اگر آپ ایک صحافی ہیں تو آپ کبھی تصویر کے ایک رخ پر مطمئن نہیں رہ سکتے۔ تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ اب تک کرونا کے ساڑھے 33 لاکھ مریض کنفرم کئے جا چکے، دو لاکھ 40 ہزار کے قریب اموات ہو چکیں، 10 لاکھ سے زائد صحت یاب بھی ہو چکے۔ پاکستان میں مریضوں کی تعداد ساڑھے اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ، اموات سوا چارسو کے قریب، پنجاب او ر سندھ دونوں صوبوں میں سات، سات ہزار کے قریب مریض اور خیبرپختونخوا میں تین ہزار۔ گذشتہ روز کے تمام اخبارات کی شہ سرخی کہ ایک دن میں ریکارڈ 47 اموات مگران میں سے 39 اموات صرف خیبرپختونخوا میں ہوئیں، اب تک کرونا سے ہونے والی مجموعی اموات کا سب سے بڑا ریکارڈ بھی اسی صوبے کے پاس ہے جو پنجاب سے آبادی میں ایک تہائی سے بھی کم ہے۔
اب انڈیا سے امریکا تک ڈاکٹروں کے ایسے بیانات وائرل ہو رہے ہیں جن میں وہ کرونا اور لاک ڈاون کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں اور یہی تصویر کا دوسرا رُخ ہے اور مجھے بطور صحافی یہی سوالات اپنے ملک کے بارے میں اٹھانے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ پاکستان میں ا موات ان کی توقع کے مطابق نہیں ہو رہیں، جی ہاں، وہ لفظ توقع ہی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ باتیں عام کی جا رہی ہیں کہ پاکستان میں کرونا کو اس لئے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف او ر ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی اداروں سے امداد کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ مجھے سب سے پہلے خیبرپختونخوا کے حوالے سے بات کرنی ہے کہ جب 17مارچ کو آئی ایم ایف اعلان کرتا ہے کہ وہ کرونا سے متاثر ملکوں کے لئے10 کھرب ڈالر کا پیکج لا رہا ہے تو اس سے اگلے ہی روز یعنی 18 مارچ کو پاکستان میں کرونا سے پہلی دو اموات اعلان کی جاتی ہیں اور یہ دونوں اموات خیبرپختونخوا میں ہوتی ہیں۔ اس سے ایک روز قبل لاہور کے میو ہسپتال میں ا یک موت کا اعلان کیا جاتا ہے مگر تھوڑی سی تحقیق اس اعلان کو غلط ثابت کر دیتی ہے لہذا اگلے اعلان کے لئے، سازشی تھیوریوں کے مطابق، پشاور اور مردان کا چناو کیا جاتا ہے اور اب بھی وہ صوبہ اموات کا ریکارڈ قائم کرنے میں سب سے آگے ہے جہاں گذشتہ سات برسوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اگر ریکارڈ اموات کا یہ اعلان درست ہے تو پھر پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا میں سات برسوں میں کی گئی طبی اصلاحات کے سامنے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پندرہ مارچ سے پندرہ اپریل کے درمیان پاکستان میں کرونا بہت تیزی سے بڑھتا ہے اگرچہ اس وقت تک عام لوگ یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے کرونا کے بارے سب کچھ میڈیا پر ہی سنا ہے، اپنی نظروں سے کوئی مریض نہیں دیکھا۔ یوں 18 اپریل کو اعلان ہوجاتا ہے کہ گذشتہ برس بہت کوششوں کے بعد ملنے والے چھ ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کو آئی ایم ایف منجمد کر دیتا ہے اور 22 اپریل کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ٹوئیٹ کے مطابق پاکستان کو ایک ارب 39 کروڑ ڈالر وصول ہوجاتے ہیں۔
کرونا سے اموات پر بہت سارے سوالات ہیں۔ ہسپتال پہنچنے والا ہر دوسرا مریض کرونا کے وارڈ میں جا رہا ہے اور طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ دل، جگر، گردے یا کسی بھی دوسری وجہ سے موت کو کرونا کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ نارووال کے مولانا یحییٰ خان محسن ہوں یا آر ایم آئی پشاور کا آگ سے جھلسنے والا نوجوان عاصم ریاض، ان سمیت بہت ساروں کی کہانیاں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جنہیں زبردستی کورونا ڈیتھ ڈیکلئیر کیا گیا۔ شکوک و شبہات پیدا کرنے والے کہتے ہیں کہ کرونا کے مریضوں کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا جا رہا جو لازمی کر دیا جائے تو کرونا سے اب تک رپورٹ کی گئی اموات دس فیصد بھی نہ رہ جائیں۔ سینئر ہیلتھ رپورٹر میاں نوید کہتے ہیں کہ ہسپتال سے کوئی بھی ڈیڈ باڈی لینا آسان کام نہیں کہ اس کے لئے آپ کو کم از کم تابوت کے دس ہزار تو ضرور دینے پڑتے ہیں اور پھر اس کے بعد پولیس آجاتی ہے جو پورے علاقے کو سیل کرتی ہے اور بیس، پچیس ہزار ضرور لے جاتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ کئی علاقوں میں کرونا کے ہلاک شدگان کو قبرستانوں میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور کئی مقاما ت پر ایک، ایک لاکھ روپے وصولی کی شکایات ہیں کیونکہ اس وقت حکومت اور میڈیا نے ایک ہائپ پیدا کر رکھی ہے۔ مرنے کے بعد کون کرونا ٹیسٹ کرواسکتا ہے مگر بہت ساروں کو جب کرونا سے شہید قرار دے کر دفن کر دیا گیا تو ان کا لیا گیا سیمپل نیگیٹو آیا۔ سوال یہ ہے کہ ہسپتالوں کی ایڈمنسٹریشن، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے اموات کیوں زیادہ دکھائی جا رہی ہیں؟
کرونا کی فی الحال کوئی ویکسین نہیں اور نہ ہی کوئی علاج ہے اور اس کا مقابلہ صرف قوت مدافعت سے کیا جاسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی طرف سے کوئی ایک پروگرام بھی قوت مدافعت میں اضافے کا شروع کیا گیا، ہرگز نہیں، دوسری طرف کورونا کا مشتبہ مریض صرف ٹیسٹ سے کنفرم ہوسکتا ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کرونا آنے سے اب تک تریسٹھ دنوں میں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں جگہوں پر کُل ستتر ہزار چھ سو انیس ٹیسٹ کئے گئے جو ایک روز کے 1230 کے لگ بھگ بنتے ہیں جبکہ دعویٰ یہ ہے کہ وسیم اکرم پلس کا صوبہ دس ہزار ٹیسٹ روزانہ کر سکتا ہے۔ یہاں بات صرف پاکستان کی نہیں بلکہ امریکا سب سے آگے ہے، سی ڈی سی کی ویب سائیٹ کے مطابق امریکا کی ساڑھے 33 کروڑ آباد ی میں سے ہر برس دس فیصد لازمی طور پر فلو کا شکار ہوتے ہیں، ان دس فیصد کا آگے دس فیصد ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں اور ایک فیصد جاں بحق ہوجاتے ہیں، جہاں ہر برس انفکیشن والی بیماریوں سے لاکھوں اموات ہو رہی ہیں تو کرونا میں نیا کیا ہے۔ کرونا بارے خوف پھیلانے میں سے سب بڑا کردار عالمی ادارہ صحت کا ہے حالانکہ اس ادارے کو خوف کی بجائے تحفظ کی علامت ہونا چاہےے تھا۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ بل گیٹس اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن کورونا کی ویکسین لا رہی ہے اور گوگل بتاتا ہے کہ اس وقت ڈبلیو ایچ او کو پینتالیس فیصد فنڈ بل گیٹس کی یہی فاونڈیشن فراہم کر رہی ہے اور اس کے بعد جرمنی بارہ فیصد، یوکے سات فیصد اورجاپان، کوریا چھ، چھ فیصد دیتے ہیں۔ کچھ سمجھ آیا یا مزید کچھ بتایاجائے؟
چلیں، سازشی تھیوریوں میں مزید بہت کچھ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی طرف سے لاک ڈاون پر اصرار کر کے اتنا خوف اس وجہ سے پھیلایا جا رہا ہے تاکہ دنیا کے ہر ملک کا ہر شہری یہ ویکسین پینے پر مجبور ہوجائے۔ بل گیٹس نے جوانی میں کمپیوٹر انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی اور اب وہ مزید تجربہ کار ہو کر اس سے بڑے منافعے کے لئے فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں آ گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین صرف ویکسین نہیں ہوگی بلکہ یہ دنیا بھر کے انسانوں کا ڈی این اے کنٹرول کرے گی، اس کے ذریعے لوگوں کی سوچ تک کو کنٹرو ل کیا جائے گا۔ ملانے والے تو فائیو جی ٹیکنالوجی کو بھی اس کے ساتھ ملا رہے ہیں اور ایسے ہی خدشات پریوکے میں فائیو جی ٹاورز پر حملے ہوئے۔ سازشی تھیوریوں کے مطابق کرونا ویکسین سے سپر مائیکرو چپس دنیا بھر کے انسانوں میں داخل کر دی جائےںگی جس کے بعد فائیو جی ٹاورز سے دنیا بھر کے انسانوں کی نقل و حرکت بھی نوٹ ہو گی۔ اجتماعات کرنے، ہاتھ ملانے اور بہت قریب آنے پر پابندی ہوگی تاکہ سگنلز کا ایشو نہ ہو اور ہر ہیومن بینگ علیحدہ علیحدہ ٹریس ہو سکے۔ یوں ایک نیا ورلڈ آرڈر سامنے آئے گا جو پوری دنیا کے انسانوں کی نقل وحرکت ہی نہیں بلکہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت، ہر قسم کی نقل و حرکت ہی نہیں بلکہ سوچ اور جذبات تک کو مانیٹر اور کنٹرول کر رہا ہو گا۔
اگریہ باتیں درست ہیں تو پھرجہاں دنیا کے دیگر بے شمار ممالک اس سازش کے سامنے بے بس اور لاچار ہو گئے توبے چارہ پاکستان کیا کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم کا معصوم سا ویژن ہی درست ہے کہ ہم اموات کو زیادہ سے زیادہ دکھائیں کہ قرض تو معطل ہو گیا اب ہمیں زیادہ سے زیادہ امداد مل سکے۔ ہمارے ویژن، ہماری کوششوں اورہماری کامیابی کا دائرہ یہیں تک محدود ہے۔