اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس مقدمے میں اپنا نمائندہ نامزد کرنا ضروری ہے مگر چونکہ یہ نواز لیگ کے خلاف مقدمہ ہے لہٰذا جہاں نیب کے مقدمات میں کسی مدعی اور ثبوت کی موجودگی غیر ضروری ہے اسی طرح یہاں بھی قانونی تقاضے پورے کرنے ہرگز ضروری نہیں۔ اس مقدمے کو درج کرنے والاسعید اختر نامی اے ایس آئی اس سوال پر کہ تفتیش و اندراج مقدمہ میں کوئی توقف ہوا ہو تو بیان کیا جائے، لکھتا ہے، حسب آمد تحریر درخواست مقدمہ درج رجسٹر ہوا یعنی اس نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے تمام قائدین کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے نہ قانونی رائے طلب کی اور نہ ہی شکایت کنندہ سے پوچھا کہ تم کون ہو اور تمہارا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟
پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے ایک ردعمل وفاقی وزیر فواد چوہدری کی طرف سے آیا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان کو اس مقدمے کے اندراج کے بارے میں علم ہی نہیں تھا اور یہ کہ پی ٹی آئی کی پالیسی ہی نہیں کہ وہ بغاوت کے مقدمات درج کروائے۔ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ مقدمہ درج کروانے والے کا اس سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر وہ پی ٹی آئی یوتھ ونگ راوی ٹاون کا عہدیدار بھی نکل آیا اور اس کی گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور ہی نہیں بلکہ نواز شریف کے خلاف ایک خصوصی شہرت رکھنے والے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت بہت سارے ایسوں کے ساتھ تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں جن کے نام لکھنے سے قلم جل سکتا ہے۔ میں پھر بیان کروں گا کہ لاہور میں ایک طویل عرصے سے کوئی بھی مقدمہ متعلقہ ایس پی کو مطلع کئے بغیر اور اس کی باقاعدہ اجازت کے بغیر درج نہیں ہوتا اورایک ایک مقدمے کے اندراج میں کئی کئی ہفتے تک لگ جاتے ہیں۔ ہم صحافی اس با ت کو جانتے ہیں مگر پولیس افسران کے پاس دلیل ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں جعلی اور جھوٹے مقدمات درج نہیں ہوتے مگر اس مقدمے نے ان کے ا س دعوے کی قلعی بھی کھول کے رکھ دی ہے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی ایسی ہی پولیسنگ چاہتی ہے جس کے لئے ٹرانسفرپوسٹنگ کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ لاہور میں کام کرنے والے قابل اور اہل افسران کو صوبہ بدر کیا جا رہا ہے اور ذاتی وفاداریوں کے حلف اٹھانے والوں کو پنجاب میں خصوصی طور پر امپورٹ کیا جا رہا ہے۔
میں اس مقدمے کے اندراج سے اب تک صدمے کی حالت میں ہوں کہ ہماری سیاسی اخلاقیات، اصولوں، اقدار اور منطق کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ ایک یوسی چیئرمین کا الیکشن لڑنے والے کریمنل ریکارڈ ہولڈر کی درخواست پر پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم پر مجرمانہ سازش، پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے، ملک کی تشکیل کی مذمت اوراس کے وقار کے خاتمے کی سازش، مختلف گروہوں میں دشمنی کے فروغ، بغاوت اور سائبر کرائم کی مختلف دفعات لگا دی گئی ہیں۔ میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ یہ شخص اپنے علاقے میں لازمی طور پر پولیس کا ٹاوٹ ہو گا اور اسی اے ایس آئی کو بھتے لا کے دیتا ہوگا۔ ایسے لوگ ہر تھانے کی حدود میں پائے جاتے ہیں جو تھانوں میں کام کروانے کے عوض پیسے اور ووٹ لیتے ہیں، اپنے اپنے علاقوں میں سیاستدان کے بجائے کسی جرائم پیشہ کی شہرت رکھتے ہیں۔ پولیس ٹاوٹ کے معیار کے شخص نے اس وزیراعظم پر بغاوت اور غداری کا الزام لگا دیا ہے جس نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنایا، دشمن ملک کے بنیاد پرست وزیراعظم کو محض اپنی سیاست اور سفارتکاری سے مینار پاکستان پر لاکھڑا کیا، ملک کے چاروں صوبوں میں موٹرویز کی صورت میں جنگی طیاروں کے ہزاروں کلومیٹر طویل رن وے تعمیر کر دئیے، پاکستانیوں کی جان دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ جیسے عفریتوں سے چھڑوائی۔ جو جانتا تھا کہ آئندہ لڑائیاں جنگ کے نہیں بلکہ اقتصادیات کے میدانوں میں لڑی جائیں گی اورملک کے گروتھ ریٹ کو 5.8 فیصد پر لے گیا اور اگر حکومت برقرار رہتی تو چند ہی مہینوں میں 6.2 فیصد پر ہونا تھا جو اب منفی میں ہے۔ اگر پاکستان کا تین مرتبہ کا منتخب وزیراعظم محض سیاسی اختلاف پر اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کی تلقین پر غدار ہے تو پھر یہاں محب وطن کون ہے۔ اگر اس ملک کے تین سابق جرنیل اور چار سابق گورنر صرف سیاسی اختلاف پر غدار ہیں تو آئیے ہاتھ بلند کرتے ہیں، فاتحہ خوانی کرتے ہیں کہ ہمیں یقین کرنا پڑے گا کہ ہمارے اداروں میں دوسری اعلیٰ ترین پوزیشن پر پہنچنے والے بھی غدار ہوسکتے ہیں۔
ایک یونین کونسل لیول کے موقع پرست اور ایک گھٹیا درجے کی پروفیشنل صلاحیت رکھنے والے پولیس اہلکار نے پاکستان اور کشمیر کاز پر بھی اس وقت ظلم کیا جب اس نے اس گھٹیا مقدمے میں آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم فاروق حیدر بھی کو بھی نامزد کیا۔ کیا اس نے نہیں سوچا کہ آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم کو پاکستان میں باغی اور غدار لکھنے کا کشمیر کاز پر کتنا منفی اثر ہو گا۔ بھارتی میڈیا اس خبر کو لے اڑا تو اس نے موقعے سے فائدہ اٹھایا۔ میرے خیال میں اس ایف آئی آر کا اندراج ہمارے کشمیر یوں کے خلاف گھناونے جرائم میں سے ایک جرم ہے جس میں سے ایک جرم بھارت کو اپنے ووٹ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کورنسل کا رکن بنوانابھی ہے جس کے بعد اس نے انتہائی ڈھٹائی ور بے شرمی سے کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کر دی، اسے اپنا آئینی حصہ بنا لیا۔ اب حکمران چاہے اس ایف آئی آر کا بوجھ اٹھانے سے لاکھ انکار کر تے رہیں، کروڑوں بار کہتے رہیں کہ اس کریمنل ریکارڈ ہولڈر سے ان کا کوئی تعلق نہیں مگر یہ ایف آئی آر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جیسے ایوب خان کے دور کی نااہلیاں اورسزائیں، ضیاءالحق کے کے دور کے کوڑے، قلعے، پھانسیاں اور مشرف دور کے سیاسی کارکنوں پرتشدد اور جلاوطنیاں مگر اس وقت ملک میں مارشل لا نہیں ہے۔ ایوب دور میں خواجہ رفیق شہید نے کہا تھا کہ اگر جمہوریت کی جنگ لڑنا بغاوت ہے تو میں سب سے بڑا باغی ہوں۔ آج اس ایف آئی آر میں ریلوے کو دوبارہ زندگی دینے والا اس کا بیٹا سعد رفیق بھی نامزد ہے کہ یہاں نسل درنسل جمہوریت سے وفاداری کا تاوان بھرنا پڑتا ہے۔
اس ایف آئی آر کی ایک مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس میں سابق وزیراعظم کو تقریر کرنے پر غدار اور باغی قرار دیا گیا ہے جبکہ باقی چوالیس لوگ اس تقریر کو سننے پر اس جرم کے مرتکب ٹھہرے ہیں مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ کروڑوں پاکستانی اس تقریر کو لائیو یا یوٹیوب اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر کروڑوں بار سن چکے ہیں اوراس کے نیچے لائیک کا بٹن بھی دبا چکے ہیں تو کیا یہ سب پاکستانی غدار اور باغی ہوچکے ہیں۔ سن لیجئے کہ دنیا میں کوئی ریاست صرف جغرافیے سے نہیں بنتی، ریاستیں شہریوں سے بنتی ہیں اور کسی بھی جمہوری معاشرے میں محض سیاسی اختلاف رائے پرباغی قرار نہیں دیا جاتا اور اگر یہی پیمانہ ہے تو پھر پی ٹی آئی کے ووٹروں کو ایک طرف رکھئے اور باقی بیس کروڑ عوام کو غدار اور باغی ڈیکلئیر کرتے ہوئے انہیں ملک سے نکال دیجئے، نہ یہاں پر پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی دوسرا نظریہ اور نہ ان کے ووٹروں کے علاوہ کوئی اختلا ف کرنے والا دوسرا شخص موجود ہو گا تو آپ ایک نیا پاکستان بنا لیجئے گا ورنہ اب تک کی صورتحال کے مطابق نواز شریف کی تقریر سننے کا جرم مجھ سے بھی ہوا ہے اور میں نے اس سے پہلے جناب عمران خان کے وہ پاکستان اوربھارت میں وہ تمام بیانات بھی سنے ہیں جو انہوں نے میرے اداروں کے بارے دئیے تھے، میرے خیال میں ان مقدمات کا آغاز وہیں سے ہونا چاہئے۔