کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج نے تہلکہ مچا دیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ اگر کینٹ اور ڈیفنس جیسے علاقوں سے نواز لیگ کے کلین سویپ جیسے نتائج آ سکتے ہیں تو سوچیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی آبادیوں میں کیا سلوک ہو سکتا ہے۔ ان انتخابی نتائج پر طنز کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر نواز لیگ جیت جائے تو انتخابات آزادانہ اور منصفانہ اور اگر ہار جائے تو اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کر دی ہے۔ بات اگر دل پر ہاتھ رکھ کر کی جائے تو ہمیں مقتدر حلقوں کی پی ٹی آئی کے لئے محبت کے بہت سارے اشارے ملتے ہیں مگر یہ واقعی حیران کن ہے کہ جہاں عوامی نمائندوں نے براہ راست اسٹیشن کمانڈر کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے وہاں ایسے الیکشن ہوں کہ نواز لیگ، پی ٹی آئی کا صفایا کر دے تو پھر ماننا پڑتا ہے کہ انتخابات فئیر اینڈ فری ہی ہوئے ہیں۔
کنٹونمنٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے جیتنے کے سوال کے ایک سے زیادہ جواب ہیں۔ کچھ جواب نواز لیگ کے لئے ایکسٹرنل ہیں اور کچھ انٹرنل۔ ایک جواب یہ ہے کہ مہنگائی نے عام آدمی کی چیخیں نکال دی ہیں۔ سویلین آبادیوں کی بھرمار کے باوجود کینٹ اور ڈیفنس کے علاقے حاضر سروس اورریٹائرڈ فوجیوں کے اکثریتی علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے ان فوجی بھائیوں اور ان کے اہل خانہ کو گھی، چینی، آٹا، دالیں لینے کے لئے بازار ہی جانا پڑتا ہے اور جب سی ایس ڈی شاپس کے باوجود 160 والے گھی کی جگہ 360، پچپن روپے والی چینی کی جگہ 110 اور 39 روپے والے آٹے کی جگہ 72 روپے دینے پڑتے ہیں تو وہ ان کی جیب سے ہی جاتے ہیں۔ میں نے نشاط بازار میں نواز لیگ کے امیدوار قاری حنیف اور پی ٹی آئی کے امیدوار صیام چوہدری کے ساتھ کھڑے ہو کر پوچھا تو ایک بزرگ شخص چیخ اٹھے، بولے، میں جو دوا سات روپے روزانہ کی کھاتا تھا اب 47روپے روزانہ کی کھاتا ہوں، میں پی ٹی آئی کوووٹ کیوں دوں۔ مدینہ بازار چونگی امرسدھو کے دکاندار لاک ڈاؤن کی ناقص اور تاجر دشمن پالیسی پر چیخ اٹھے۔ سب کو ماننا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کے رومانس میں کمی آ رہی ہے۔ چوہدری سجاد کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ الیکشن تک وائس چیئرمین رہے ہیں، وہ بتا رہے تھے کہ ڈیفنس کے جس پولنگ اسٹیشن پر وہ پارٹی کی طرف سے انچارج تھے وہاں تین برس پہلے الیکشن میں مسلم لیگ نون کو صرف دس فیصد ووٹ ملے تھے اور اب وہاں ان کا نتیجہ پی ٹی آئی کے امیدوار سے ٹائی ہو گیا ہے یعنی ڈیفنس بھی بدل رہا ہے۔
میں نے انتخابی نتائج دیکھے تو حیران رہ گیا، والٹن کے وارڈ پانچ میں نواز لیگ کے راجا نور سبحانی، پی ٹی آئی کے جاوید ضمیر احمد سے صرف بارہ ووٹوں سے جیتے اور وارڈ چار میں فقیر حسین، محمد اسلم سے بائیس ووٹوں سے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر انتخابی نتیجہ تبدیل ہوتاتو ایسے حلقے موجود تھے جیسے ایک دوسرے شہر سے نواز لیگ کا امیدوار صرف دو ووٹوں سے جیتا۔ یہ ایک بہت بڑا پیغام ہے اور میرا سوال یہ بھی ہے کہ جب ہم مقتدر حلقوں کے غیر جانبدار ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس کے اصل فیکٹرز کیا ہیں۔ پہلا یہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اتنی نااہلی دکھائی کہ اس کے سوا کوئی دوجا راستہ ہی نہیں رہ گیا۔ دوسرا یہ کہ نواز لیگ کے مزاحمتی گروپ نے مریم نواز کی قیادت میں دباؤ اتنا بڑھا دیا کہ مجبوری میں نیوٹرل ہونا پڑا۔ تیسرا یہ کہ نواز لیگ کے اندر کشمیر کے انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ شہباز شریف کے ڈاکٹرائن کو کام کرنے کا موقع ملا اور وہ واقعی کام کر گیا۔ میرا ووٹ تیسرے آپشن کے حق میں ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ اسی سے آگے بھی راستہ نکل سکتا ہے۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ ان نتائج کے ذریعے نواز لیگ کو چارہ ڈالا گیا ہے، وہ عام انتخابات میں دوبارہ کونے میں لگا دی جائے گی مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان نتائج نے انہیں حوصلہ اور توانائی دی ہے۔ پی ٹی آئی کا جو پلس پوائنٹ رہا وہ چاروں صوبوں سے ووٹوں کا حصول ہے، پیپلزپارٹی کو پنجاب میں جبکہ نواز لیگ کو سندھ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ قومی جماعتیں ہی ملک اور قوم کو مضبوط بناتی ہیں۔
میں نے ان انتخابات کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور سمجھتا ہوں کہ نواز لیگ کی جیت کے پیچھے ایکسٹرنل سے زیادہ انٹرنل وجوہات ہیں ورنہ یہی اسٹیبلشمنٹ گلگت بلتستان، آزادکشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابات میں بھی تھی۔ اس مرتبہ نواز لیگ نے سیلفی گروپ اور ٹوئیٹری مجاہدین کے بجائے حقیقی سیاسی قیادت کے ذریعے الیکشن لڑا۔ نواز لیگ کا ایک دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ تیزتیز رنگوں کے کپڑے پہن کے اور تیز تیز تقریروں والے انتخابی جلسوں سے الیکشن جیتے جا سکتے ہیں۔ وہ ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کے دیوار کو ٹکریں مارنے کے ٹوئیٹس کرنے والوں کو ہی پارٹی کی طاقت سمجھے بیٹھے ہیں حالانکہ وہ ایسے نادان دوست ہیں جن سے بہتر دانا دشمن ہوتے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ لاہور میں سابق وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے آج سے ڈیڑھ ماہ قبل ہی بہت محنت کے ساتھ تمام وارڈوں میں امیدوار فائنل کر لئے تھے۔
اصل کامیابی یہ تھی کہ ایک وارڈ کے سوا تمام میں متفقہ امیدوار تھے حتیٰ کہ سابق وائس چیئرمین چوہدری سجاد بھی ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود پارٹی کی مہم چلا رہے تھے، صرف ایک وارڈ میں سابق کونسلر بغاوت کر رہا تھا۔ جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حتمی فہرست آئی اس وقت تک نواز لیگ کے امیدوار ڈور ٹو ڈور مہم مکمل کر چکے تھے۔ اب پی ٹی آئی خود تسلیم کر رہی ہے کہ اس کے امیدوار کمزور تھے اور متفقہ نہیں تھے۔ میں ہر بار یہی کہتا ہوں کہ اگر پارٹی امیدوار متفقہ نہیں تو یہ بھی پارٹی ہی کی کمی اور کمزوری ہے کہ انتخابی مہم صرف جلسوں اور جلوسوں کانام نہیں۔ دوسرے اس مرتبہ پارٹی کے کارکنوں نے ووٹ پر پہرہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک حلقے میں پولنگ سٹاف نے رزلٹ لے کر بھاگنے کی کوشش کی تو اسے لیگی کارکنوں نے پکڑ لیا، روک لیا۔ راولپنڈی اور سیالکوٹ میں بھی پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکنوں کے درمیان بہترین تال میل رہا۔
اب گوجرانوالہ کو ڈسکس کر لیتے ہیں جہاں سے نواز لیگ کو نقصان ہوا حالانکہ گوجرانوالہ نواز لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق وہاں پارٹی کو عوام کے بجائے اپنی لیڈر شپ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز لیگ نے وہاں ٹکٹیں تقسیم کرنے میں وہی کام کیا جو آزاد کشمیر میں کیا تھا۔ جب وہاں کے انتخابی نتائج آئے تو دو سیٹوں پر نواز لیگ کے وہ کارکن جیت گئے جنہیں وہاں کی پارٹی کی مغرور اور مالشی قیادت نے ٹکٹ ہی نہیں دئیے تھے۔ یہ بات دہرا دینا اہم ہے کہ کئی حلقوں میں فرق بہت کم تھا اور وہاں نتائج آسانی سے تبدیل ہو سکتے تھے مگر نہیں ہوئے۔ نواز لیگ کو اس پر فوج کی اعلیٰ قیادت اور الیکشن کمیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے مگر میں نے دیکھا کہ مریم نواز کے قریبی اور ترجمان سمجھے جانے والے ایک شخص نے ٹوئیٹ کی کہ انہوں نے گھر میں گھس کر مارا ہے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگرمریم نواز گروپ کے پاس ایسے دوست موجود ہیں تو پھر انہیں عمران خان سمیت کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔