا جا رہا ہے۔ کیایہ دلچسپ امر نہیں ہے کہ تمام تر مزاحمتی اور اختلافی نکتہ نظر اور بیانات کے باوجود نواز شریف کے خاندان کی مشکلات اتنی نہیں ہیں جتنی شہباز شریف کے خاندان کی ہیں اور میں اب تک اس کھلے تضاد کو سمجھنے سے قاصر ہوں سوائے ایک محاورے کے دوجی کوئی منطق اور کوئی جواز نہیں جس کا ذکر میں ایک دوسرے منظرنامے کے ساتھ کروں گا۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ شہباز شریف نے پنجاب کی ترقی اور فلاح کے لئے دن رات کام کیامگرکیا یہ افسوسناک امر نہیں کہ شہباز شریف کو سوشل میڈیا پر ان کے سیاسی مخالفین سے زیادہ گالیاں ان ٹوئیٹر ہینڈلروں اورفیس بُک اکاونٹس سے پڑتی ہیں جو خود ان کی اپنی جماعت سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ لوگ مریم نواز کے میڈیا سیل یا گروپ سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں مگر دوسری طرف جب تحقیق کی جائے تو خود مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کا ان اکاونٹس پر کوئی ہولڈ نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بہت سارے اکاونٹس کو انہوں نے فالو بھی کر رکھا ہے۔ یہ اکاونٹس سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی پر شہباز شریف لاہور ائیرپورٹ پہنچ جاتے تو وہ علامہ اقبال انٹرنیشنل کی دیواریں گراتے ہوئے کارکنوں کے مبینہ سیلاب کے ساتھ ان باپ بیٹی کو سیکورٹی اداروں سے رہا کروا لیتے۔ ہم تجزیہ کاروں کے پاس بہت ساری جذباتی دلیلوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی آپ کو گوڈا ماردے تو آپ اسے جواب میں گوڈا نہیں مار سکتے۔ یہ اتنے ہی جذباتی اور معصوم لوگ ہیں جیسے یہ سمجھنے والے کہ جناب عمران خان میرٹ اور انصاف پر مبنی ایک نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔ نواز لیگ کے ان کارکنوں کے پاس اس بات کا کوئی ٹھوس جواب نہیں کہ اگر شہباز شریف اپنے قائد او راپنی پارٹی کا غدار ہے تو اسی قائد اوراسی پارٹی نے باپ کو جماعت کی صدارت کے ساتھ ساتھ اسے قومی اسمبلی اور بیٹے کو پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلا ف کے اہم ترین عہدے کیوں دے رکھے ہیں، کیا یہ بھی کھلا تضاد نہیں ہے۔ میں جب شہباز شریف کو پارٹی صدارت سمیت اہم ترین عہدے رکھنے کے باوجود بے چارہ کہتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ شخص اپنے بھائی اور لیڈر نواز شریف کو تمام تر ریلیف دلوانے کے باوجود خاندان اور پارٹی کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا۔ بہت سارے باخبر پورے وثوق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف کئی برس بلکہ عشرے پہلے پاکستان کاوزیراعظم ہوتا اگر اس راہ میں رکاوٹ خود اس کا بڑا بھائی نہ ہوتا۔
اب میں اس محاورے کا ذکر کروں گا جو میری نظر میں اس کالم کا عنوان بھی ہو سکتا تھا کہ شہباز شریف دو کشتیوں کا مسافر ہے اوردوکشتیوں کے مسافر کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتے۔ وہ اپنے بیٹے کو جیل، بیٹی کوعدالت میں پہنچا کراورداماد کو اشتہاری بنا کر بھی غم اور غصے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا، مزاحمت کی سیاست نہیں کرنا چاہتا مگر وہ دوسری طرف اپنے بھائی کا ساتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا، اس سے بھی غداری نہیں کرنا چاہتا۔ ایسا کرکے عین ممکن ہے کہ وہ اپنے جنت مکانی والد اور تیزی سے یادداشت کھوتی والدہ کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کر لے مگر وہ تمام طبقات چاہے وہ لائن کی دوسری طرف کھڑے ہیں، ان کی خوشنودی اور رضامندی حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنے بڑے بھائی کا والدکی طرح احترام کرتے ہوئے اخروی زندگی میں جنت ضرور حاصل کر سکتا ہے مگر اس دنیا میں رہتے ہوئے وزیراعظم کا عہدہ نہیں حاصل کرسکتا کیونکہ بڑا بھائی اس پر آنے والے وقت میں اپنی بیٹی کا حق سمجھتا ہے، وہ میرٹ پر سمجھتا ہے کہ مرکز کی سیاست ورثے میں مریم کو جبکہ پنجاب حمزہ کو ملنا چاہئے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ ایک مارشل لا میں جلاوطن کئے جانے کے باوجود ایک مرتبہ پھر واپس آکر وزیراعظم بن سکتا ہے تو یہ وقت اس سے زیادہ مشکل اور کڑا نہیں ہے اور دوسری طرف شہباز شریف جن کا نظریاتی حلیف ہے ان کا خیال یہ ہے کہ شہباز شریف کو تمام تر مفاہمتی پالیسی کے باوجود وزیراعظم بنانا نواز شریف کو ہی واپس لانا ہے جب تک وہ اس سے واضح بغاوت نہیں کرتا۔ بے چارہ شہبا زشریف اس وقت سو جوتے اور سو پیاز والی مثال پر پورا اتر رہا ہے۔ خود بھی مقدمے بھگت رہا ہے اور اپنی اولاد کو بھی سولی پر چڑھا رکھا ہے اور دوسری طرف نواز لیگ کے سوشل میڈیا ئی نظریاتی مجاہدین وہ توہین اپنے سیاسی مخالفین کی بھی نہیں کرتے جو شہباز شریف کی کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہباز شریف کی باقی ماندہ زندگی کو آسان کرے۔ آمین