آپ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو فائلر ہونا چاہیے اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ اس وقت کل پاکستانیوں کی کل تعداد کا ایک سے دوفیصد بھی فائلر نہیں ہیں مگر کیا ہم دنیا سے انوکھے نہیں ہیں کہ دنیا بھر میں فائلرز کو عزت اور مراعات دی جاتی ہیں اور پاکستان میں فائلر ہونے کا مطلب ہے آپ قصائی کی چھری تلے آ گئے ہیں اور وہ جب چاہے گا آپ کے بدن سے گوشت کی بوٹی اتار لے گا۔ میں بڑے بڑے دعووں اور اعداد وشمار کے ساتھ نہیں جاتا، صرف حالیہ ایک واردات کا تجزیہ کر لیتے ہیں جو ایف بی آر کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ذریعے کی ہے، جی ہاں، اسے واردات ہی کہا جا سکتا ہے جس میں ٹیکس دہندہ کو علم ہی نہیں کہ اس ٹیکس کا مزید بوجھ لاد دیا گیا ہے، یہ وہ پھندا ہے جو جس کی گردن میں فٹ آیا، ڈال دیا گیا۔
حکومت نے اعلان کیا کہ آپ اگر آپ "ای پے" کے ذریعے اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو آپ کوخصوصی رعائیت دی جائے گی۔ پنجاب بھر میں ہزاروں گاڑیوں کے مالکان نے رعائیت کے ساتھ بروقت ٹوکن ٹیکس ادا کرنے کے لئے ای پے ڈاون لوڈکی تو ان پر حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ان کی گاڑی کو ایکسائز اینڈ ٹیکسائز ڈپیارٹمنٹ کی طرف سے بلاک کیا جا چکا ہے، ان کمرشل اور پرائیویٹ گاڑیوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائدہے اوران کے ماڈل 2014سے 2016 تک بیان کئے جا رہے ہیں۔ ایپ میسج دیتی ہے کہ آپ متعلقہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس سے رجوع کریں اورجب متعلقہ دفتر سے رجوع کیا جاتاہے تو وہ بتاتے ہیں کہ آپ نے ان گاڑیوں کی خریداری پر کم انکم ٹیکس، اداکیا تھا یعنی گذشتہ تیس برس سے بھی زائد سے پریکٹس ہے کہ جس مہینے گاڑی لی جاتی ہے اسی مہینے خرچ کی گئی رقم پر سے باقی مہینوں کا ٹیکس شامل کر لیا جاتاہے یعنی آپ نے جنوری میں گاڑی خریدی تو آپ جنوری سے جون کا انکم ٹیکس ادا کریں گے مگر اب یہ حکم جاری ہواہے کہ گاڑی چاہے مارچ، اپریل، مئی میں ہی کیوں نہ لی جائے انکم ٹیکس گذشتہ جون سے ہی ادا ہو گا، اب اس کی کیا منطق ہے کہ جب آپ نے پیسے خرچ ہی نہیں کئے تو اس پر ٹیکس کیوں دیا جائے؟
غیر منطقی اور ظالمانہ بات یہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جو انکم ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جو ان لوگوں کے لئے ریفنڈ ایبل ہے جو باالخصوص تنخواہ دار ہیں یا فائلر ہیں کیونکہ وہ ان روپوں پر پہلے ہی انکم ٹیکس ادا کر چکے ہیں جب انہوں نے تنخواہ وصول کی تھی مگر یہ ریفنڈ ایبل ایسا ہے جو کبھی ریفنڈ نہیں ہوتا لہٰذا ہم اسے بہت آسانی کے ساتھ ڈبل ٹیکسیشن میں ڈال سکتے ہیں یعنی جو لوگ پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں آپ نے ان سے دوبارہ ٹیکس مانگ لیا، سوری، مانگ نہیں لیا بلکہ بغیر کسی اطلاع کے انکی گاڑی کو بلاک کر کے آپ نے انہیں بلیک میل کیا، خدانخواستہ ان کا سامنا ایکسائز کے کسی ناکے پر عملے سے ہوجاتا تووہ چاہے فیملی کے ساتھ ہوتے، انہیں گاڑی سے اتار لیا جاتا اور ذلیل وخوار ہونا پڑتا کیونکہ وہ آپ کے معزز ٹیکس گزار شہری ہیں۔ بات صرف یہی نہیں کہ آپ مجھ سے اس مدت کا ٹیکس بھی لے رہے ہیں جس مدت میں رقم خرچ ہی نہیں ہوئی اور ڈبل ٹیکس وصول کر رہے ہیں بلکہ تیسری صورت اور زیادہ گھٹیا اور بری ہے اوروہ یہ ہے کہ آپ نے ایک گاڑی کسی شخص سے خریدی اور یہ ٹیکس اس پر واجب الادا تھا لیکن چونکہ تمام تر ٹیکس کلیئر ہونے کے بعد محکمے نے وہ گاڑی آپ کے نام ٹرانسفر کر دی لہٰذا اب یہ ٹیکس آپ سے لیا جائے گاچاہے وہ ذمے کسی اور کے تھا۔ وہ گاڑی چونکہ آپ پاس ہے اس لئے پرانے مالک کا نہ ادا کیا ہوا ٹیکس بھی آپ ہی ادا کریں گے کیونکہ آپ کا ٹیکس جمع کرنے والا محکمہ نااہل اور نکما ہے اور وہ اس سے ٹیکس وصول نہیں کر پا رہا جس نے اصل میں نئی گاڑی خریدی تھی۔
اس سے بھی اگلا مرحلہ وہ ہے جس میں امپورٹڈ گاڑیوں پر وہ ٹیکس لیا جا رہا ہے جس برس میں وہ رجسٹرڈ ہوئیں حالانکہ اصول یہ ہے گاڑیوں پر ٹیکس ان کے ماڈل کے حساب سے لیا جاتا ہے اور ایک مخصوص مدت کے بعد ٹیکس میں رعائیت ملتی ہے یعنی اگر2010 ماڈل کی گاڑی اگر 2016 میں امپورٹ اور رجسٹرڈ ہوئی تو آپ اس پر 2016 کا ٹیکس لیں گے جو اصل میں ماڈل کے مطابق ہی ہونا چاہئے کہ امپورٹ ہونے سے پرانی گاڑی نہیں ہوجاتی، صرف یہاں رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ گاڑیوں سے ہی یاد آیا کہ اس وقت پچیس لاکھ کاروں، موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹیں التوا کا شکار ہیں، ان باکس نامی کمپنی سے معاہدہ ختم ہوئے دو برس ہو چکے ہیں مگر دوسری طرف ہمارے وزیر ایکسائز نئی نمبر پلیٹوں کے اجرا کا اعلان کر رہے ہیں جو سائز میں بڑی ہوں گی اور پنجاب بھر کے تمام اضلاع میں ایک ہی کمپیوٹرائزڈ نمبر جاری کیا جائے گایعنی عوام کو ایک نئی خجل خواری کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ نے گزشتہ برس دسمبر میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کی جگہ سمارٹ کارڈ کے سسٹم کا افتتاح کیا تھا جس کا بحران الگ سے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گاڑیوں کے آن لائن ٹوکن ٹیکس ادا کرنے کے نظام ای پے، پر بھی لوٹ مارشروع ہو چکی ہے۔ ایکسائز ڈپیارٹمنٹ نے لاکھوں روپے کم وصول ہونے پر تین ملازمین کو شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔ اب اگر جدید کمپیوٹرئزاڈ اور آن لائن نظام میں بھی فراڈ ہو گا توسوال یہ ہے کہ عام پاکستانی کدھر جائے۔ یہ بات بار ہا کہی جا چکی کہ ہر پاکستانی کا شناختی کارڈ ہی اس کا نیشنل ٹیکس نمبر ہونا چاہئے اور وہ جہاں بھی، کوئی بھی ادائیگی کرے اس کے کھاتے میں درج ہو اور سال کے بعد شہری نہیں بلکہ ایف بی آر اس کو بتائے کہ اس نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے کہ ریٹرن کا مطلب یہی ہوتاہے، ہم نے ٹیکس دیااور ٹیکس لینے والے نے ریٹرن یعنی رسید دے دی۔
حاصل کلام یہی ہے کہ پاکستانی ہونا روز بروز مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بجلی کی وافر پیداوار ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ بے قابو ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بل بھی۔ بجلی کے بلوں میں بھی قیمت کے ساتھ ساتھ ایک سے ڈیڑھ درجن تک مختلف قسم کے ٹیکس شامل ہیں مگر اس کے باوجود ہم بے چاروں پر الزام ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے، ارے ہم تو جینے کی ایک ایک سانس پر ٹیکس دیتے ہیں اور جب مرجاتے ہیں تب بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ درخواست یہی ہے کہ ٹیکس دہندگی کے اس نظام کو کچھ آسان کیا جائے۔ ہم اسی پرانے ملک کے باسی ہیں جنہوں نے اپنے بادشاہ سے درخواست کی تھی کہ انہیں جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جائے کہ جوتے کھاتے ہوئے وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔