جناب وزیراعظم، بھیں بھیں بھیں، ہم وہی آپ کی پیاری، راج دلاری بھینسیں ہیں جو کٹوں کی امی جان ہوتی ہیں اور جن کے ذریعے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے آپ غریب عوام کو امیر اور پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے، آپ کی خوبصورتی کی قسم، آپ جب انتہائی خلوص کے ساتھ ہمارا ذکر کرتے تھے تو ہمیں آپ سے اتنی محبت محسوس ہوتی تھی جتنی ٹائیگر اور شیرو کو بھی نہیں ہوتی ہوگی۔ آپ ہمارے کٹوں کو جوان کرنے کی بات کرتے تھے تو ہم مجیں آپ کو ڈھیروں دعائیں دیتی تھیں کہ ظالم کسان ہمارے بچوں کو چند ماہ کا ہی ذبح کروا کے ان کا گوشت مٹن کے طور پر بیچ دیتے تھے۔ آپ کی باتیں سن کر ہمارے ارد گرد ککڑیاں نازاں نازاں پر پھُلائے پھرتی تھیں کہ ان کے انڈوں پر معیشت کی بحالی کا پروگرام بن رہا ہوتا تھا مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ جب مشکل وقت آیا تو آپ ہمیں بھول گئے۔
جی ہاں! جناب وزیراعظم ہم کرونا وائرس کی بات کر رہی ہیں۔ اس مُوئے وائرس کے آنے پرآپ کی خواہش او رمرضی کے خلاف لاک ڈاون کر دیا گیا اور یوں بہت سارے کمرشل ادارے، دفاتر، مٹھائی کی دکانیں، ہوٹل، ہاسٹل وغیرہ وغیرہ بند ہوگئے جہاں ہمارے دودھ کی آدھے سے زیادہ کھپت ہوتی تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہاں دودھ دینے والے آٹھ کروڑ جانور ہیں اور ان میں سے آدھی یعنی چا ر کروڑ ہم بھینسیں ہیں۔ یہاں کی ایک تہائی آبادی یعنی کوئی سات، آٹھ کروڑ ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اسی لائیو سٹاک اور ڈیری فارمنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ ان میں سے اسی سے نوے فیصد وہ ہیں جن کے پاس زیادہ سے زیادہ چھ، سات جانور ہیں۔ ہوایوں کہ جب کمرشل ایکٹی ویٹی بند ہوئی، کمرشل مارکیٹ نے دودھ اٹھانا بند کر دیا، کھپت کے ساتھ ساتھ سپلائی کے ایشوز بھی پیدا ہونے لگے تو کسانوں کے لئے ہماراخدا کے نور جیسا صحت بخش دودھ اضافی ہو گیا، یہی دودھ ہے جو کرونا جیسی بیماریوں کے خلاف جسم مدافعت پیدا کرتا ہے اورہمارے اسی دودھ کی وجہ سے کروڑوں پاکستانی ابھی تک اس موذی وائرس سے محفوظ ہیں۔ پہلے تو یہ ہوا کہ آپ کی افسرشاہی نے کھل، بنولے وغیرہ کی دکانیں بھی بند کروادیں مگر بعد میں کسانوں نے گھاٹا پورا کرنے کے لئے ہماری خوراک میں سے یہ لگژری اور طاقت والے مہنگے آئٹم ختم کردئیے یعنی دودھ کی فروخت پر انحصار کرنے والا کسان بھی بھوکا مرنے لگا اور ہم بھینسیں بھی۔
جناب وزیراعظم! یہ تو صرف ستیاناس تھا مگر سوا ستیاناس اس خبر کے ملنے پر ہوا کہ آپ کو ایک ارب روپوں کا امدادی چیک پیش کرنے والوں نے حکومت کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ڈرائی ملک، وے ملک اور سکمڈ ملک جیسی مصنوعات کی بغیر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کے درآمد کی اجازت طلب کی گئی ہے۔ اس خط میں ڈرایا گیا کہ کرونا کی وجہ سے ملک میں دودھ کا بحران پیدا ہو سکتا ہے لہٰذا ڈیوٹی فری امپورٹ کی خصوصی اجازت دی جائے۔ ہم بھینسیں حیران ہیں کہ ہمارا دودھ تو گلیوں اور نالیوں میں گرایا جا رہا ہے تو یہ بحران کہاں سے پیدا ہو رہا ہے۔ اس لاک ڈاون کو ختم کیا جائے تو ہمارے مالک ہماری بہترین غذ ا کے ساتھ قوم کی تمام ضروریات پوری کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن اگر آپ بغیر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کے خشک دودھ امپورٹ کرنے کروا دیں گے تو پھراس کاروباری دور میں ہماری اہمیت بلکہ ہمارا وجود ہی ختم ہوجائے گا، پھر نہ بھینس رہے گی اور نہ ہی کٹے۔ مجھے ایک سیانا بھینسا بتا رہا تھا کہ اگر حکومت نے ایک ارب روپے کی امداد کے بدلے میں یہ فیصلہ کیا تو اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان ایک ہزار ارب کا بھی ہو سکتا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ جب ہم ڈرائی یا وے ملک کی درآمد کی بات کرتے ہیں تو اس کی بڑی مقدار انڈیا سے لائی جاتی ہے یعنی آپ اپنے کسان کو مار کے بھارتی کسان کو فائدہ دیں گے، حکومت خود ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں سے محروم ہوگی اور عام کسان اس کاروبار سے جسے نے اس ملک کی جی ڈی پی کو بارہ فیصد تک کا سہارا دے رکھا ہے۔
جناب وزیراعظم! ہمارے بارے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے مالک نخالص دودھ بیچتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ جعلی دودھ بنتا ہی ڈرائی ملک سے ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ دو کلو ڈرائی ملک میں ایک کلو آئیل ملایا جاتا ہے اور سینتیس کلو پانی، اس سے ایک من دودھ تیار کر لیا جاتا ہے۔ اب یہ کہا جار ہا ہے کہ پاسچرائزیشن سے ہی خالص دودھ مہیا ہوسکے گا۔ ہم بھینسیں آپ کو بتانا چاہتی ہیں کہ پاسچرائزیشن کسی طور پر بھی دودھ خالص بنانے کا عمل نہیں ہے بلکہ یہ دودھ کو ایک خاص درجہ حرارت پر گرم کرنے کے بعد اس کی شیلف لائف بڑھانے کے لئے ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ نخالص دودھ پاسچرائزڈ کر لیں تو وہ خالص نہیں ہوجائے گا، ہاں، یہ ضرور ہوگا کہ پاسچرائزیشن کے لئے قائم فیکٹریوں میں دودھ کو ٹریس کیا جا سکے گا کہ وہ کہاں سے آیا، پاسچرائزیشن پلانٹس پر ہی دودھ کے خالص اور نخالص ہونے کے ٹیسٹ بھی ہوسکیں گے مگر اس کے ساتھ ہی دودھ مہنگا بھی ہوجائے گا اور پاسچرائزڈ دودھ سے گھروں میں گرم کرنے پر بالائی بھی نہیں آئے گی۔ کیا یہ دلچسپ امر نہیں ہے کہ جس کھلے دودھ میں فیٹس کی مقدار پانچ فیصد رکھنے کی شرط ہے اس کی شہروں میں قیمت اسی روپے کلو ہے مگر دوسری طرف جس کی قیمت ڈیڑھ، دو سو روپے کلو تک ہے اس میں فیٹس کی تعداد ساڑھے تین فیصد رکھی جاتی ہے، کیا یہ کھُلا تضاد نہیں؟
جناب وزیراعظم! حکومت نیشنل سیف مِلک پالیسی ضرور لائے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے مگر یہ ضرور دیکھا جائے کہ کیا اس کے ذریعے ہم اپنے کروڑوں افراد کا کاروبار اور روزگار تباہ تو نہیں کر رہے۔ ہم مصیبت کی ماری بھینسوں کا موقف ہمارے مہربان محسن بھٹی اور میاں سمیع اللہ نے لاہور رنگ کے پرائم ٹائم پروگرام نیوزنائیٹ نجم ولی خان کے ساتھ، میں پیش کیا جس کے بعد ہم معصوم مگر مجبور بھینسیں آپ کے صوبائی وزیر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ سردار حسنین بہادر دریشک کو اپنے بڑے بڑے سر جھکا کے سلام پیش کرتی ہیں جنہوں نے اس پروگرام میں پیش کئے گئے حقائق سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے وفاقی حکومت میں جناب عبدالحفیظ شیخ، جناب حماد اظہر اور جناب رزاق داودکو خطوط میں پنجاب کی طرف سے واضح کیا کہ اگر ڈیوٹی فری ڈرائی ملک اور دیگر مصنوعات کی اجاز ت دی گئی توملک بھر کا کسان اور ڈیری فارمر تباہ ہوجائے گا۔
جی ہاں، جناب وزیراعظم ہم وہی مجیں اور کٹے ہیں جن کو آپ بہت یاد کیا کرتے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ جب کوئی بحران آئے گا تو آپ سب سے پہلے ہماری مدد کو آئیں گے مگر آپ نے کنسٹرکشن انڈسٹری سمیت نجانے کس کس ماجھے گامے کو پیکج دے دیا، ان سڑکوں کے لئے آپ نے اپنے خزانے کے منہ کھول دئیے جن سے آپ کہتے تھے کہ قومیں نہیں بنتیں اور ہم سے کئے گئے سارے وعدے، قول، قرار بھول گئے۔ کبھی ہماری آنکھوں میں جھانک کر دیکھئے جو کسی ہیر، کسی لیلیٰ اور کسی شیریں سے زیادہ خوبصورت ہیں مگر اب آپ کی بے وفائی سے ان میں آنسو اتر رہے ہیں۔ آپ نے ہمیں سہانے خواب دکھائے تھے اور ان خوابوں کے راجا آپ تھے مگر تعبیر یہ ہے کہ آپ کی بے وفائی اورلاپروائی سے ہم بھوکی مر رہی ہیں، ہماری ہرنوں سے بھی بڑی بڑی آنکھوں کی ستاروں اور ہماری شاندارکالی جلد کی چیری بلاسم سی چمک مر رہی ہے، ہمارے صحن میں وہ شام اتر رہی ہے جس کی کوئی صبح نہیں ہوگی اگر آپ نے ڈرائی ملک کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت دے دی۔
جناب وزیراعظم!ہماری فریاد سن لیجئے، ہم کب سے بھیں بھیں بھیں کر رہی ہیں۔