کل پاک فوج کے ہیڈکوارٹرز، کور کمانڈر ہاؤسز اور شہدا کی یادگاروں پر حملوں کا ایک برس مکمل ہونے جا رہا ہے۔ اس ایک برس میں سیاست کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا۔ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت بن چکی۔ ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل کے ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوچکا۔ اگر کچھ نہیں ہوا تو سانحہ نو مئی کے ذمے داروں کو سزا ملنے کا کام نہیں ہوا۔
اس سلسلے میں صرف ایک مقدمے کا فیصلہ آیا جس میں گوجرانوالہ کینٹ پر حملے کا جرم ثابت ہونے پر شرپسندوں کے ایک گروہ کو محدود قسم کی سزائیں سنائی گئیں۔ نو مئی کے ملزمان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ سو سے کچھ زائد ملزمان کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا جبکہ باقیوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے گذشتہ روز ایک اور میچور پریس کانفرنس کی اور کہا کہ نو مئی برپا کرنے اور کرانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینی پڑے گی۔
معاملہ یہ ہے کہ آئینی اور انسانی حقوق کے نام پر اس وقت حملوں کے سکہ بند، ثابت شدہ مجرموں کوبچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتیں آئین کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ یہ کوئی فالس فلیگ آپریشن تھا جس کی منصوبہ بندی کہیں او ر ہوئی، جی ہاں، پی ٹی آئی کے رہنما اور سوشل میڈیا ایکٹیویٹس اس کی ذمے داری خود فوج پر عائد کرنے میں بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
عدلیہ کی طرف سے جس طرح نو مئی کے ملزموں کے نام نہاد حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے وہ ثابت کر رہا ہے کہ اس ملک میں صرف دہشت گردوں اور فسادیوں کے حقوق ہیں۔ ان کے کوئی حقوق نہیں جو دہشت گردی اور فساد کا نشانہ بنتے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتیں آئین کے مطابق نہیں، قومی مفاد میں نہیں توکیا فوجی تنصیبات پر حملے آئین کے مطابق اور قومی مفاد میں تھے۔ فوج پر حملے ایک غیر معمولی صورتحال تھی اور قومیں غیر معمولی صورتحال کا مقابلہ غیر معمولی اقدامات اور قوانین کے ذریعے ہی کرتی ہیں۔ امریکا سے بڑی جمہوریت کو ن سی ہے مگر وہاں نائین الیون کے بعد کیا ہوا، گوانتا ناموبے کس طرح بنی، لوگوں کو کس طرح وہاں لے جایا گیا اور عبرت کا نشان بنایا گیا۔ لندن، پیرس، واشنگٹن میں کیا ہوا؟
پی ٹی آئی کے لوگ پکا سا منہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے ہی منصوبہ بندی کی تو اسے روکا کیوں نہیں گیا یعنی انہیں درجنوں لاشوں کا تحفہ مل جاتا اور وہ اسے عالمی میڈیا اور برادری کے سامنے پیش کرکے ریاست کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو بھارت اور اسرائیل چاہتا تھا۔ میں نے کہا کہ میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس میچور تھی تو اسی میچور ردعمل کا تسلسل ہے۔ اس صبروتحمل اور آئین پسندی کو ایک برس ہوگیا ورنہ فوجیں حملوں کا جواب اس طرح نہیں دیا کرتیں کہ عدالتوں کی طرف دیکھتی رہیں۔
فوجوں کے ردعمل کی تربیت کسی اور طرح کی ہوتی ہے۔ کیا چھُپا ہے کہ عادل راجہ، شاہین صہبائی اور حیدر مہدی جیسے نو مئی کو سوشل میڈیا پر بیٹھے آرمی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دفاتر کی نشاندہی کر رہے تھے اوریہ کوئی مہا کلاکار ہی دعویٰ کر سکتا ہے کہ کہ یاسمین راشد سے صنم جاوید تک اور محمود الرشید سے اسلم اقبال تک وہاں نواز لیگ یا خود فوج کے کہنے پر پہنچے تھے۔
اگر اب بھی فوج میں پی ٹی آئی کی ایسی کوئی حمایت موجود ہے جس کے تحت خیبرپختونخوا میں حملہ کرنے والے گنڈا پور کو وزیراعلیٰ بننے کا راستہ بھی مل جاتا ہے اور اسے کور کمانڈر ہاوس میں افطار پر بھی بلا لیا جاتا ہے تو یہ بطور ادارہ فوج کے لئے سوچنے کی بات ہے۔ بہت زیادہ میچوریٹی، میچوریٹی نہیں رہتی بلکہ کچھ اور بن جاتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا، "بناو کمیشن"، میں کہتا ہوں عدالتی یا غیر عدالتی کمیشن بنانے سے کیا ہوگا؟ آج تک کس کمیشن نے سچ بیان کیا، صرف وقت ہی ضائع کیا۔ بک بک جھک جھک سے نہیں، دلیل دانش سے نہیں، فتنے طاقت سے کچلے جاتے ہیں۔
نو مئی پاک فوج سمیت ا س ملک سے محبت کرنے والے ہر شہری کے لئے تکلیف اور دُکھ کا دن ہے۔ بھارت جیسے دشمنوں نے اس پرباقاعدہ جشن منایا۔ پی ٹی آئی کے مؤقف میں بہت زیادہ فکری اور عملی تضادات موجود ہیں۔ اس کے جاری کئے ہوئے خط میں نو مئی کے شہدا کے لئے دعاوں کی ہدایت بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون سے شہدا ہیں اور کہاں شہید ہوئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ عمومی رائے یہی ہے کہ اگر نو مئی کرنے اور کرانے والوں کو سزا مل جاتی تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔
میں اس پر بہت ہی بنیادی اور عام فہم سوال کرتا ہوں کہ جب سعید الزمان صدیقی صاحب نے جوڈیشل مارشل لا لگانااور لوٹوں کے خلاف آئینی ترمیم کو معطل کرنا چاہا تھاتوکچھ لیگی کارکنوں وہاں نعرے بازی کی تھی۔ اس پر سپریم کورٹ نے طارق عزیز، اختر رسول اور میاں منیر سمیت دیگر لیگیوں کو سزائیں بھی سنا دی تھیں۔ اب بھی جسٹس بابر ستار سے کچھ سوا ل کئے گئے ہیں تو وہ اسے پرسنل انفارمیشن کی لیکج قرار دے کر توہین عدالت کی کارروائی شروع کروا رہے ہیں تو کیانو مئی والا معاملہ ایک عدالت میں لگنے والے نعروں اور ایک جج سے ہونے والے سوالوں جتنا بھی اہم اورسنگین نہیں ہے؟
ایک برس گزرنے کے بعد میرا سپریم او رہائیکورٹس میں بیٹھے ہوئے معزز چیف جسٹسوں اور محترم جسٹسوں سے سوال ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے بدمست جتھے نے اگر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس پر ایسے ہی حملے کئے ہوتے، جس طرح لاہور کا کورکمانڈر ہاؤس جلا کے راکھ کر دیا گیا اسی لاہور ہائیکورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا کے آگ لگا دی جاتی، جس طرح شہدا کی یادگاروں کو توڑا گیا اسی طرح عدلیہ کے ترازو والے بت توڑے جاتے تو کیا اس جماعت کے سربراہ کا استقبال بھی وہ گڈ ٹو سی یو کہہ کے کر رہے ہوتے، کیا ان کی سزاؤں پر بھی حکم امتناعی ہوتے، ہرگز نہیں۔ کیا پاکستان کی فوج پاکستان کا ادارہ نہیں ہے اور اگر کسی گروہ کو فوج سے کچھ شکایات ہیں تو اس سے کہیں زیادہ شکایات عوام کو عدلیہ سے ہیں۔
میرا سوال ہے کہ جوڈیشری کا پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں سے کرش، کب ختم ہوگا۔ مجھے اپنی عدلیہ سے شکایت ہے کہ وہ جمہوری ادوار میں آمروں کے سامنے بھیڑ بن جاتی ہے، مارشل لاوں کو تحفظ دیتی اور آمروں کو آئین میں ترمیم کا حق دے دیتی ہے اور جب جمہوری دور آتا ہے تو اپنی پسندنا پسند کے ساتھ شیر بن جاتی ہے، ا س کے منہ کو خون لگ جاتا ہے، وہ وزرائے اعظم تک کھا جاتی ہے۔ یہ کردارشاندار تو کیا مناسب بھی نہیں ہے۔