ہارنے والی تمام جماعتیں بہت چالاکی کے ساتھ دھاندلی کے بیانئے کو آگے بڑھاتی جا رہی ہیں۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس میں جماعت اسلامی بھی پیش پیش ہے جس نے کوئی سیٹ نہیں جیتی مگر پی ٹی آئی کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔ بی ٹیم بھی شائد چھوٹا لفظ ہو۔ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔
غور کیجئے، حافظ نعیم اچھے خاصے سمجھدار آدمی ہیں۔ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیہ عظمیٰ میں لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں۔ وہ سندھ اسمبلی کی ایک سیٹ جیت جاتے ہیں یعنی کراچی کے چالیس ایم پی ایز میں سے ایک۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں بلدیہ عظمیٰ میں قائد حزب اختلاف کے طور پر سیاست پورے کراچی میں زندہ رکھے گی لہٰذا وہ ایم پی اے کی سیٹ چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے بیانئے کو تقویت پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی بجائے پی ٹی آئی کا بندہ جیتا تھا لہٰذا وہ یہ سیٹ نہیں رکھ سکتے۔
مجھے افسوس تو اس بات کا ہے کہ منور حسن کے بعد سراج الحق نے بھی پی ٹی آئی کی اتنی خدمت کی اور عمران خان نے اتنا بھی خیال نہیں کیا کہ وہ اپنی سیٹیں مجلس وحدت المسلمین یا سنی اتحاد کونسل کی بجائے جماعت اسلامی کو بطور معاوضہ ہی پیش کردیتے۔ پتا نہیں جماعت اسلامی کو نواز لیگ سے وفا ملی نہ عمران خان اور نہ ہی فوج سے، عوام بھی مسلسل مسترد کر رہے ہیں، اسے سچا پیا ر کب ملے گا؟
میں دیکھ رہا تھا کہ سینیٹ میں دھڑا دھڑ دھاندلی کے بیانئے کے حق میں تقاریر ہو رہی تھیں اور اگر اس موقعے پر عرفان صدیقی کا بھی جواب اسی طرح نہ آتا جس طرح ان کے لیڈر کا جواب نہیں آ رہا تو پھر علامہ اقبال کے پوتے سمیت بہت ساروں نے بہت سارے ذہنوں کو گمراہ کر لینا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
میں دیکھ رہا تھا کہ عمران خان خود جیل میں ہیں مگر ان کے ٹوئیٹر، فیس بک اور واٹس ایپ اکاونٹس مسلسل ایکٹو ہیں، وہاں سے گائیڈ لائنز جاری ہورہی ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا بلاول بھٹو زرداری قو می اسمبلی کی تیسری بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنے ووٹروں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے جلسے کر رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ پیر پگارا جو ہمیشہ ہائبرنیشن میں رہتے ہیں وہ بھی باہر نکل آئے ہیں۔
میں دیکھ رہا تھا کہ کوئی سیٹ نہ جیتنے کے باوجود سراج الحق آرام سے نہیں بیٹھ رہے لیکن اگر میں کسی کو نہیں دیکھ پا رہا تو وہ سب سے زیادہ تجربہ کار رہنما ہیں جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کی سنگل لارجسٹ پارٹی کے قائد ہیں۔ ایک اہم شخص کے ساتھ دو، تین روز پہلے لنچ کرتے ہوئے سیاسی صورتحال پر بحث ہور ہی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، کیا یہ مسلم لیگ نون کا جیتا ہوا آخری الیکشن ہے؟ نواز شریف کا آخری پیغام مریم اورنگزیب کے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے ملا تھا جس میں انہوں نے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے نعرے سے دستبردار ہوتے ہوئے شہباز شریف کو وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے یہ بڑے فیصلے کیوں کئے، اس پر انہوں نے اپنے کارکنوں، حامیوں اور ووٹروں تک کو اعتمادمیں لینے کی زحمت نہیں کی۔ وہ برفباری انجوائے کرنے کے لئے مری چلے گئے۔
یہ بات نہیں کہ دلائل اور جواب موجود نہیں مگر ان کو دینے والے موجود نہیں ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ عرفان صدیقی صاحب کی تقریر زبردست تھی مگر یہی نکات اگر نواز شریف بیان کر دیتے تو وہ حوالہ بن جاتے۔ دھاندلی کا بیانیہ جتنے منظم انداز سے پھیلایا جا رہا ہے وہ تشویش ناک ہے، امریکا سے لے کر ہمارے تھڑوں تک۔ فارم پینتالیس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے جیسے کبھی آر اوز کا پیٹا گیا تھا مگر کوئی جواب نہیں ہے۔ کمشنر راولپنڈی نے جو کچھ کیا وہ ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے مگر سب کچھ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ نون پر لگنے والے سیاسی الزامات کا جواب بھی وہی دیں اور پھر اس کے بعد لاہور کے لکشمی چوک سے جعلی بیلٹ پیپروں کی چھپائی کا معاملہ۔
مسلم لیگ نون اپنی ایک چھوٹی سے عہدے دار سے پریس کانفرنس کروا نے کے بعد فارغ ہوگئی جبکہ یہ معاملہ قانونی کارروائی کا متقاضی ہے۔ اس کے ذریعے نواز شریف پر حملہ کیا گیا ہے اور کیا اس کا جواب بھی اسٹیبلشمنٹ نے ہی دینا ہے۔ اگر آپ فیک نیوز کے ذمے داروں کو منطقی انجام تک نہیں پہنچائیں گے، دو چار کو نہیں گھسیٹیں گے تو وہ آپ کو گھیٹتے رہیں گے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نون کی طرف سے جواب دینے والوں کی اکثریت والنٹئیرز کی ہے مگر ان میں سے بیشتر کی رسائی مسلم لیگ نون کی تیسرے درجے کی قیادت تک بھی نہیں ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر عمران خان باہر ہوتے تو روزانہ نہیں تو ہفتے میں تین دن کبھی صحافیوں، کبھی ٹویپس، کبھی یوٹیوبرز اور کبھی ٹک ٹاکرز سے مل رہے ہوتے۔
یہ دلچسپ ہے کہ میرے سامنے بڑے بڑے صحافی اور تجزیہ کار بیٹھے ہوئے تھے اور میں وہ اپنے پورے یقین کے ساتھ دعویٰ کر رہے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ یہ علم نفسیات کی رُو سے ایسی صورتحال ہے جس میں ایک بات اتنی بار دہرائی جاتی ہے کہ وہ سچ لگنے لگتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے دھاندلی ہوتے دیکھی، کیا ان کے پاس کوئی ثبوت موجود ہیں تو انہوں نے نہ کوئی دھاندلی ہوتے دیکھی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ثبوت تھے مگر وہ بضد تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہمیشہ ہی ہوتی ہے۔
فارم پینتالیس کی بات ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کے رہنما پریس کانفرنس میں انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے سوشل میڈیا کی پوسٹس اور ٹی وی چینلوں کے سکرین شاٹس پیش کر دیتے ہیں، شاواشے بھئی، وہ مانتے تھے کہ کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس ہو یا صحافیوں کے چھاپے، ان کے دعووں میں بڑے جھول موجود ہیں، وہ جھوٹ بولتے دکھائی دیتے ہیں اور پلانٹڈ سٹوریز کے ذریعے گمراہ کرتے ہوئے مگر اس کے باوجودوہ کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، نتائج تبدیل ہوئے ہیں۔ میں اسے ہی بیانئے کی کامیابی کہتا ہوں کہ آپ کے پاس منطق، دلیل، سچ اور ثبوت میں کچھ بھی نہیں ہے مگر آپ یقین سے بھرے ہوئے ہیں۔
آپ کہہ رہے ہیں کہ کتا آپ کا کان لے اڑا ہے مگر آپ کان کو ٹٹول کر دیکھنے کے لئے تیار نہیں، آپ کسی فرضی کتے کے پیچھے پتھر لے کر بھاگ رہے ہیں مگر نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ یہ جھوٹ حاوی رہے گا، انتشار پھیلاتا رہے گا کیونکہ جنہوں نے جھوٹ کا مقابلہ کرنا ہے وہ اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اسی کی دہائی کی طرح سب کچھ پلیٹ میں رکھ کے پیش کیا جا سکتا ہے مگر اب دُنیا بہت آگے جا چکی ہے۔