وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کینسر ایک تیزی سے پھیلتا ہوا خطرناک مرض ہے۔ اگر کینسر ہی کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کے چچا شہباز شریف آج سے بارہ برس پہلے کینسر کے غریب مریضوں کے حوالے سے انقلابی فیصلہ نافذ کر چکے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی کمپنی نوارٹس کے ساتھ معاہدہ کیا کہ پنجاب حکومت کینسر کی ادویات کی قیمت کا کچھ حصہ ادا کرے گی، باقی معاونت اس کمپنی کی ہوگی، اس سے کینسر کے ہزاروں مستحق مریضوں کو لاکھوں روپے ماہانہ تک کی دوا مفت ملے گی۔
یہ سلسلہ شہباز شریف کی حکومت کے خاتمے تک بخوبی چلتا رہا۔ اس کے لئے انہوں نے نہ شور مچایا اور نہ کوئی کریڈٹ لیا مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ماں کے نام پر کینسر ہسپتال بنا کے سیاست چمکانے والے سیاستدان نے وفاق اورپنجاب میں حکومت قائم کی۔ یاسمین راشد صاحبہ نے ظلم کیا کہ انہوں نے کینسر کے مریضوں کی مفت ادویات بند کر دیں۔ اس پر بہت سارے احتجاج ہوئے، دوا کی مفت فراہمی کبھی کھلتی، کبھی بند ہوتی رہی۔
آصف زرداری، بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ سندھ کے ہسپتالوں کا کریڈٹ لیتے ہیں مگر پنجاب بھی پیچھے نہیں۔ پھر شہباز شریف کے دور کا ذکر کروں گا کہ لیور اینڈ کڈنی ہسپتال بنایا گیا۔ افسوس کا مقام یہ تھا کہ عمران خان دور میں اس ہسپتال پر حملے ہوئے۔ اسے بند کرنے کی سازش کی گئی اور خدا کا شکر ہے کہ پنجاب سے اس منحوس دور کا خاتمہ ہوگیا اور دوبارہ پانچ برس پرانا تعمیر و ترقی کاماڈل آ گیا ہے۔
مریم نواز شریف اپنی ہفتے، دو ہفتے کی محنت اور کارکردگی سے حیران بھی کر رہی ہیں اور تحسین بھی لے رہی ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں ہیلتھ سیکٹر کی پانچ برس کی ریفارمز کے ایک ماڈل کی منظوری دے دی ہے جس کے بارے مجھے کچھ خاص اطلاعات نہیں ہیں کیونکہ اس کے لئے روایتی سادہ پریس ریلیز پر ہی انحصار کیا گیا ہے، بیٹ رپورٹرز، سینئر صحافیوں یا کالم نگاروں کو کسی قسم کی بریفنگ نہیں دی گئی۔
میں نے پنجاب کے ہیلتھ سیکٹر کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ مجھے اعزاز ہے کہ جب وائے ڈی اے اور پنجاب حکومت ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے تو میں نے ہی انہیں تنخواہوں میں اضافے اور جاب سٹرکچر کے قیام سمیت دیگر امور پر متفق کیا تھا۔ برادرم پرویز رشید اس کے گواہ سے بڑھ کے اس کا حصہ تھے۔ میں ہسپتالوں کی اچھی عمارتوں کا حامی ہوں مگر سمجھتا ہوں کہ صرف اچھی عمارتیں کافی نہیں ہیں۔ ہمیں ہسپتالوں میں ہیومن ریسورس پر خاص طور پر کام کرنا ہوگا۔ پیشنٹ ڈاکٹر ریشو کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ مستحق مریضوں کے لئے مفت ادویات اور ٹیسٹوں کو یقینی بنانا ہوگا۔
میری تجویز یہ ہے کہ دیہی یا مقامی ہیلتھ سنٹروں سے تحصیل اور ڈسٹرکٹ لیول کے ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کی آپ گریڈیشن کی جائے۔ ان کے لئے نئے بنیادی فارمولے بنائے جائیں۔ تمام ڈی ایچ کیوز اور ٹیچنگ ہسپتالوں کو سٹیٹ آف دی آرٹ بنایا جائے اور وہاں ریفرل سسٹم نافذ کیا جائے یعنی مریض پہلے کسی فیملی فزیشن یا مقامی ہیلتھ سنٹر پر جائے اور اگر وہاں ناقابل علاج قرار پائے تو اگلے مرحلے پر آئے۔
مریم نواز کے پاس پانچ برس موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ مریضوں کے سنٹرل ڈیٹا بیس پر کام کریں یعنی جو مریض کسی بھی جگہ پر جائے اور اگر اس کا مرض شدت والا ہو، ریفرل کی ضرورت ہو تواس کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بن جائے۔ اس میں معالج کے ساتھ ساتھ دی گئی ادویات اور کئے گئے ٹیسٹوں کی رپورٹس بھی آپ لوڈ کی جائیں جس سے اس کی پوری ہسٹری مرتب ہوجائے۔ یہ ناممکن کا م نہیں ہے جو ٹیچنگ اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں پر پیشنٹ لوڈ کو بہت کم کر سکتا ہے۔
ایوان وزیراعلیٰ سے مریم نواز کی پریس ریلیز موصول ہوئی جس میں وہ ویلنشیا ٹائون میں نئے سٹیٹ آف دی آرٹ سرکاری کینسر ہسپتال کے لئے جگہ کا وزٹ کر رہی تھیں۔ میں یہ تو جانتا ہوں کہ سرکاری سطح پر کینسر کے علاج کے لئے پی کے ایل آئی کے معیار کا ایک ہسپتال درکار ہے مگر میں یہ نہیں جانتا کہ اس ہسپتال کے لئے یہ جگہ کس نے تجویز کی ہے۔
ویلنشیا ٹائون، واپڈا ٹائون سے ملحق ہاؤسنگ سوسائٹی ہے اور عمران خان کا شوکت خانم کینسر ہسپتال واپڈا ٹاون کے بالکل سامنے واقع ہے، تکلف برطرف، مجھے جگہ کے چنائو سے سابق وزیراعلیٰ عثمان بُزدار اور سابق وزیر صحت یاسمین راشدکا وہ فیصلہ یاد آ گیا جس میں انہوں نے ماڈل ٹائون میں میاں محمد شریف مرحوم کے بنائے ہوئے اتفاق ہسپتال کے بالکل سامنے، آئی ٹی ٹاور کے ساتھ، کوٹ لکھپت والی سبزی منڈی کی جگہ پر ایک جنرل ہسپتال بنانے کا پورا منصوبہ ایک بریفنگ میں ہمارے ساتھ شئیر کیا تھا۔
میں نے اس پر آواز بلند کی تھی کہ یہ عوام کی خدمت نہیں اتفاق ہسپتال کو ناکام بنانے کا منصوبہ ہے۔ مجھے اعتراض یہ بھی تھا کہ قرب و جوار میں جنرل، گلاب دیوی، چلڈرن، جناح ہسپتال وغیرہ وغیرہ پہلے سے موجود ہیں تو ایک نئے جنرل ہسپتال کا وہاں کیا فائدہ اور اب یہی اعتراض مجھے ویلنشیا میں کینسر کے سرکاری ہسپتال کی مجوزہ تعمیر پر ہے۔ یاسیمین راشدکا گنگارام میں مدر اینڈ چائلڈ کئیر ہسپتال کا منصوبہ بھی قابل اعتراض تھا کیونکہ مزنگ کے علاقے میں پارکنگ تک کی جگہ نہیں۔
یہ ہسپتال بھی کسی کھلی جگہ ہونا چاہئے۔ جہاں تک شوکت خانم کا سوال ہے تو یہ درست ہے کہ دوسو بستروں کے ایک ہسپتال کے فنڈز اور عطیات پر بہت سارے تحفظات موجود ہیں مگر اس کے باوجود اس کے قریب دوسرا ہسپتال بنانا کسی طور بھی ڈیسنٹ چوائس نہیں ہے جب اس کے بہت قریب رائے ونڈ روڈ پر کینسر کا ایک اور شاندار مفت ہسپتال بن چکا۔ نئے ہسپتال کو کسی دوسرے شہر میں نہ بھی بنایا جائے تو ٹھوکر نیاز بیگ سے شاہدرہ تک لاہور کے دروازے پر کہیں بھی بنایا جا سکتا ہے جہاں رسائی آسان ہو۔
میری تجویز یہ ہے کہ ایک کینسر کے علاج کا ایک شاندارسرکاری ہسپتال ضرور بنایا جائے اور اس کے ساتھ ہی صوبے بھر کے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں کینسر کے شعبے قائم کرکے انہیں مرکزی ہسپتال کے سٹیلائیٹ وارڈز بنا دیں۔ حکومت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس طاقت کو استعمال کرکے آپ کینسر کے علاج کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنا دیں گے کہ محض دو سوبستروں کا شوکت خانم ہسپتال اس کے سامنے کچھ بھی نہیں رہ جائے گا جو اس وقت بھی ہر تیسرے اور چوتھے درجے کے کینسر کے مریض کو محض اپنا ریکارڈ اچھا رکھنے کے لئے علاج فراہم کرنے سے ہی انکا رکر دیتا ہے۔
شوکت خانم کا تھرڈ پارٹی آڈٹ بہت ضروری ہے۔ مجھے یہ خدشہ ظاہر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ ہسپتال جنوبی ایشیاء میں فنڈز کے مس یوز اور منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا مرکز ثابت ہو سکتا ہے، اسے ملنے والے عطیات کے سیاسی تحریکوں میں استعمال ہونے اور فیملی ڈائریکٹرز کی ذاتی جائیدادوں کی خریداری میں استعمال ہونے کے بھی الزامات ہیں، جن کی تحقیقات ضروری ہیں۔