میں سی ای او بنوں کنٹونمنٹ بورڈ بلال پاشا کی خود کشی پر ایک فلمی ڈائیلاگ ہم جیسوں کے دن آتے ہیں تو موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے، کی پوسٹس کرنے والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم سب مل کے اگر خود کشی کے حق میں ایک ہزا رایک دلائل بھی لے آؤ تو ان سب پر دنیا کے سب سے دانا اور مہربان کالی کملی والے کا ایک ہی قول کافی ہے جس میں انہوں نے ایسی موت کو حرام قرار دیا ہے۔ بہت ساروں کو غلط فہمی ہے کہ خود کشی کوئی بہادری ہوتی ہے کہ اپنی جان لینا کون سا آسان کام ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حالات وواقعات کے مقابلے سے فرار ہے سویہ بزدلی ہے۔ کسی ایک شخص یا مسئلے کی وجہ سے ان تمام پیاروں کی محبتوں کا انکار ہے سو یہ خود غرضی ہے۔ یہ خدا کی عطا زندگی سمیت نعمتوں کا ٹھکرانا ہے سو یہ ناشکری ہے۔
ارے یہ موت بیچ میں کہاں سے ٹپکی، اسے تو خود گھسیٹ کے بیچ میں لائے، یہ بات کہنے والے دراصل سسٹم پر تنقید کرنا چاہتے ہیں، اسے برا بھلا کہنا چاہتے ہیں مگریہ سسٹم ہی کی عطا ہے کہ پسماندہ علاقے کے غریب کا بیٹا سی ایس ایس کر گیا۔ وہ ایک بڑے کنٹونمنٹ بورڈ کا سب سے بڑا افسر لگا ہوا تھا، اس کے نیچے نیلی بتی والی گاڑی تھی بلکہ کئی گاڑیاں تھیں، اس کے آگے پیچھے نوکروں کی قطاریں تھیں۔ لوگ اس کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے تھے اور اس کے احکامات سے کروڑوں روپوں کے کام ہوتے تھے۔ اگر وہ اس پر شکر ادا کرنا چاہتا تو اس کے لئے پانچوں نمازوں کے بعد تہجد، اشراق اور چاشت جیسے نوافل بھی ناکافی ہوتے کہ اللہ رب العزت نے اسے لاکھوں، کروڑوں پاکستانیوں سے زیادہ نواز ا تھا۔
مجھے کہنے دیجئے کہ جب آپ خود کشی کرتے ہیں تو دراصل آپ ناشکری کی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں اور ناشکروں کو کبھی ہیرو نہیں بنانا چاہیے، آہ، ہمارے ہیروا ور ولن کے تصورات ہی درست نہیں ہیں۔ ایک ایسا نوجوان خود کشی کرلیتا ہے جس کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اس شادی ہوئی اور وہ شادی نہیں چل سکی۔ سوشل میڈیا پر اس کی سابقہ اہلیہ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے بارے میں اتنا انتہا پسند، غیر منطقی اور خود غرض ہو وہ اپنی جیون ساتھی کے ساتھ کتنا انتہا پسند، غیر منطقی اور خود غرض ہوگا۔
جس نے اپنے اس باپ کا خیال نہیں کیا جس نے اسے پالا پوسا اور اس چچا کا بھی جس نے اس کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا تو اہلیہ کا کیا خیال رکھا ہوگا۔ میں اس کے حق میں پوسٹیں کرنے والوں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ پھر وہ تمام لوگ کیا کریں جن کی تنخواہیں لاکھوں روپوں میں نہیں ہیں، جن کے نیچے نہ نیلی بتی والی گاڑیاں ہیں نہ آگے پیچھے دوڑتے ملازم، جو بے روزگار ہیں یا بیمار ہیں کیا وہ سب بھی خود کشیاں کر لیں کیونکہ ان سے بااختیار، طاقتور اور دولت مند خود کشی کر رہا ہے۔ اگر سی ای او کنٹونمنٹ بورڈ زندگی کی مشکلوں کا سامنا نہیں کر سکتا تو پھر یہاں کون دوسرا کر سکتا ہے؟
میں نے ایک پڑھے لکھے شخص کا واقعہ پڑھا، اس کے پاس بچوں کے کھانے کے لئے کچھ رہا اور نہ ہی والدین کی ادویات کے لئے۔ بے روزگاری کے عالم میں گھر بیٹھے بیٹھے اس کا ذہنی دباؤ عروج پر پہنچ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ نہ ان حالات کامقابلہ کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنے پیاروں کا لہٰذا اب اسے مرجانا چاہئے یعنی اس نے خود کشی کا پلان بنا لیا۔ وہ خود کشی کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلا تو ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آیا کہ وہ تصور کرے کہ وہ مر چکا ہے۔
اب اس کے لئے اپنا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس کی اب کوئی خوشی نہ کوئی غم۔ اب اس نے اپنے والدین اور بچوں کے لئے جینا اور کام کرنا ہے۔ اس اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے کوڑے کے ڈھیروں سے پلاسٹک اور لوہے کی چیزیں اکٹھی کرکے بیچنی شروع کر دیں۔ وہ تھک کے چور ہوجاتا مگر سوچتاکہ وہ تو مر چکا ہے۔ اب اس بدن کا کوئی دوسرا مصرف ہی نہیں ہے۔ چھ ماہ کے اندر اندر اس نے اتنا پیسہ جمع کر لیا کہ اپنی دکان ڈال لی اور پھر رفتہ رفتہ کئی ملازم رکھ لئے۔ ایک، ڈیڑھ برس بعد اس کا اپنا گودام تھا، وہ قلاش خودکو لکھ پتی کہہ سکتا تھا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی پسند ناپسند کی وجہ سے مسلمان نہیں رہتے۔ ہمارا پسندیدہ لیڈر اگر ناجائز اولاد کا باپ ہے تواس کے باوجود وہ صادق اور امین ہے۔ ہمارے پسندیدہ عالم دین کا صاحبزادہ اگر خود کشی کر لیتا ہے تو ان کا یہ کہنا رسول اللہﷺ کے فرمان سے بھاری ہوجاتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کی شفاعت کرے گا۔ میں ا س عالم دین کو صرف اس بات کا مارجن دیتا ہوں کہ صاحبزادہ مبینہ طور پر ذہنی مریض تھامگر دوسری طر ف سوشل میڈیا پر اس بڑی فیکٹری کی تصاویر بھی وائر ل ہیں جس کو، خود ان کے مطابق، وہی بیٹا چلاتا تھا، واللہ اعلم، سو خود کشی اس لئے جائز اور درست نہیں ہوسکتی کہ ایک خوش بیان عالم دین کا بیٹا کر رہا ہے یا کسی کنٹونمنٹ بورڈ کا سی ای او۔
خدارا نہ اس پر ترس کھائیں اورنہ ہی آئیڈیل بنائیں۔ یہ دونوں خودکشیوں کے راستے کھول سکتے ہیں۔ زندگی میں جدوجہد کریں، اپنے لئے اور اس سے بھی کہیں زیادہ ان کے لئے جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ کیا بلال پاشا کو اس کے والدین نے اس لئے پڑھایا لکھایا تھا کہ جب وہ بڑھاپے کی لاٹھی بننے لگے تو خود ہی دنیا چھوڑ کے چلا جائے۔ یقین کیجئے دنیا وہی ہے جو آپ کے ارد گرد ہے۔
آپ سے پہلے کیا تھا، آپ سے دورکیا ہے، آپ کے بعد کیا ہوگا اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنی دنیا کو اپنی ہمت اور جرات سے اچھا بنائیں۔ ہم میں سے کئی محبت میں ناکامی کی وجہ سے خود کشی بارے سوچتے ہیں اور یہ بات کچھ عامیانہ سہی مگر سچ ہے کہ لڑکی اور بس کی فکر مت کرو، ایک چھوٹ گئی دوسری آتی ہی ہوگی اور یہی بات لڑکیوں کوکہنی ہے، کسی لڑکے جانے پر پریشان نہ ہوں، ایک اشارے پر لڑکے اور رکشے بہت آجاتے ہیں، چوائس آپ نے کرنی ہے۔ زندگی کسی کے آنے شروع تو ہوسکتی ہے مگر کسی کے جانے پر ختم نہیں ہوتی۔
میں نے آج تک جتنے ناول پڑھے ہیں اور جتنی فلمیں دیکھی ہیں ان میں ہیرو کبھی خود کشی نہیں کرتے۔ خود کشی ہمیشہ بزدل کرتے ہیں۔ ذہنی مریض کرتے ہیں۔ ناشکرے کرتے ہیں۔ اس حدیث کو نہ جاننے اور نہ ماننے والے کرتے ہیں کہ انہیں پھر ایسی ہی موت بار بار دیکھنی پڑے گی، ہائے، اب تو گھبراکے کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟