Friday, 22 November 2024
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Corona Awam Ki Wajah Se Phela?

Corona Awam Ki Wajah Se Phela?

ایک گروہ ہے جو دوبرس پہلے یہ کہتا تھا کہ پاکستان کی ناکامی کی وجہ کرپٹ اور نااہل حکمران ہیں اور اب اسے کورونا پھیلنے کی وجہ جاہل اور بدتمیز عوام نظر آ رہے ہیں۔ اس ٹولے کے بس میں ہو تو ملک کی تاریخ کے سب سے بڑ ے قرضوں کی ذمے داری بھی عوا م پر ہی ڈال دے کہ اس کے پسندیدہ حکمران کی قمیض میں دو موریاں ہوتی ہیں، یہ عوام ہیں جوبہت کھاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کچھ بازاروں میں رش کی تصویریں دکھا کے عوام کو گالیاں دی جا سکتی ہیں۔ کیا یہ عوام نے کہا تھا کہ بازاروں کو عید جیسے موقعے پر محض چند گھنٹوں کے لئے کھولاجائے اور پاکستان مریضوں میں چین سے آگے نکل جائے؟

بات کا آغاز کورونا کی ابتدا سے ہونا چاہئیے۔ کورونا کی امپورٹ، سرحدوں اور ائیرپورٹوں سے ہوئی جن کا کنٹرول کسی صورت میں بھی عوام کے پاس نہیں تھا۔ آج حکمران جتنی توجہ اورجتنے فنڈز خرچ کرنے کے دعوے کر رہے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ ہی ایران، سعودی عرب اور انگلینڈ وغیرہ سے آنے والوں پر خرچ کر دیتے، ان کی باقاعدہ سکریننگ کی جاتی، مشتبہ مسافروں کو قرنطینہ کروایا جاتا تو پاکستان اس وقت ایک محفوظ ملک ہوتا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی ذمے دار ادارے نے وزیراعظم کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کے اس معاملے میں ملوث ہونے کی انکوائری تک کرنے کی زحمت نہیں کی جس کے ثبوت سوشل میڈیا پروائرل ہوتے رہے۔ عوام اس وقت بھی ذمے دار نہیں تھے جب کورونا سے نمٹنے کے لئے پی پی ای ( پرسنل پروٹیکشن ایکویپمنٹ)، ماسک اور سینی ٹائزر درکار تھے تو مشیر صحت ظفر مرزا کی طرف سے ان کی ایکسپورٹ کی اجازت دی جا رہی تھی، اس معاملے کی شکایت ینگ فارماسسٹس ایسوسی ایشن نے ایف آئی اے کی تھی جس کی تحقیقات اور نتائج بارے ابھی تک کسی کو کچھ علم نہیں۔

تیسری وجہ کی ذمہ داری بھی عوام پر نہیں، کورونا کے فرنٹ لائن کے مجاہدین ہمارے ہیلتھ پروفیشنلز ہیں مگر حکومت کی طرف سے آ ج تک ان کی حفاظتی ضروریات ہی پوری نہیں کی گئیں۔ کورونا، ڈینگی کی طرح ہرگز خطرناک نہیں اگر یہ قیمتی جانیں نہ لے رہا ہو مگر حکومت نے نہ تو ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس فراہم کئے اور نہ ہی کورونا سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی تربیت۔ ہیلتھ پروفیشنلز سے پوچھ لیجئے ہر ہسپتال میں اٹکل پچو کام ہو رہا ہے۔ ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن کے صدر حامد بٹ بتاتے ہیں کہ بیس فیصد ہیلتھ پروفیشنلز کرونا پازیٹو ہوچکے جو دنیا بھر کی بڑی شرح ہے مگر ہمارے ہاں حکومتی سطح پر نہ کوئی ریسرچ ہے اور نہ ہی رہنمائی بلکہ یہ الزام حیرت انگیز طور پر سامنے آیا ہے کہ یہاں سب سے بڑے صوبے کی وزیر صحت نے وبا کے پھیلنے کے بعدکسی ہسپتال کا دورہ تک نہیں کیا بلکہ محکمہ صحت کے دونوں سیکرٹریوں نے ڈاکٹروں کے اپنے اپنے دفتروں میں گھسنے پر باقاعدہ بینرز لگا کر پابندی لگادی ہے کہ اگر تم لوگوں نے مرنا ہے تو اپنے اپنے ہسپتالوں میں مرو، ہمارے پاس کیوں آتے ہو۔ حکومت نے ڈاکٹروں کو نہ اعتماد دیا اور نہ ہی وسائل، وائے ڈی اے نے سوموار سے اس روئیے کے خلاف او پی ڈیز بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

چوتھی وجہ ریاستی وسائل کا غلط استعمال ہے جس کی ذمہ داری بھی عوام پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ کیا یہ موقع تھا کہ حکومت کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ملازمین کو نظرانداز کرتے ہوئے کوئی ٹائیگر فورس قائم کی جاتی۔ یہ اسی طرح ہے کہ سیلاب آجائے تو آپ درخت کاٹنا شروع کر دیں کہ ہم اس کی کشتی بنائیں گے یا پیاس لگے تو آپ کنواں کھودنا شروع کر دیں۔ حکومت دعوے کرتی ہے کہ اس نے غریب عوام کی بارہ، بارہ ہزار روپو ں سے مدد کی ہے مگر حکومت کے ہی مختص کردہ بجٹ اور امداد حاصل کرنے والے عوام کی تعداد میں واضح فرق نظرآتا ہے جس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ انتہائی ضروری ہے۔ ایک ترقی پذیر منقسم معاشرے میں کسی بھی بحران میں قومی اتحاد اور اتفاق رائے پیدا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر عملی طور پر صورتحال یہ رہی ہے کہ وزیراعظم انٹرنیٹ کی مدد سے ہونے والی قومی کانفرنس میں اپنی بات سنا کر سائن آف کر گئے۔ وبا بے قابو ہوجانے کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ بجٹ سے پہلے لیڈر آف دی اپوزیشن کو گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جار ہی ہے اور انہتر برس کا بزرگ شخص کرونا کے ڈر سے چھپتا چھپاتا پھر تارہا ہے تاوقتیکہ کہ اسے لاہور ہائی کورٹ سے عارضی تحفظ نہیں مل گیا۔ ان دونوں وجوہات میں بھی عوام کو آپ کس طرح ذمہ دار قرا ر دے سکتے ہیں؟

چھٹی وجہ کمٹ منٹ اور ڈائریکشن کا نہ ہونا ہے۔ یہ ایک عجیب صورتحال ہے جس میں ڈی فیکٹو حکومت ایک طرف ہے اور وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے ہوئے صاحب دوسری طرف ہیں۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈاون نہیں ہو گا او ر اسی موقعے پر لا ک ڈاون ہو رہا ہے۔ سیاسی اتفاق رائے سے ہٹ کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں مشترکہ حکمت عملی کا قیام آئینی ضرورت بھی کہا جا سکتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ وفاق، صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام رہا جس کے بعد ہر صوبے میں الگ الگ فیصلے ہوئے۔ اٹھارہویں ترمیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وفاق اپنا اعتماد، بھرم اور مقا م ہی کھو دے کہ یہاں بہت سارے وفاقی وزرا نے بچگانہ رویوں کا مظاہرہ کیا۔ حکومتی اداروں کی حکمت عملی کیا رہی اس بارے سب بہتر جانتے ہیں۔ ایک ادارہ لاک ڈاون کروا رہا تھا تو دوسرا بازار اور شاپنگ مال کھلوا رہا تھایعنی ساتویں وجہ خود ریاستی اداروں میں مشترکہ حکمت عملی کا فقدان تھا جس کی ذمہ داری بھی عوام پر نہیں ہے۔ عوام نے نہ بازار بند کئے تھے اور نہ ہی کھولنے میں ان کا کوئی کردار ہے۔

آٹھویں وجہ کورونا بارے سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ پروپیگنڈے کا توڑنہ ہونا ہے بلکہ معذرت کے ساتھ کورونا مخالف پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں خود وزیراعظم کی بغیر کسی تیاری، وژن اور ایجنڈے کے کی گئی تقریوں کا کردار سب سے بنیادی ہے۔ وزیراعظم کا ایک خطاب ہی دوسرے کی نہیں بلکہ ایک ہی خطاب میں ایک موقف دوسرے کی نفی کرتا رہا۔ کیا وزیراعظم کی تقریروں عوام لکھتے تھے۔ نوویں وجہ یہ ہے کہ حکومت ایک مشترکہ سماجی ذمے داری کاڈھانچہ دینے میں ناکام رہی۔ جب لاک ڈاون کھولا گیا تو کسی کو علم نہیں تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ بیوروکریسی اور پولیس سمیت حکومتی اداروں کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور تاجر تنظیموں کے ذمے کیا ہے اس سلسلے میں الم غلم اورالٹ پلٹ اجلاس کرنے والے گورنر اور وزرا بھی کوئی سٹریٹیجی اور ایس او پیز نہ بنا سکے اور جب بازار کھلے تو گھڑمس مچ گیا۔ آج وزیراعلیٰ پنجاب ٹوئیٹ کر کے ایکشن لینے کا کہہ رہے ہیں یعنی آپ نے سانپ نکال دیا ہے اور لکیر پیٹنے جا رہے ہیں، پیٹیں ضرور پیٹیں کہ آپ کے فالوورز اس سے بھی مطمئن ہوجائیں گے۔

دسویں وجہ ہر ناکامی کی وجہ بننے والی بے عملی ہے۔ ہمارے حکمران باتیں تو بہت اچھی کرتے ہیں مگر جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو یوٹرن لے لیتے ہیں۔ ہمارے سینئر کالم نگار کا دعویٰ ہے کہ بھٹو کے بعد جناب عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جو ہر وزیر کی کارکردگی رپورٹ منگواتے اور دیکھتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے تعلیم اور صحت کے وزراءکی کارکردگی کو جانچا۔ حکومتی بے عملی میں عوام کا کیا قصور کہ رمضان کے بعد جب کرونا حملے تیز کر رہا تھا، معاشی تباہی قدم جما رہی تھی اور ہمسایہ ملکوں میں جنگ کا خطرہ منڈلا رہا تھا تواس نازک موقعے پرملک کے چیف ایگزیکٹوکئی دن تک منظر سے غائب رہے۔

مجھے اس وقت شدید حیرت ہوتی ہے جب کچھ برائلردانشور یہ کہتے ہیں کہ کورونا اس وجہ سے پھیلا کہ عوام عید کے موقعے پر شاپنگ کے لئے نکل آئے یاکچھ لوگوں نے ماسک نہیں پہنے۔ کیا حکومت نے ایسے اقدامات کئے تھے کہ بازار اس طرح کھولے جاتے کہ کم اوقات کی وجہ سے رش نہ ہوتا یا اربوں روپے تقسیم کرنے کے دعوے داروں نے کہیں مفت ماسک تقسیم کئے اورماسک کے بغیر باہر نکلنے پر پابندی عائد کی۔ یہ نام نہا ددانشور اس بھیڑئیے کے فکری ساتھی ہیں جس نے عوام نامی میمنے کو ہر صورت میں کھانا ہے۔ چاہے میمنا کہتا رہے کہ میں آپ کو برا بھلا کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا جب آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور یہ کہ کورونا کا پانی آپ کی طرف سے آ رہا ہے اسے میں کیسے گدلاکر سکتا ہوں؟