یہ طے شدہ ہے کہ ہر پاکستانی ٹیکس دیتا ہے، پیدائش سے موت تک، ماچس کی ڈبیا سے گاڑی کی خریداری تک تو پھر یہ فائلر اور نان فائلر کا شورکیا ہے۔ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر نان فائلر ٹیکس چور نہیں ہے مگر ہر ٹیکس چور نان فائلر ضرور ہوسکتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کا جھگڑا ہے مگر اس پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ٹیکس کیوں ضروری ہیں۔
بہت سارے لوگ زکوٰۃ کو ٹیکس کے ساتھ کنفیوژ کرتے ہیں۔ جذباتی قسم کی پوسٹیں کرتے ہیں کہ زکوٰۃ صرف صاحب حیثیت پر فرض ہے جبکہ ٹیکس اس نے بھی دینا ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی مغالطے کی ایک شکل ہے۔ زکوٰۃ سے آپ ریاست نہیں چلا سکتے۔ زکوٰۃ کے قرآن پاک میں مصارف طے شدہ ہیں۔ زکوٰۃ سے آپ تعلیمی ادارے، ہسپتال، ٹیوب ویل اور سڑکیں نہیں بنا سکتے۔
زکوٰۃ سے آپ ڈاکٹروں اور ٹریفک وارڈنوں سمیت تمام سرکاری اہلکاروں کو تنخواہیں نہیں دے سکتے۔ زکوٰۃ میں مستحق بندے کو اس رقم کامالک بنا دیا جاتا ہے جو آپ ایک برس تک اپنی اضافی ملکیت کے اڑھائی فیصد کے طور پر نکالتے ہیں تاکہ آپ کامال رب العزت کے حساب کتاب میں پاک صاف ہوجائے مگر جدید ریاست کو صرف ٹیکس کی مدد سے ہی چلایا جا سکتا ہے اور اگر ٹیکس نہیں ہوگا تو پھر حکومت کو قرضے لینے پڑیں گے لیکن جب آپ نے ان قرضوں اور ان پر سود کو واپس کرنا ہے تو اس کے لئے بھی آپ کو ٹیکس کی ضرورت ہوگی ورنہ قرض اسی طرح بڑھتے چلے جائیں گے جس طرح پاکستان کے بڑھے۔
اس تحریر پر آگے جانے سے پہلے اسے دماغ میں بٹھا لیجئے کہ حکمران پرویز مشرف ہو، آصف زرداری ہو، نواز شریف ہو یا عمران خان کے بعد اب شہباز شریف، کسی نے بھی ملک اپنی جیب سے نہیں چلانا۔ کسی نے بجلی یا پٹرول پر سب سڈی اپنے اکاؤنٹ سے نہیں دینی۔ یہ آپ ہی کے ٹیکس کے پیسے ہوں گے جو ہاتھ گھما کے دئیے جا رہے ہوں گے اور حکمران واہ واہ کروا رہے ہوں گے۔
ہم نے پچاس، ساٹھ برسوں میں بہت قرض لیا ہے اور عمران خان کی حکومت کا یہ ڈس کریڈٹ ہے کہ اس نے ساڑھے تین برسوں میں ستر برسوں کے قرضوں کا تین چوتھائی سے بھی زیادہ قرض لے لیا۔ ستم ظریفی یہ کی کہ جن سے قرض لیا ان سے معاہدہ بھی توڑ لیا اور پھر حالات یہاں تک جا پہنچے کہ ہم دیوالیہ ہونے والے تھے۔ دیوالیہ ہوجاتے تونہ کوئی آمدن ہوتی اور نہ کوئی بجٹ۔ یہ اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس نے ڈیفالٹ سے بچا لیا۔
دوبارہ ٹیکس پر آتے ہیں اور حکومت کے اصرار پر کہ ہر بندہ فائلر ہو۔ سوال کیاجاتا ہے جب ہر بندہ ٹیکس دے رہا ہے تو اسے فائلر ہونے کی کیا ضرورت ہے تو ہم اس فقرے کی طرف واپس لوٹ جاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کا جھگڑا ہے۔ ریاست نے قرضوں پر چلنا ہے یا ٹیکس پر۔ اگر آپ ڈائریکٹ ٹیکس نہیں دیں گے تو ریاست ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے گی جیسے اس وقت بجلی کے بلوں پر ہیں اور بلوں کی ایک تہائی سے بھی زیادہ پر پہنچے ہوئے ہیں یا پٹرولیم لیوی ہے جو ساٹھ روپے سے بڑھ کے ستر روپے لیٹر ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ڈائریکٹ ٹیکس کا مطلب ہے کہ آپ جو بھی کمائیں اس کی ایک شرح ریاست چلانے کے لئے ادا کر یں۔ اس میں سب سے پہلے اور سب سے آسانی کے ساتھ کارپوریٹ کلچر والے کاروبار پھنستے ہیں یا تنخواہ دار طبقات۔ ان کی تنخواہ اداکرنے کے ساتھ ہی مالکان سے کہا جاتا ہے کہ ان کا ٹیکس کاٹ لیا جائے اور ریاست کو دے دیا جائے مگر دوسرے تمام طبقات جو پروفیشنل بھی ہیں اور کاروباری بھی، ان سب سے کہاجاتا ہے کہ آپ نے جو کمایا ہے اس کی رسید جمع کروا دیں اوراس کمائی پر ٹیکس دے دیں۔ اب اگر چوبیس کروڑ کی آبادی میں پچاس لاکھ بھی فائلر نہ ہوں تواس کا مطلب کیا ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ کما ہی نہیں رہے، نہیں نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے کما تو رہے ہیں مگر اس پر انکم ٹیکس نہیں دے رہے۔
بہت سارے بزرجمہر وہی بات کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس تو دے رہے ہیں، ماچس کی ڈبیا سے لے کر گاڑی کی خریداری تک تو پھر ہم فائلر کیوں ہوں تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب ٹیکس تنخواہ دار طبقہ بھی ادا کر رہا ہے مگر اس سے پہلے وہ تنخواہ پر بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ا گرچہ تنخواہ پر ٹیکس ابھی بھی بہت زیادہ نہیں کہ یہ ایک لاکھ روپوں پر صرف اڑھائی ہزار روپے ہے اور یہ اڑھائی ہزار بھی ابھی جولائی میں د وگنے ہو کے ہوئے ہیں۔
ہمارے ستر سے اسی فیصد لوگوں کی تنخواہیں اسی ایک لاکھ کی بریکٹ میں ہیں۔ مگر یہ بات تو طے شدہ ہے کہ وہ پہلے بھی ٹیکس دیتے ہیں اور پھر بجلی پٹرول پر بھی یعنی نان فائلرز سے دوگنا نہ سہی مگر زیادہ ٹیکس ضرور ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری کی وبا اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ والدہ کے نام پر کروڑوں اربوں کے ہسپتال کامالک مشہور سنگر ابرار الحق تک نان فائلر نکلا ہے۔ اس معاملے کو اگر آپ سمجھ رہے ہیں تو اس کو بھی سمجھ رہے ہوں گے کہ جیسے ہی ڈائریکٹ ٹیکس بڑھے گا ان ڈائریکٹ ٹیکس کم ہوجائے گا یا جب تک ڈائریکٹ ٹیکس کم رہے گا ریاست مجبور ہوگی کہ وہ ان ڈائریکٹ ٹیکس وصول کرے یعنی نان فائلر آپ کی آمدن کھا رہے ہیں بلکہ شاطرانہ انداز میں لوٹ رہے ہیں۔
ہمارے بہت سارے طبقات ٹیکس ادا ہی نہیں کرنا چاہتے جیسے وکیلوں جیسے پروفیشنل اور کسانوں کا طبقہ۔ ابھی زرداری صاحب کی لاہور میں کی گئی بات سے یہ لگا کہ وہ زراعت پر ٹیکس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس میں واضح کرنے والی بات یہ ہے کہ معاملہ زراعت اور وکالت کا نہیں ہے بلکہ کمائی کا ہے۔ جو بھی ملک میں رہ کے مال کماتا ہے اسے ٹیکس ادا کرنا ہوگا تب ہی ملک چلے گا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت ٹیکس دیتے ہیں وہ دھوکا دیتے ہیں۔ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ ہم ٹیکس کیوں دیں کہ ریاست ہمیں کیا دیتی ہے۔ نوٹ کیجئے، پاکستان ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے دس فیصد پر بھی نہیں ہے جبکہ جدید ممالک تیس سے چالیس فیصد یا اس سے بھی زیادہ پر پہنچ چکے ہیں۔ ہمیں حکومت سے سوال کرنے سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ ہم عوام ٹیکس کی صورت میں کیا دیتے ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے، ٹیکس تو دینا پڑے گا اور اگر کوئی سیاسی رہنما آپ کو ٹیکس کے خلاف بھڑکاتا ہے تو وہ سازش کر رہا ہے کہ آپ کے بجلی کے بل زیادہ ہوں، آپ کا پٹرول اور زیادہ مہنگا ہو کیونکہ اگر طاقتور طبقات ڈائریکٹ ٹیکس نہیں دیں گے تو حکومت کو ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانا پڑے گا اور کچھ چوروں، ڈاکووں کا بچایا ہواٹیکس ہم سب ادا کریں گے۔ اسے سمجھیں، اسے روکیں۔