سچی بات یہ ہے کہ ٹیچرز کے مسائل بہت ہیں اور سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ جو پڑھ لکھ کے بھی کچھ نہیں بن سکتے وہ وکیل بن جاتے ہیں، صحافی بن جاتے ہیں یا ٹیچر بن جاتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی بچے کواس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نہیں سنا کہ وہ بڑا ہو کے ٹیچر بنے گا لیکن اگر سرکاری ملازمین کی تعداد کو دیکھا جائے تو ان میں سب سے زیادہ ٹیچرز ہی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی ہمارے پنجاب کے اچھے وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کے لئے مار نہیں پیار کی پالیسی، دی مگر مسئلہ یہ ہے کہ بچوں اور ان کے والدین کو ان اساتذہ سے کم مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ان کے بچوں کومارتے ہیں مگر ان سے توبہت زیادہ شکایات ہوجاتی ہیں جوپیار کرتے ہیں۔ پیار کرنے کے حوالے سے شکایت جوں، جوں سٹوڈنٹس کالج او ریونیورسٹی میں پہنچتے ہیں بڑھتی چلی جاتی ہے۔
میں نے ایک سیانے سے پوچھا کہ یونیورسٹیوں میں ٹیچرز کی اپنی سٹوڈنٹس سے شادیوں کی تعداد اور رفتار بڑھتی چلی جارہی ہے کیا یہ مار نہیں پیار والی پالیسی کا نتیجہ ہے تو انہوں نے میری اصلاح کی، بتایا، چوہدری پرویز الٰہی پدرانہ شفقت والے پیار کی بات کرتے تھے شوہرانہ محبت والے پیار کی نہیں۔ مجھے لگا یہ سب مسائل درست تشریح نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ مار نہیں پیار کاایک اور اینگل بہت اہم ہے اور یہ کہ میں نے جتنے بھی بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں یعنی جو لوگ دیہات سے آئے اور سیکرٹری ویکٹری، جرنیل شرنیل اور جج وج بن گئے۔
وہ سب انہی اساتذہ کو یادکرتے ہوئے اپنا محسن قرار دیتے ہیں جن کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا ہوتا تھا اور وہ سبق یاد نہ کرنے یا ہوم ورک نہ کرنے پر ٹکا کے ٹھکائی کرتے تھے۔ میں نے بہت ساری کتابوں میں پڑھا اور بہت سارے طاقتوروں سے سنا ہے کہ انہیں کامیاب بنانے میں انہی اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تھا جبکہ دوسری طرح والے یعنی خواہ مخواہ پیار کرنے والوں کو اب بھی وہ گالی دے کر یاد کرتے ہیں اور ٹھرکی قرار دیتے ہیں۔
ہمارے ٹیچرز کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ حکومت انہیں برس ہا برس سے پکا نہیں کر رہی اور وہ اس کے لئے تحریک چلا رہے ہیں۔ اب یہاں بھی دو مسائل ہیں کہ جو استاد پکے ہوجاتے ہیں، انہیں یہ خوف نہیں رہتا کہ بچوں کے فیل ہونے سے انہیں نکال دیا جائے گا اور جب تک وہ پکے نہیں ہوتے، پکے ہونے کے شوق میں اپنی کلاسز کا رزلٹ اچھا رکھتے ہیں۔ ویسے یہ کلچر ہر ادارے میں موجود ہے اور ہرفرد کی فطرت کا حصہ ہے کہ جب تک اسے نوکری کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ ٹکا کے کام کرتے ہیں جیسے پرائیویٹ سکولوں اورکالجوں کے ٹیچرز۔
کوئی مانے یا نہ مانے، میں نے کنٹریکٹ والوں کو پرماننٹ ایمپلائز سے زیادہ بہتر کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمارے ٹیچرز پر کورونا کے دوران بہت برا وقت آیا۔ میں نے اس موضوع پر بہت سارے پروگرام کئے کہ پرائیویٹ سکولوں نے بندش اور فیسوں کی ادائیگی نہ ہونے پر بہت سارے ٹیچرز کو برطرف کر دیا۔ کچھ ٹیچرزنے بتایا کہ کسی نے سبزی کی دکان کھول لی اور کسی نے پنکچر لگانے کی، یہ بھی بتایا کہ ان کی آمدن بڑھ گئی یعنی ایک وہ ایک ٹیچر سے زیادہ کمانے لگے، افسوس۔
میں نے ایک دوست سے کہا، مجھے علم ہے تمہیں کون پڑھاتا ہے تو وہ ترنت بولا، تمہاری بھابھی۔ میں نے بھی ایک کلاس کو پڑھایا ہے، جب کورس ختم ہو رہا تھا تو سٹوڈنٹس نے پوچھا، سر، ہم آپ کے لئے کیا کر سکتے ہیں تو میں نے کہا، بس، کسی کو یہ مت بتانا کہ میں نے تمہیں پڑھایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑے ادیب نے رکشے میں سفر کیا تو منزل پر پہنچ کر ڈرائیور نے کرایہ لینے سے ہی انکا رکر دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ وہ اس کے استاد تھے اور آج وہ جس مقام پر ہے انہی کی وجہ سے ہے۔ میں نے بہت سارے سٹوڈنٹس کو بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر ان کے ٹیچرز لائق ہوتے تو وہ کبھی فیل نہ ہوتے۔
مجھے بہت سارے دوستوں نے کہا کہ ٹیچرز ڈے پر کالم لکھو تو ٹیچرز کی تعریفیں کرنا کہ وہ کتنی محنت سے پڑھاتے ہیں مگر ان کی تنخواہیں کتنی کم ہیں۔ میں نے لکھنے سے پہلے اپنے جیسے صحافیوں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کو دیکھا تو مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک نکاح پر یہ طے ہوا کہ دولہا، نکاح خوان کو، دلہن کی خوبصورتی کے مطابق ہی فیس ادا کرے گا۔ بعد از نکاح دولہا نے نکاح خوان کو ایک سو روپیہ دیا۔
نکاح خوان نے جرأت کی اور دلہن کا گھونگھٹ اٹھا کے دیکھا توساتھ ہی دولہا کو پچھہتر روپے واپس کر دئیے۔ ویسے میرے اپنے ملک میں معیار تعلیم کے بارے خیالات اس وقت سے بہت خراب ہیں جب سے میں نے اس لیڈر کو دیکھا ہے جو خود کو پڑھے لکھوں کا لیڈر کہتا ہے۔ سچ پوچھیں ہم اپنے بچوں کو ڈگریاں تو دیتے چلے جا رہے ہیں مگر اخلاقیات اور سماجیات کا ٹکے کا شعور نہیں دے رہے۔ اساتذہ نے نہلوں، نکموں، جھوٹوں، چوروں، زانیوں اور ملک دشمنوں کو ہیرو بنا دیا ہے۔ ہمارے ہیرو اور ولن کے تصورات ہی تباہ کر دئیے ہیں جو بڑا المیہ ہے۔
ہمارے دور میں جنرل پرویز مشرف نے ٹیچرز ڈے کو دوبارہ فیشن میں اِن، کیااور میں سوچ رہا تھا کہ بڑے بڑے سکولوں کے اساتذہ بھی آئین اور قانون کی پاسداری جیسے بنیادی تصورات کی پاسداری نہیں سکھا سکے۔ کہتے ہیں کہ زمانہ سب سے بڑا استاد ہے اور جو باتیں استاد نہیں سکھاتے وہ زمانہ سکھا دیتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر ان لوگوں کو زیادہ بڑا استاد مانا ہے جنہیں میں غلط اور برا سمجھتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ جو کام انہوں نے کئے وہ میں نہ کروں۔ میں نے بے ایمانوں کے انجام سے سیکھا کہ کرپشن نہیں کرنی چاہئے اور بدمعاشوں کے انجام سے سیکھا کہ اس کا نتیجہ گولی ہی ہے۔
مذاق سے ہٹ کر اور تکلف برطرف، قوم کو کردار اساتذہ نے ہی دینا ہے۔ نوکری میں ایمانداری تو ایک طرف رہی، میں نے اساتذہ کو پی ایچ ڈی تک میں کرپشن کرتے، باہر ریسرچ کے لئے جانے کے بعد بھاگ جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اول جلول سمسٹر سسٹم نے سٹوڈنٹ ٹیچر ریلیشن شپ میں مزید گند گھول دیا ہے۔ اساتذہ کہتے ہیں کہ وہ سٹوڈنٹ کی تعلیم و تربیت کے ایک تہائی کے ذمے دار ہیں۔
ایک تہائی ذمے داری والدین اور بزرگوں کی ہے اور ایک تہائی ان کے دوستوں اور ساتھیوں کی۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اچھے ڈاکٹر اور ا نجینئر بنا رہے ہوں مگر کیا ہم اچھے انسان اور اچھے شہری بھی بنا رہے ہیں؟ میرا ایمان ہے کہ میرے دین میں کوئی خامی نہیں مگر کیا میرے مدارس اچھے مولوی بنا رہے ہیں؟ سیاستدانوں سے بیورو کریٹوں اور سپریم کورٹ کے ججوں سے سبزی فروشوں تک کیا ہم اچھی اور ایماندار قوم ہیں؟ کیا مجھے ایسا معاشرہ بنانے والوں کو ہیپی ٹیچرز ڈے کہنا چاہئے؟