ماں تو ماں ہوتی ہے چاہے وہ وزیراعظم کی ہو یا کسی مزدورکی مگر وہ ماں ضرور خوش قسمت ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنے میں کامیاب ہوجائے انہیں دین اور دنیا میں کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے دیکھ سکے اور اولاد دنیا کے بڑے سے بڑے عہدے پر پہنچ کر بھی اس کی تابعدار ہوِ فرمانبردار ہو اور میں یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ شریف فیملی میں والدین اور بزرگوں کا جتنا احترام کیا جاتا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ جب میاں نواز شریف ملک کے سب سے اہم اور بڑے عہدے پر فائز تھے، ان کی اولاد کی بھی اولاد ہو چکی تھی توایسے میں بھی انہیں اپنی والدہ کی وہیل چیئر خود چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ اپنی والدہ کے سامنے کھڑے رہتے اور جب تک وہ بیٹھنے کے لئے نہ کہتیں نہ بیٹھتے۔ کہتے ہیں کہ جاتی امرا میں اجلاس جاری تھا کہ انہوں نے کھڑکی سے باہر دیکھاکہ ان کی والدہ کو باہر لایا جا رہا ہے، وہ اجلاس چھوڑکرگئے اور خود اس وہیل چیئر کو چلانے لگے۔ یہ کوئی دکھاوا یا خبر نہیں تھی کہ یہ ان کی اپنے گھر سے خداکے گھر تک ہر جگہ یہی عادت تھی۔ ان کے والد کے احترام کے بارے بہت مرتبہ بات ہوچکی، وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی چھٹی کے روز اپنے والد کے پاس ہوتے تھے، ہر مصروفیت پر ان کے پاس حاضری ترجیح ہوتی تھی۔ سیاسی مخالفین اس حاضری پر طرح طرح کے فقرے کستے تھے کہ یہ ملک ہی اباجی چلا رہے ہیں اور انہیں یہ مشورے بھی دئیے جاتے تھے کہ وہ لاہور کم آیا کریں تومیاں نواز شریف کا جواب ہوتا تھا کہ والدہ سے ملنے بھی نہ آیا کروں؟
مجھے شریف فیملی کی پچھلے اڑتیس برس سے کوریج کرنے والے سینئر اورمعتبر ترین صحافی نے بتایاکہ نواز شریف کے مزاج میں مزاحمت اور جارحیت ان کی والدہ کی طرف سے آئی جبکہ ان کے والد میاں محمد شریف زیادہ نرم خو اور مفاہمت پسند شخصیت تھے۔ میں نے یہ مزاحمت اورجارحیت محترمہ کلثو م نواز میں بھی دیکھی جنہوں نے اپنی سیاست کے مختصر عرصے میں پرویزمشرف جیسے آمر کے پسینے چھڑوا دئیے تھے اور اب یہی مزاج مریم نواز کا ہے۔ لاہور کے صحافی بیگم شمیم اختر کے بارے میں کچھ زیاد ہ نہیں جانتے سوائے ان ایک، دو کے جنہیں تعلق نبھاتے ہوئے اب عمریں بیت گئیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اس کے باوجود شریف برادران کاباپ کی نسبت ماں سے تعلق زیادہ دوستانہ تھا، باپ کا رعب زیادہ تھا اور روایتی گھرانوں کی طرح باپ کے سامنے بہت سارے معاملات میں ان کی ماں ہی ان کی سفارشی ہوتی تھیں۔ شریف فیملی کی خواتین اس وقت سامنے آئی تھیں جب پرویزمشرف کا مارشل لاءلگا تھا اور مرد پابند سلاسل کر دئیے گئے تھے ورنہ اس سے پہلے بیگم کلثوم نوازکی میڈیا کوریج بھی نہیں ہوتی تھی۔ وہی صحافی بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف ہر اہم فیصلے پر، جیسے آرمی چیف کی تقرری کا ہی فیصلہ کیوں نہ ہو، اپنی والدہ کواعتمادمیں لیتے اور کہتے کہ دعا کیجئے گا۔ بات اگر ریکارڈ پر کرنی ہے تو والدین بالخصوص والدہ کا یہی احترام چوہدری برادران میں بھی بخوبی نظر آتاہے۔
یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ بیگم شمیم اخترسیاست اور میڈیامیں براہ راست اِن نہ ہونے کے باوجود ملک کی طاقت ور ترین خاتون رہی ہیں کہ بنیادی طور پر وہ ایک دین دار اور گھریلو خاتون تھیں مگر اپنے بچوں کی خوشی غمی، دکھ سکھ اور نفع نقصان میں پوری طرح ان سے وابستہ، پوری طرح فیصلہ ساز۔ ایک وقت تھا کہ ملک کا وزیراعظم اور سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ ان کے سامنے اُف تک نہیں کر سکتے تھے اور واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ ابھی گذشتہ برس نومبر میں جب میاں نواز شریف کی طبیعت انتہائی خراب تھی اور مختلف حلقے کوشش کررہے تھے کہ وہ علاج کے نام پربیرون ملک چلے جائیں مگر وہ اس پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے حتیٰ کہ شہباز شریف بھی نواز شریف کو منانے میں ناکام رہے تھے توا یسے میں میاں نواز شریف کی والدہ کو اپروچ کیا گیا تھا، دروغ بہ گردن راوی، ان کی دومرتبہ جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات کروائی گئی جس کے بعد وہ لندن جانے کے لئے رضامند ہوئے۔ مزیداطلاع یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ریلیف اور وقت دلوانے کے لئے جو قوتیں انہیں بیرون ملک بھجوانا چاہتی تھیں وہ اس شرط پر بھی رضامند ہوئیں کہ مریم نوازبھی جیل میں نہیں رہیں گی بلکہ انہیں سیاست کرنے کا بھی حق ہو گا۔ نواز شریف سے ان کی والدہ کی خصوصی محبت کا اندازہ اسی بات سے لگائیے کہ بیٹا ملک سے گیا تو وہ بھی اس کے پاس لندن چلی گئیں۔
یہ بات درست ہے کہ بیگم شمیم اختر سیاسی شخصیت نہیں تھیں مگر اس امر سے بھی انکا رنہیں کیا جا سکتا کہ ملکی سیاسی صورتحال پر ان کی شخصیت کے بھرپور اثرات موجود ہیں۔ یہ بات رازنہیں کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے درمیان سیاسی حکمت عملی اور طریق کار کے اختلافات موجود ہیں اور یہاں اپنے خاندان کومتحد رکھنے میں بیگم شمیم اختر کے وجود اورکردار کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ بھائیوں کو اکٹھا رکھنے میں میاں شریف کا بڑاکردار تھا مگر ان کے انتقال کے بعد شریف فیملی کو ایک مرتبہ پھر بحرانی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مرتبہ پھر نون سے شین اور میم نکالنے کے دعوے ہوتے رہے ہیں اور اس دورمیں بھائیوں کے درمیان تعلق اورمحبت کی ضمانت ماں ہی رہی ہے۔ میں نے پرائیڈ آف پرفارمنس سینئر صحافی جناب عطا الرحمان سے پوچھا کہ اب تووالدہ نہیں رہیں تو کیا اب نون اورشین نام سے مسلم لیگیں الگ الگ ہوسکتی ہیں کہ نواز لیگ کے بہت سارے رہنماوں کو موجووہ بیانئے اور پارٹی میں مشاورت کا عمل نہ ہونے پر شکایات ہیں تودلیل کے ساتھ جواب ملا کہ اب دونوں بھائیوں کی عمریں ستربرس سے اوپر ہوچکیں، خاندان کی عمارت میں بیگم شمیم اختر نے محبت اور احترام کا جو سیمنٹ بھر دیا ہے جو ان کی وفات کے بعد بھی اس دیوار کو مضبوط رکھے گا، اسے گرنے نہیں دے گا۔ یوں بھی یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی نے کون سا انہیں ریلیف دے دیا، وہ خود ایک مرتبہ پھر جیل میں ہیں، ان کا ایک بیٹا ڈیڑھ برس سے پابند سلاسل ہے، دوسرا بیٹا اور داماد مفرور قرار پا چکے، اہلیہ اوربیٹیاں نیب اور عدالتوں میں طلب کی جا رہی ہیں۔
بیگم شمیم اخترنے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور نوے برس سے زائد عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ میں اکثر شریف فیملی کے اس عروج کی وجوہات بارے سوچتا ہوں تو اس میں ماں اورباپ کے احترام کو بنیادی وجہ پاتا ہوں جس کا صلہ انہیں ملا۔ ہر ذی روح جو اس دنیامیں آیا اس نے واپس چلے جانا ہے مگر ماں کا وجود بہرحال رحمت اور برکت کا باعث ہوتاہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے ان کی والدہ کے انتقال پر یہی کہاجاسکتا ہے کہ ان کے لئے پہلے ہی مشکل وقت چل رہا ہے اور اب ضرورت ہے کہ ماں کے انتقال کے بعد وہ زیادہ محتاط ہوجائیں۔ روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے انتقال کے بعد رب العزت سے ملاقات کے لئے طور پر تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں بے دھیانی سے ٹھوکر کھائی تو غیب سے آواز آئی، اے موسیٰ دھیان سے چل، اب تیرے پیچھے تیرے لئے دعائیں کرنے والی ماں نہیں رہی۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شریف فیملی کو یہ صدمہ اورنقصان برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے اوران کی والدہ محترمہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین