پی ٹی آئی کویہ کمال حاصل ہے کہ وہ دانشورانہ گمراہیاں اور فکری مغالطے بہت کامیابی کے ساتھ پید اکرتی ہے جیسے بانی پی ٹی آئی کا جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج پر اصرار۔ وہ جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہاؤسز، ائیرفیلڈز اور شہداء کی یادگاروں کے باہر احتجاج کی منصوبہ بندی کی ذمے داری قبول کر چکے ہیں مگر ان کا اصرار ہے کہ انہوں نے پراُمن احتجاج کی کال دی تھی۔ اس کا بہت سادہ سے مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ ذمے دار نہیں، ذمے دار وہ ہیں جنہوں نے اسے پُر امن نہیں رکھا یعنی ان کے عہدیدار اورکارکن۔ کیا وہ اس بلی کا کردارادا کر رہے ہیں جو زمین گرم ہونے پر اپنے بچوں کواپنے پیروں تلے دبا لیتی ہے۔
کیا وہ یاسمین راشد، محمود الرشید، اسلم اقبال، صنم جاوید اور عالیہ حمزہ جیسوں کو پیش کر رہے ہیں کہ جو لوگ سی سی ٹی وی میں نظر آ ئے، ان سب کو چاہے پھانسی دے دو مگر وہ خود بے گناہ ہیں، معصوم ہیں؟ ان کے اعتراف سے یہ بات پتا چل گئی کہ پشاور، پنڈی، سرگودھا، لاہور سے کراچی تک پی ٹی آئی کے سب مظاہرین کا رخ فوجی علاقوں، تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی طرف ہی کیو ں تھا کیونکہ انہیں لائن دی گئی تھی۔ لاہور کے لبرٹی سے روانہ ہونے والے قافلے کی کمانڈ کرنے والی سفید بالوں والی تیز وطرار عورت کو علم تھا کہ وہ ڈنڈا بردار صنم جاویدوں اور عالیہ حمزاؤں کو کدھر لے جا رہی ہے، کیوں لے جار ہی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے ایک بار سے زیادہ کہا کہ آئین جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج سے منع نہیں کرتا۔ جب وہ یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں تو اپنے فیصلے کو آئینی، قانونی اور جمہوری قرار دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور یہی وہ مغالطے اور تضاد ہیں جن پر وہ آج تک کی سیاست کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں یعنی فوج کو سیاست سے نکالنے کی باتیں اور فوج سے ہی معاملات پر اصرار، دعوے گڈ گورننس کے اور حکومتیں عثمان بزدار، محمود خان او ر گنڈا پور جیسوں کے حوالے، نعرے ریاست مدینہ کے اور اپنا کردار وہ بھی موصوف پر جیسے ذاتی الزامات ہیں وہ ملکی تاریخ میں کسی دوسرے سیاسی رہنما پر نہیں۔ ان کا دیا ہوا تاثرہرگز، ہرگز درست نہیں کہ جو چاہے منہ اٹھائے اور جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کے لئے پہنچ جائے۔
دنیا بھر میں فوجی (تنصیبات والے) علاقے عوامی آمدو رفت کے حوالے سے محدود یا ممنوعہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہے اور تما م کنٹونمنٹس کے باہر فوجی ناکے موجود ہیں جہاں لوگو ں کی شناخت پوچھی جاتی ہے اور آگے جانے کا مقصد بھی۔ بہت سارے لوگوں کو ان ناکوں پر روکا اور واپس بھیجا جاتا ہے یعنی ہمارا قانون کنٹونمنٹس کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ خصوصی حیثیت صرف ناکوں سے واضح نہیں ہوتی بلکہ اس کی ایڈمنسٹریشن ہی الگ ہوتی ہے اورکنٹونمنٹ کسی بھی ضلعی یا علاقائی حکومت کے ماتحت نہیں آتا۔
کنٹونمنٹ بورڈز میں رہائشیوں کے مسائل کے حل کے لئے الگ سے بورڈز منتخب ہوتے ہیں جن سے پوری کی پوری ڈیلنگ سٹیشن کمانڈرز کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے گروہ کے لوگ ایک اور فکری مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ ان کارکنوں کو کنٹونمنٹ میں داخل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اصل میں وہ اپنے کارکنوں کی لاشیں چاہتے تھے جو ان کو کئی وجوہات کی بناپر نہیں مل سکیں۔ وہ انٹرنیشنل میڈیا پر لاشیں بیچنا چاہتے تھے مگر خدا کا شکر ہے کہ جہاں ان کی سپہ سالار کے خلاف دوسری بغاوت ناکام ہوئی وہاں لاشوں کا حصول بھی نہ ہو سکا۔ یہ لاشیں ان کے کزن کو ماڈل ٹاؤن میں ملی تھیں اور اس کے بعدمذموم سیاسی مقاصد کے لئے دھرنوں میں بھی چاہتے تھے۔
بات صرف کنٹونمنٹس کے خصوصی قوانین تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں سیاسی اور جمہوری قوتیں اپنے احتجاج اور مظاہرے سیاسی اور جمہوری علامات اور عمارتوں کے سامنے ہی کرتی ہیں۔ مجھے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان یاد آتے ہیں جن کی ساری عمر ملک میں لگے ہوئے مارشل لاایڈمنسٹریٹروں کی مخالفت کرتے ہوئے گزری۔ میں اپنے دوست، مساوات اخبار کے چیف رپورٹر آغا افتخار کے ساتھ اکثر نکلسن روڈ پر ان کے ڈیرے پر شام کی چائے ان کے ساتھ ہی پیتا تھا۔ ہم ان سے بارہا سوال کرتے اور وہ بارہا ایک ہی جواب دیتے کہ سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں او ر فوجوں کا مقابلہ فوجیں کرتی ہیں۔
میں اس پر تصور بہت واضح ہے اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پاکستان کی فوج پر ہندوستان کی فوج ہی حملہ آور ہو سکتی ہے یا اس کے ایجنٹ، جیسے کہ1965ء میں حملہ کیا گیا اور انہوں نے پلان بنایا تھا کہ رات کے اندھیرے میں حملہ کریں گے اور ستمبر کی ایک خوشگوار صبح میں لاہور جمخانہ میں شراب کے ساتھ ناشتہ کریں گے۔ وہ جم خانہ تک پہنچنے سے پہلے پاکستان کی فوج کے مراکز کو تاراج کرنا چاہتے تھے مگر ان کا وہ مکروہ خواب پورا نہ ہو سکا۔
عمران خان اپنے کلٹ کو احمق بنا سکتے ہیں مگر پورے پاکستان کو نہیں، چلیں، ہم کچھ لمحوں کے لئے مان لیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے پُرامن احتجاج کا ہی کہا تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ احتجاج تھا۔ میں نے نواور دس مئی کو لاہور کا کینٹ بہت قریب سے دیکھا ہے اور کورکمانڈر ہاؤس کو اندر سے۔ کوئی احمق ہی کہہ سکتا ہے کہ وہ احتجاج تھا۔ وہ ایک باقاعدہ حملہ تھا جیسے ایک گروہ اپنے مخالف پر کرتا ہے۔ وہ توڑ پھوڑ کرتا ہے، لوٹ مار کرتا ہے، جلاؤ گھیراؤ کرتا ہے۔
میں نے صرف جناح ہاؤس کو جلے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ میں نے سی ایس ڈی شاپس کو لٹے ہوئے بھی دیکھا ہے اور یوں لگ رہا تھا جیسے ڈاکوؤں کے کسی گروہ نے حملہ کر دیا ہو۔ آگے بڑھا تو میں نے سو، ڈیڑھ سو جلی ہوئی گاڑیوں کو دیکھا جن میں فوجی گاڑیاں بھی موجود تھیں اور پرائیویٹ بھی۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر وہاں بھارتی فوج بھی آجاتی جو 65ء میں بھی نہیں آسکی تھی تو وہ بھی اتنی تباہی نہ کرتی جتنی عمران خان کے بھیجے ہوئے فسادیوں، انتشاریوں اورحملہ آوروں نے کی اور پھر اس کے بعد بھارتی ٹیلی ویژنوں کی سکرینوں پر میراتھن ٹرانسمیشنز شروع ہوگئیں۔
ہمارے دشمن نے جشن منانا شروع کر دیا۔ ہماری قوم اپنی فوج سے محبت کرتی ہے اوراس پر حملہ کرنے والوں میں دو ہی شامل رہے ہیں بھارت اوراس کے ایجنٹ یا ان کی حمایت اور فنڈنگ کے ساتھ دہشت گرد۔ عمران خان کا اس دن کے واقعا ت کے حوالے سے اعتراف جرم انہیں کٹہرے میں لانے کے لئے کافی ہے۔ کوئی بھی غیر جانبدار، انصاف پسند عدالت انہیں بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ کریمنل جسٹس سسٹم میں عدالتیں صرف اس لئے انصاف نہیں کرتیں کہ انہوں نے مجرم کو سزا دینی ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہیں زیادہ کرتی ہیں کہ انہوں نے ریاست کا دفاع کرنا ہوتا ہے، جرائم کا راستہ روکنا ہوتا ہے۔