دیکھیں ! اگر آپ کرونا سے نہیں ڈ ر رہے، آپ کے چہرے پر ماسک اور ہاتھ میں سینی ٹائزر کی بوتل نہیں ہے، آپ سماجی فاصلہ برقرار نہیں رکھ رہے تو فوری طور پر آپ کو جاہل اور غریب ڈیکلئیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عین وہی علامات ہیں جو ایک وقت میں پی ٹی آئی کو پسند نہ کرنے والوں میں ہوا کرتی تھیں یعنی پی ٹی آئی کی بجائے نون لیگ اور پی پی پہ کے تمام کے تمام سپورٹر جاہل اور غریب قرار پاتے تھے اور اب بھی یہی ہوا ہے کہ لاک ڈاون نرم ہوتے ہی بازاروں پل پڑنے والوں کی ویڈیوز پر سوشل میڈیا کے ممی ڈیڈی بڑی نخوت کے ساتھ لکھ رہے ہیں، "او مائی گاڈ، سٹوپڈ پیپل"۔
میرا یہ خیال پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے کرونا کے ایس او پیز پر عملدرآمد کروانا ہے تو پھر ڈیکلئیر کرنا ہوگا کہ جو ان پر عمل کر رہا ہے وہی ایجوکیٹڈ ہے، وہی مینرڈ ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگاکہ پڑھے لکھے امیر لوگ کتنے محتاط ہیں کہ ایک بندہ گاڑی میں اکیلا جا رہا ہو گا جس کے شیشے بھی بند ہو ں گے مگر اس کا منہ ٹونٹی لگے ہوئے این نائینٹی فائیو یا کم از کم کسی عام سے سبز رنگ کے ڈسٹ ماسک سے لازمی ڈھکا ہو گا۔ اب سوال یہ نہیں کہ اسے وہاں گاڑی میں اکیلے بیٹھے ہوئے کس سے کرونا وائرس کا خطرہ ہے بلکہ اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر اس نے ماسک اتار دیا اور سین ٹائزر ڈیش بورڈ پر نہ رکھا تو لوگ اسے جاہل اور غریب سمجھیں گے، وہ یہ سمجھیں گے کہ یہ گاڑی کا مالک نہیں ہے بلکہ دوٹکے کا جاہل ڈرائیور ہے۔
گلی محلوں اور بازاروں میں امڈ آنے والے غریبو ں کو دیکھیں، میں نے گلبرگ انڈسٹریل ایریاکی گورومانگٹ روڈ پر معروف شادی ہال کے باہر اللہ واسطے تقسیم ہونے والی افطاری کے مناظر دیکھے۔ بلاشبہ وہاں سینکڑوں مرد اور خواتین تھے جو اپنی اپنی قطار میں ایک دوسرے کے اوپر لدے ہوئے تھے، مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں افطاری کے کھانے والا شاپر پہلے مل جائے۔ انہیں کرونے سے زیادہ بھو ک کی فکر تھی جو اس بھرے ہوئے شاپر سے مٹائی جا سکتی تھی۔ میں نے گاڑی روکی اور ان کے چہروں کو غور سے دیکھا تو میرا یقین پختہ ہو گیا کہ چہرے سے ہی غریب اور جاہل لگنے والے لوگ کرونا کے ایس او پیز پر عملدرآمد کر ہی نہیں رہے لہٰذا میرے اس مشاہدے سے ثابت ہوا کہ کروناایس او پیز پر صرف امیر اور پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ہیں۔ میرا یہ تجربہ بالکل اس پروفیسر جیسا تھا جس نے ایک بڑی مکھی کو پکڑا، اسے میز پر رکھا اور بولا چل اُڑ جا۔ مکھی یہ ا لفاظ سنتے ہی یہ جا وہ جا ہو گئی۔ میرے جیسے سائنسدان نے دوسر ی مکھی کو پکڑا اور اس کے دونوں پرنوچ دئیے اور میز رکھ کر چیخا، چل اڑ جا مگر وہ نہیں اُڑی۔ وہ تین، چار بار چیخا اور دسویں بار زور زور سے چل اڑجا کہنے کے باوجود مکھی نہ اڑنے پر اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ مکھی کے دونوں پر توڑ دینے سے اس کی حس سماعت ختم ہوجاتی ہے لہٰذایہ ثابت ہوگیا کہ جس طرح پروں والی مکھی ہی اڑ جا کے الفاظ سن کر اڑ تی ہے اسی طرح کرونا ایس او پیز پر صرف پڑھے لکھے او رامیر لوگ ہی عمل کرتے ہیں۔
آپ میری بات نہیں سمجھ رہے بلکہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں ملک کے حقیقی ایشوز پر نہیں لکھ سکتا تو اس لئے بونگیاں ما رہا ہوں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے ملک کے اصل ایشوز پر بولنے کا پورا اختیار ہے اور میں حکومت کے خلاف بھی بات کر سکتا ہوں مگر بالکل اسی طرح جیسے پرانے زمانے میں کسی امریکی اور روسی کا آپس میں مکالمہ ہو گیا۔ امریکی نے نخوت سے روسی کو دیکھا اوربولا تمہیں حکومت کے خلاف بولنے کی آزادی ہی نہیں، مجھے دیکھو میں امریکا کی حکومت کے خلاف جتنا چاہے بول سکتا ہوں۔ روسی نے میری طرح معصومیت سے امریکی کو دیکھا اور کہا، یہ کون سی بڑی بات ہے میں بھی امریکی حکومت کے خلاف جب، جہاں اور جتنا چاہوں بول سکتا ہوں تو میرے پیارے قارئین آپ بھی بہت ساری باتیں بھوٹان کی حکومت سے جوڑ کے کرتے ہیں اور میرا کالم بھی پاکستان میں ہی شائع ہوتا ہے۔
اچھا، واپس ٹاپک پر آتے ہیں اور میں کچھ اعداد و شمار سے ثابت کر سکتا ہوں کہ کرونا واقعی سٹیٹس سمبل ہے یا کم از کم ڈینگی وغیرہ کے مقابلے میں تو واقعی امیرلوگوں کی مہنگی بیماری ہے۔ وہ یوں کہ ڈینگی کا ٹیسٹ تو اسی روپوں میں ہوجاتا تھا مگرکرونا کا پرائیویٹ لیب سے ٹیسٹ کم وبیش سو گنا زیادہ روپو ں میں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری وزیر صحت نے کہا ہے کہ صرف یہ جاننے کے لئے کہ بندے کو کرونا ہے یانہیں، کرونا کا ٹیسٹ نہیں کیا جاسکتا۔ میں اس بیان پر آج تک سر دُھن رہا ہوں جس میں صاف لگ رہا ہے کہ اصل میں کرونا اہم نہیں بلکہ بندہ اہم ہے۔ کرونا کے اسٹیٹس سمبل ہونے کا فرق یہاں بھی دیکھئے کہ اگر کس عام بندے کو کرونا ہو جائے تو اسے فیلڈ ہسپتال منتقل کر دیا جائے گا جہاں اس کی مصروفیت رونا دھونا اور ویڈیوزبنابنا کے ریلیز کرنا ہی ہوگی لیکن اگر کسی امیر بندے کو کرونا ہوجائے تو اسے رولز بنے ہوں یا نہ بنے ہوں سندھ کے وزیر تعلیم کی طرح ہو م آئسو لیشن کی سہولت بھی دی جا سکتی ہے اور وہ کسی ہوٹل میں بھی شفٹ ہوسکتا ہے۔ ابھی تک بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو موٹی آسامی سمجھا جا رہا ہے لہٰذا انہیں آئسولیشن کے لئے تھری اور فور سٹار ہوٹلوں میں رکھ کر روزانہ کے پانچ سے پچیس ہزار روپے تک لئے جا رہے ہیں۔
بات کرونا کے ایس او پیز کی ہو رہی ہے تو پھر جان لیجئے کہ اگر آپ کے فریزر پھلوں، سبزیوں اور گوشت سے بھرے پڑے ہیں اور آپ حرج محسوس نہیں کرتے کہ انٹرنیشنل برینڈز کے قابل اعتماد کپڑے آن لائن منگوا سکیں تو آپ ایس او پیز پر عمل کر سکتے ہیں لیکن اگر اگر آپ کو یہی علم نہیں کہ کل کا راشن کہاں سے آئے گا اور آپ اس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں تو پھر آپ یقینی طور پر کرونا ایس او پیز پر عملدرامد نہ کرنے کے مجرم ہوسکتے ہیں اور آپ کو کسی بھی ناکے پر کان پکڑائے جا سکتے اور جیب میں پڑے ہوئے پچاس، سو روپے بھی نکلوائے جا سکتے ہیں کہ کہیں وہ نوٹ کرونا وائرس سے انفیکٹڈ ہی نہ ہوں۔ غریب کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس نے قیمتوں پر بحث کرنا ہوتی ہے لہٰذا جب وہ پانچ روپے بچانے کے لئے پچاس مرتبہ منہ کھولتا ہے تو کرونا کے اندر اور باہر جانے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری طرف لاک ڈاون نرم ہونے کے بعد یہ سائنسی حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ بازاروں میں کرونا نہیں پھیلتا مگر وہ سکولوں اور مسجدوں میں بہت تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ یہ امر بھی طے شدہ سائنسی اورکیمیائی حقیقت ہے کہ گھروں میں بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونے سے کرونا مر جاتا ہے مگر مسجدوں کی ٹونٹیوں اور صابنوں میں کرونے کو مارنے کی یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔
یہ کرونا اتناسیانا ہے کہ اس نے بہت سارے غریبوں کو مزید غریب مگر دوسری طرف بہت سارے امیروں کو اور زیادہ امیر کر دیا ہے جیسے فارما سیوٹیکل انڈسٹری۔ آنکھیں کھو ل کے اپنے ارد گرد دیکھئے کہ کرونا نے ہمارے درمیان تقسیم بہت واضح کر دی ہے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے سرکار سے مہینے بعد ہمارے ٹیکسوں سے لگی بندھی تنخواہ وصول کر لینی ہے بلکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ اس بجٹ میں تمام تر نیگیٹو گروتھ ریٹ اور بجٹ خساروں کے باوجود تنخواہوں میں اضافے کے کمیشن بنوا رہے ہیں وہ سب عقل مند ہیں، طاقت ور ہیں، دولت مند ہیں تو وہ سب کے سب دفاتر کو بند رکھنے اور سخت لاک ڈاون کے حامی ہیں مگر وہ غریب، جن کی محنت اور خون پسینے کی کمائی سے یہ خزانہ بھرنا ہے اور ملک نے چلنا ہے وہ سب کے سب امریکا سے لے کر پاکستان تک لاک ڈاون کے خلاف ہوچکے ہیں اور کرونا کو ایک سازش اور فراڈ قرار دے رہے ہیں۔ میری تحقیق بتاتی بلکہ ثابت کرتی ہے کرونا کی ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے، لاک ڈاون کی مخالفت کرنے والے سب کے سب غریب ہیں، جاہل ہیں، سٹوپڈ ہیں۔ عمل کرنے اور نہ کرنے والے دونوں گروہ اگرچہ ایک ہی ریاست، ایک ہی شہر میں ہو سکتے ہیں مگر یہ دونوں الگ الگ جزیروں کے باسی ہیں جہاں ایک دوسرے کے خیالات اور مسائل کا داخلہ سختی سے منع ہے۔