Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Hal Sirf Solar

Hal Sirf Solar

جماعت اسلامی سے معذرت کہ میں نے تھوڑی سی ترمیم کے بعد ان کا نعرہ اپنے کالم کے عنوان کے طور پر لے لیا ہے۔ ویسے مجھے کچھ زیادہ معذرت کرنے کی ضرورت نہیں کہ جماعت اسلامی تو پوٹینشل پولیٹیکل ہیومن ریسورس تک تیار کرکے دوسروں کو پیش کر تی رہی ہے تواس میں ایک نعرے کی کیا اہمیت ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ بھی خوفناک سے خوفناک ترین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی پورے مہینے کی تنخواہ کے برابر یا بہت ساروں کی آدھے مہینے کی کمائی کے برابر بجلی کے بل آ گئے ہیں اور ابھی اس سے بھی بڑھ کے آنے کی توقع ہے کیونکہ بہت سارے طبقات کی طرف سے ٹیکس دینے سے صاف انکار اور ایف بی آر کی نااہلی کے باعث ٹیکس کلیکشن اور ملک چلانے کا طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ توانائی کی قیمتیں اور ٹیکس بڑھاتے چلے جائیں۔

دو یا تین سو یونٹ بجلی مفت، انتخابات سے پہلے یہ ایک پرکشش نعرہ تھا اور میں نہیں جانتا کہ کتنے لوگوں نے آئی پی پی، مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے اس نعرے پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں ووٹ دئیے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ گھریلو صارفین کے لئے سو سے دو سو یونٹ تک مفت کر دینا اس ریاست کے لئے ناممکن نہیں جو پانچ، چھ سو ارب روپے صرف بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر دے رہی ہو مگر اس کے ساتھ اگر بجلی کنکشنوں کی سولر پر منتقلی ہو جائے تو یہ مسئلے کا زیادہ پائیدار حل ہے۔ کوئی بھی شے مفت دینا وقتی طور پر تو اچھا لگ سکتا ہے مگر اس کے نتیجے میں بھکاریوں کی ایک فوج تیار ہوجاتی ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی بہت ساروں کا یہی اعتراض ہے کہ آپ کئی سو ارب روپے انہیں دے دیتے ہیں جو دوبارہ لائن میں آ کے لگ جاتے ہیں، بہرحال، یہ ایک الگ بحث ہے کیونکہ بہت سارے لوگ واقعی امداد کے مستحق ہوتے ہیں، وہ کاروبار نہیں کر سکتے مگر سوال یہ ہے کہ جو کاروبار کر سکتے ہیں انہیں ہم بھیک کے عادی کیوں بناتے ہیں۔ میں ٹریفک کے اشاروں پر بہت ساری خواتین ایسی دیکھتا ہوں جنہوں نے بچے اٹھائے ہوتے ہیں اور وہ شدید گرمی میں بھی ایک گاڑی سے دوسری گاڑی کی طرف بھاگ رہی ہوتی ہیں۔ میں ا نہیں اتنی مشقت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ کسی گھر میں کام کیوں نہیں کر لیتیں۔ یہ جتنی محنت سے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں اتنی محنت کے ساتھ وہ لوگوں کے گھراور کچن بھی صاف کر سکتی ہیں، سالڈ ویسٹ کی کلیکشن بھی کرسکتی ہیں اور سروس اسٹیشنوں پر گاڑیاں بھی دھو سکتی ہیں۔

حکومتوں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ دانشمندانہ فیصلے کریں جیسے کہ بلوچستان میں کیا گیا۔ بلوچستان میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اٹھائیس ہزار ٹیوب ویل بجلی پر چل رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست بہت ساروں سے بل بھی وصول نہیں کرپاتی اور اس طرح تقریباً اسی ارب روپے نان پیمنٹ کی وجہ سے بجلی کی سب سڈی میں دینے پڑ جاتے ہیں۔ شہباز شریف کے پاس واقعی ایک ہوشیار کاروباری ذہن ہے۔ انہوں نے کوئٹہ کے دورے میں صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام ٹیوب ویلوں کو بجلی کی بجائے سولر پر منتقل کر دیا جائے۔ اس کے کئی فائدے ہوں گے۔ سب سے پہلا یہ کہ بجلی کی چوری سے نجات مل جائے گی۔ دوسرا یہ کہ جو سولر ٹیوب ویل کو بجلی دے گا وہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں ڈیرے اور گھر کو بھی بجلی فراہم کردے گا۔

تیسرا یہ کہ تین ماہ بعد سالانہ اسی ارب روپے دینے والا کام ختم ہوجائے گا اوریہ کام صرف ایک مرتبہ پچپن ارب روپوں سے ہوگا جس میں سے تیس فیصد بلوچستان کی حکومت ادا کرے گی۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اگلے مرحلے میں ملک بھر میں چلنے والے دس لاکھ ٹیوب ویل بینک فنانس کے ذریعے سولر پر منتقل کر دئیے جائیں گے۔ ہم ڈیزل صرف گاڑیوں کے لئے نہیں بلکہ زراعت کے لئے بھی امپورٹ کرتے ہیں۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ایک ملین ٹیوب ویلوں کے سولر پر منتقل ہونے کے بعد ساڑھے تین ارب ڈالر کے ڈیزل کی امپورٹ بچ جائے گی۔ یہ ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ آئی ایم ایف کے اس پیکج کی سالانہ آمد سے زیادہ ہیں جن کے لئے ہم اس وقت ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں اور اپنا بجٹ تک ان کی منظوری سے بنانے پر مجبور ہیں۔

پنجاب حکومت کے سولر منصوبے پر بات کرلیتے ہیں۔ یہ بات مان لینی چاہئے کہ فوری طور پر بجلی سستی ہونی ناممکن ہے اور یہ کام کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ عمران خان نے بجلی سستی کی تھی تو وہ یاد رکھے کہ ہم اس کی اسی عاقبت نااندیشانہ مہم جوئی کے اثرات بھگت رہے ہیں جب موصوف نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہوتے دیکھ کے آئی ایم ایف سے اپنا ہی کیا ہوا معاہدہ وقتی سیاسی فائدے کے لئے توڑ دیا اور ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا۔

شہباز شریف کی محنت سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا کہ اگر ہم دیوالیہ ہوجاتے تو تین سوروپے لیٹر والا پٹرول تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ ملتا اور پچاس روپے یونٹ والی بجلی پانچ سو روپے یونٹ پر بھی نہ دستیاب ہوتی۔ حل اس وقت سولر ہی ہے۔ میں مریم نواز کی حکومت کا بزدار کے ساتھ تقابل کر ہی نہیں سکتا۔ مریم نواز نے پہلے تین چارماہ میں ہی ایک بہترین پنجاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پنجاب حکومت پانچ سو یونٹوں تک استعمال کرنے والوں کو بلاسود قرض پر سولر پینلز فراہم کرے گی۔ قرض تو پانچ برس میں ادا ہو جائے گا اور اس کے بعد بیس پچیس برس تک ہزاروں غریب خاندان مفت بجلی استعمال کرتے اور حکومت کو دعائیں دیتے رہیں گے۔

یہ سوال ضرور اہم ہے کہ اگر صارفین بجلی خریدنا بند کردیں گے تو پھر آئی پی پیز کے کپے سٹی چارجز کیسے ادا ہوں گے کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی کے مہنگے ہونے میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ حکومت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے۔ یہ درست ہے کہ آئی پی پیز کے ملکی اور غیر ملکی مالکان نے اس وقت سرمایہ کاری کی جب ہم بدترین لوڈ شیڈنگ کا شکار تھے، ان کا احسان اپنی جگہ مگر اب ہمارے لئے یہ بل جان لیوا ہو چکے۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت اس مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی حل ضرورنکال لے گی۔ کوئی مانے یا نہ مانے، شریف فیملی کی سب سے بڑی خوبی ہی یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل پر انتہائی برق رفتاری سے ردعمل دیتی ہے۔

موٹرویز سے لیپ ٹاپس تک، اس خاندان کا اقتدارملک میں تعمیر و ترقی کی علامت ہے اور یہ بات ہرگز غلط نہیں کہ اگر نواز شریف اور شہباز شریف کے منصوبے ملکی انفراسٹرکچر سے نکال دئیے جائیں تو انگریزوں کی بنائی ریلوے اور مغلوں کے بنائے قلعے ہی باقی بچتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran