سوشل میڈیا جوں جوں زندگی کا ناگزیر حصہ بنتا چلا جا رہا ہے توں توں ہمارے عوام میں دانشور بننے کا جنون بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ عمومی طور پر دانشور اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو سب سے انوکھی اور سب سے وکھری بات کرے۔ حاضرو موجود سے بے زار کرے۔ ایسے ایسے خواب دکھائے کہ کوئی چرس پی کے کیا دیکھتا ہوگا۔ پھر اس کی باتوں پر ڈھیر ساری واہ واہ ہو۔
اگر آپ بھی دانشور بننا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا انداز گفتگو لونڈوں، لپاڈوں بلکہ تھڑے بازوں جیسا ہو، آپ گالی شالی دینے میں کوئی عار، کوئی شرم محسوس نہ کرتے ہوں اوراگر آپ کا جعلی اکاؤنٹ کسی خاتون کے نام سے ہے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ مرد آپ کے اکاؤنٹ پر یوں ٹوٹ کے آئیں گے کہ چھتے پر پتھر مارنے کے بعد شہد کی مکھیاں آتی ہیں۔ آپ کے انداز گفتگو کو انقلابی کہا جائے گا اور جرأت اظہار کی ٹکا کے تعریفیں ہوں گی مگر اسے دانشوری نہیں دانِش۔ وَڑی ہی کہا جا سکتا ہے۔
دانِش۔ وَڑبننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں آپ سرسید احمد خان سے قائداعظم اور علامہ اقبال تک سب کے افکار کی نفی کریں۔ سیاسی مسائل اور سماجی خرابیوں کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی ہی مخالفت کریں۔ ہمارے سوشل میڈیا ئی دانِش۔ وَڑوں کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد سے الگ دکھائی دینے کے لئے اپنے ارد گرد ہر بات کو غلط قرار دیتے ہیں۔ مان لیجئے، لکھی ہوئی تاریخ کا کوئی بھی مجموعہ سو فیصد حقائق پر مبنی نہیں ہوتا، ہاں، یہ حقائق ضرور ہوتے ہیں مگر صرف ان کے حق میں ہوتے ہیں جو یہ تاریخ لکھ رہے ہوتے ہیں۔
تاریخ کے واقعات کبھی مشترکہ نتائج کے ساتھ نہیں ہوتے۔ ہسٹری ہمیشہ ہمارے اور ہمارے دشمن کے مؤقف پر مشتمل ہوتی ہے جیسے برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر کشمیر کی تقسیم کی تاریخ۔ واہگہ سے ادھر ہماری طرف اور اٹاری سے پرے دوسری طرف ایک ہی واقعے کی الگ الگ ہسٹری رائٹنگ، ہے۔ آپ پاکستان میں دانِش۔ وَڑبن کے بہت سارے کم علموں اور کم ظرفوں سے واہ واہ کروانا چاہتے ہیں تو اپنی بجائے ہندوستان کی لکھی ہوئی تاریخ کو بیان کرنا شروع کر دیں جو کئی لوگ کرتے ہیں اور صرف مسئلہ کشمیر ہی کیوں، 65ء کی جنگ دیکھ لیں اور پھرا س کے بعد سقوط ڈھاکہ۔
پاکستان میں ایک منفرد اور مقبول دانِش۔ وَڑنظر آنے کے لئے ضروری ہے کہ آپمطالعہ پاکستان، کی نفی کریں، بتائیں کہ ہم نے پینسٹھ کی جنگ نہیں جیتی تھی، یہاں بھارت اورمشرقی، مغربی پاکستان کی سیاسی لڑائی میں آپ بنگالیوں کی زبان بولیں۔ اپنے آپ کو گالیاں دیں اور بنگالیوں کو کامیاب قرار دیں، آپ دانِش۔ وَڑی کا کوالیفائنگ راونڈ طے کر جائیں گے۔
دانِش۔ وَڑبننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہر غلطی، ہر کمی اور ہر کوتاہی کی ذمہ داری اپنی فوج پر عائد کر دیں۔ ا س سے انقلابی اور جمہوری کہلائیں گے۔ چاہے آپ وہی ہیں جو دس، بارہ برس کہتے رہے کہ پاک فوج کی حمایت کرنے کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ازحد ضروری ہے۔ اب چونکہ آپ کا پسندیدہ لیڈر فوج سے لڑ پڑا ہے توآپ کی دانِش۔ وَڑی یہی ہے کہ اس سے کچھ زیادہ بک بک کریں۔ اس کے لئے اگر آپ پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں تو آپ شاہین صہبائیوں، عادل راجوں اور اظہر صدیقوں کو بھی آئیڈیل بنا سکتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ عادل راجے تو بھارت کی ایجنسی را کے ساتھ تعلقات اور پی ٹی آئی دور میں لمبا مال بنانے کے بعد اڑنچھو ہو چکے، کیا آپ میں یہ دم خم موجود ہے ورنہ آپ کے ساتھ بھی ہوائی جہاز، طوطے اور ائیرہوسٹس والا لطیفہ ہوسکتا ہے کہ طوطے نے ائیرہوسٹس کو دیکھ کے سیٹی بجائی، ایک گندا سا اشارہ بھی کیا اور آپ جیسے کسی دانِش۔ وَڑنے بھی۔
پائلٹ نے ان کی حرکتیں دیکھیں تو فیصلہ کیا کہ ان دونوں کو اڑتے ہوئے جہاز سے نیچے پھینک دیا جائے۔ جب طوطے اور دانِش۔ وَڑکو ایمرجنسی گیٹ کھول کے بغیر پیراشوٹ کے نیچے پھینکا جا رہا تھا تو طوطے نے پوچھا، اوئے تمہیں اڑنا آتا ہے۔ برائلر دانِش۔ وَڑنے جواب دیا، نہیں، طوطا زور سے ہنسا اور بولا، تے فیر پنگا کیوں لیا سی؟
دانِش۔ وَڑبننے کی ایک اور راہ یہ ہے کہ آپ اپنے مذہب اور اپنی روایات کے خلاف ڈٹ کے بکواس کریں جیسے عورتوں کے حقوق۔ جیسے یہ کہنا کہ عورت کو وراثت میں حصہ آدھا کیوں اور عورت کی عدالت میں گواہی بھی آدھی کیوں۔ یہ بھی مت سوچیں کہ ہر نظام میں حقوق فرائض کے بدلے میں ہوتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ فرائض دوسروں کے مقابلے میں زیرو ہوں اور مگر آدھی تنخواہ مل رہی ہو۔
یہ دنیا کے کس نظام میں ہوتا ہے سوائے اسلام کے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ عورت کے تمام اخراجات مرد کے ذمے ہیں چاہے وہ باپ کی صورت ہو یا شوہراور بیٹے کی صورت لیکن اس کے ساتھ ہی وہ وراثت میں آدھا حصہ دے دیتا ہے۔ اب اس پر سوچیں کہ زیادتی کس کے ساتھ ہو رہی ہے عورت کے ساتھ یا مرد کے ساتھ۔ اسی طرح عدالت میں گواہی کوئی اعزاز نہیں، مراعات کا حصہ نہیں بلکہ ایک ذمے داری ہے اورخاصی ناگوار ذمے داری ہے جودشمنیاں تک پیدا کرتی ہے۔ ا گر اس ناگوار ذمے داری کا بوجھ عورت سے کم کر دیا گیا ہے تویہ اچھا ہے یا برا ہے، ذرا سوچئے۔
دانِش۔ وَڑ کا درجہ آپ اپنی روایات کے خلاف بول کے بھی حاصل کر سکتے ہیں جیسے ایک روایت ہے کہ مرنے والے گھر میں جنازے کے بعد کھانے کا اہتمام ہوتا ہے جسے پنجاب میں کوڑا وٹہ کہتے ہیں۔ بولیں، بولیں، یہ دانِش۔ وَڑی کے لئے اچھا موضوع ہے۔ بار بار کہیں کہ کیا مرنے والے گھر کھانا کھانے جاتے ہیں، اس پر واہ واہ کروائیں مگر عملی صورت یہ ہے کہ میت والے گھر میں کھانے کا اہتمام کچھ مخصوص رشتے دار ہی کرتے ہیں، سوچیں، میت کے ساتھ بارہ سے بیس گھنٹے گزارنے کے بعد بھی گھر میں کھانا نہیں ہوگا تو کیا سب عورتیں اور بچے جنازہ اٹھنے کے بعد ہوٹلوں کی طرف دوڑیں گے۔
ان کا کیا ہوگا جو دوسرے شہروں سے آئے ہوں گے اور اسی طرح جہیز اوربری ہے جو نوجوان دولہا دلہن کے لئے والدین کی طرف سے ایک تحفہ ہوتا ہے جو نیا گھر (یا کمرہ ہی سہی) بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس میں بری بات صرف یہ ہے کہ اس کے مطالبات ہوں، شو آف ہو، حیثیت اور اوقات سے زیادہ لیا اور دیا جائے۔ سو آپ سوشل میڈیائی دانِش۔ وَڑبننا چاہتے ہیں توتفکر، تدبر، توازن اورمنطق کو گولی ماریں، ایک زہریلے دانِش۔ وَڑ سب کو گالیاں دیں اس سے آپ بھی سپر ہٹ ہوسکیں گے۔ دوسروں کامنہ لال دیکھ کے اپنے منہ پر چپیڑیں اوراس بات کو بھول جائیں کہ وطن کی عزت ہو یا والدین کی، یہ صرف خاندانی لوگ ہی کرتے ہیں، اوچھے، لوفر اور لفنگے نہیں۔