میں اور لاک ڈاون کی فضیلتوں، فوائد اور برکات کی نفی کروں، توبہ کیجئے توبہ، یہ سوال کروں کہ کرونا آیا کہاں سے تھا اور جا کہا ں رہا ہے، مریض بڑھے کیسے تھے اور کم کیسے ہو رہے ہیں۔ لاک ڈاون اچھا، بہت اچھا، ایسی خوبی ہونی چاہئے کہ جب عمران خان کہیں کہ لاک ڈاون غریب کے لئے زہر قاتل ہے، میری مانی جاتی تو صوبوں کو کبھی لاک ڈاون نہ کرنے دیتا تو اس پر تالیاں بجائی جائیں اور جب صوبے لاک ڈاون کر دیں تو پھر اس پر بھی۔ یہ لوگ احمق اور پاگل نہیں ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے ہیں۔ ان میں کچھ تو ایسا ہے جو پہلوں میں نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ پہلوں کو نیب کی حوالاتوں میں ڈال کر خود کلب روڈ کے فیصلہ ساز بنگلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ تمام بیوروکریٹ جو پچھلے حکمرانوں کی مالشیں کیا کرتے تھے اب ان کی کرتے ہیں۔ اب ان کےلئے ٹریفکیں بلاک ہوتی ہیں، ان کے لئے وڈے وڈے ہوٹر بجتے ہیں۔ ان میں کچھ تو خاص تھا کہ کچھ نے انہیں ووٹ دئیے اور کچھ نے ووٹوں کے بغیر ہی انہیں حکمرانی کا حق۔ جو لوگ عمران خان کی چوائس کہلاتے ہیں کاش وہ اپنی اس پسند کو آدھے سے زیادہ پاکستان کے بجائے شوکت خانم اور نمل کی ایڈمنسٹریشن دے دیتے تاکہ ان کے اپنے ادارے بھی اسی طرح ترقی، کرتے جس طرح وہ ان کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جا رہے ہیں۔
یہ ایک میٹنگ کی کہانی ہے جس میں عیدالاضحی پر لاک ڈاون کا فیصلہ کیا گیا، بس ایک میٹنگ ہوئی، وزیر صحت، جو کہ ایک ڈاکٹر بھی ہیں، انہوں نے تجویز پیش کی کہ عید کے موقعے پر بازار بند ہوجانے چاہئیں۔ اب کسی کی کیا مجال کہ اس انتہائی ٹیکنیکل اور پروفیشنل رائے کی مخالفت کرے۔ اُدھر میٹنگ ختم ہوئی اور ادھر اعلامیہ جاری کر دیا گیا کہ آج رات بارہ بجے سے یعنی اس منگل سے عید کے بعد والے بدھ تک بازار بند۔ اس پر تاجر چیخ اٹھے۔ ایک چیخ تو یہ تھی کہ ہماری دکانیں بند کی جار ہی ہیں تو کیا ہم مریخ پر رہتے ہیں، ہم سے بات تو کر لی جاتی، ہم سے مشورہ تو کر لیا جاتا۔ مان لیا کہ حکومت آپ کو تحفے میں ملی ہے مگر کاروبار تو ہم نے محنت سے بنائے ہیں۔ آپ نے لاک ڈاون کرنا تھا تو ہفتہ، دس دن پہلے اعلان کر دیتے۔ وہ مال جو عید پر بیچنے کے لئے ڈلوایا تھا اور جس کی ادائیگی کرنا تھی اس کے فروخت ہونے کا کوئی چارہ ہوجاتا، اسی عید سیل سے کارخانوں کو ادائیگیاں ہوجاتیں، کارخانوں والے اپنے مزدوروں اور دکانوں والے اپنے سیلز مینوں کو کچھ تنخواہ دے دیتے اور کچھ عیدی۔ یہ عید اچانک سکائی لیب کی طرح تو اوپر سے نہیں گری تھی کہ آپ کو ہنگامی فیصلہ کرنا پڑ گیابلکہ رمضان، شوال، ذیقعد اور ذی الحج کا چاند دیکھنے کے بعد ہی ممکن ہوئی تھی۔ چیختی دھاڑتی بریکنگ نیوز میں وہ تمام لوگ جو ابھی عید میں چار، پانچ دن ہیں کی رٹ لگائے بیٹھے تھے اپنی اپنی بیویوں اور بچوں کو لے کر بازاروں کی طرف یوں دوڑے گویا زندگی کی آخری شاپنگ ہو، کئی خرانٹ مرد اپنی بیویاں اورکئی معصوم عورتیں اپنے بچے گم کرتے کرتے بچیں، لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کا وہ حال ہواکہ گاڑی پر گاڑی چڑھی ہوئی تھی۔
تاجروں نے وہی کیا جو ان سے توقع کی جا رہی تھی یعنی انہوں نے لاک ڈاون کے اس اعلان کو مسترد کر دیا، مطالبہ کیا کہ جناب عمران خان کے بیانات کی لاج رکھتے ہوئے اسے واپس لے لیا جائے۔ تاجروں کی طرف سے دکانیں کھولنے کے اعلانات پر گذشتہ صبح تمام مارکیٹوں میں پولیس کی بھاری نفری بھیج دی گئی۔ دکانیں کھلنے سے خطرہ اتنا زیادہ تھا کہ جن مارکیٹوں نے گیارہ، بارہ بجے کھلنا تھا وہاں بھی صبح فجر کے وقت پولیس پہنچ چکی تھی جیسے یہاں سے دہشت گرد نکلنے ہوں۔ تیاری اتنی بھرپور ہو گئی کہ سپاہیوں نے ڈنڈوں کو تیل بھی لگایا اور ایس ایچ اوز نے نئی گالیاں بھی سیکھیں جو راکٹ کی رفتار سے تاجروں کو دی گئیں۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ حُکم نامے کے مطابق آٹو پارٹس کی دکانیں لاک ڈاون سے مستثنیٰ تھیں مگر چونکہ وزیر صحت کے مطابق لاہوری ان پڑھ اور جاہل ہیں لہٰذا لاہوری پولیس والوں نے بادامی باغ، بلال گنج اور منٹگمری روڈ وغیرہ پر بھی اپنا رنگ دکھایا کہ ان کے مطابق مارکیٹیں تو مارکیٹیں ہوتی ہیں چاہے وہ سپیئر پارٹس کی ہوں، میڈیسن کی یا جوتوں کپڑوں کی۔ میں لاہور کی تاجر سیاست کو بہت پرانا جانتا اور سمجھتا ہوں۔ انتخابا ت سے پہلے لاہور میں تحریک انصاف کا کوئی ٹریڈرز ونگ نہیں تھا مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں بننے کے چھ ماہ کے اندر بہت ساری مارکیٹوں کے تاجر تحریک انصاف کے بورڈ لگا کے بیٹھ گئے۔ میرے یہ تاجر دوست بہت مستقل مزاج ہیں، یہ بالکل نہیں بدلتے مگر وہ کیا کریں کہ وہ حکومتوں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں مگر حکومت میں موجود جماعت ہی بدل جاتی ہے۔
چلیں چھوڑیں، ان باتوں کا کیا فائدہ، اچھی اچھی باتیں کریں۔ تاجر چونکہ ناجائز منافع خور ہوتے ہیں لہٰذا ان کے کاروباروں کو تباہ کرنا عین درست، جائز اورملکی مفاد میں ہے۔ ان کو پھینٹی پڑے گی تویہ تیر کی طرح سیدھے ہوجائیں گے۔ اچھی بات تو یہ بھی ہے کہ بہت برس پہلے جب گاڑی تبدیل کرنی تھی اوراس کے لئے سونا بیچا تھا تو سنا ر نے مجھے صرف چودہ، پندرہ ہزار روپے تولہ کے حساب سے پانچ، چھ تولے سوناستر، اسی ہزار روپوں میں ہتھیا لیا تھا، سابق دور میں تین، ساڑھے تین لاکھ ملتے تھے اور ا ب خان صاحب کی حکومت آئی ہے تو وہی سنار مجھے آج کے ریٹ کے مطابق پانچ، چھ تولے کے ساڑھے سات لاکھ روپے سے نو لاکھ روپے دے گا اور اگر حکومت قائم رہی جس کی بھرپور امید ہے تو اللہ کے فضل و کرم سے یہ ریٹ اس سے بھی ڈبل ہو سکتا ہے۔ پہلے جب میں ایک ڈالر لے کر جاتا تھا تو اسحاق ڈارکی کرپشن کی وجہ سے صرف سو روپے ملتے تھے اور اب چونکہ ایک ایماندار حکومت ہے لہٰذامنی چینجرمجھے تھوڑے ہی دنوں تک پونے دو سو روپے بھی دے گا۔ پہلے جب میں بطور کسان دیسی گھی بیچتا تھا تو کلو کے سات، آٹھ سو روپے ہی ملتے تھے ماشاءاللہ اب ڈیڑھ ہزار سے کم پر بات نہیں ہوتی، اب عام آدمی کو اور کیا چاہئے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم چیزوں کو ان کے درست تناظر میں نہیں دیکھتے۔ درست تناظر یہ ہے کہ کرونا ختم ہونا چاہئے جبکہ تاجر وں بارے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تاجر نہ بھی رہے تو کیا ہو ا، ایک ایک تاجر کے چار، چار اور چھ، چھ بچے ہیں اور ان سب نے کون سا ڈی ایم جی گروپ جوائن کر لینا ہے، انہوں نے بھی دکانیں ہی کھولنی ہیں۔