میں نعیم میر کو برسوں بلکہ عشروں سے جانتا ہوں جب اس نوجوان نے مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے تاجر سیاست کا آغاز کیا۔ دیکھتے دیکھتے یہ صورت بن گئی کہ مال روڈ کے پرانے اور تجربہ کار تاجر سیاست میں اس سے مار کھانے لگے۔ یہ نعیم میر کی ہی ٹریڈرز ایسوسی ایشن تھی جو لاہور ہائی کورٹ گئی اور مال روڈ پر جلسے جلوسوں پر پابندی لگوائی۔ جماعت اسلامی کا بیک گراونڈرکھنے والے نعیم میر نے میرے دیکھتے ہوئے ہی نواز لیگ جوائن کی اور پھر چھوڑ بھی دی۔ تحریک انصاف جوائن کی اور پنجاب کے صدر جناب اعجاز چوہدری کی ترجمانی سنبھالی اور پھرتحریک انصاف بھی چھوڑ دی۔ موصوف کچھ عرصہ پہلے انگلینڈ گئے اور سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ملاقاتوں کی تصویریں خوب شئیر کیں اور اس وقت بھرپور طریقے سے تاجر سیاست کر رہے ہیں تاہم جب ہارن بجاو حکمران بچاو تحریک کے احتجاجی کیمپ میں وزیراعظم عمران خان کو بحران خان کا نام دے رہے تھے تو ان کی سیاسی پسند ناپسند واضح ہو رہی تھی۔ نعیم میر مال روڈ کی تاجر سیاست سے قومی تاجر سیاست کا حصہ بن چکے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ موجودہ دور میں ہونے والی ایک سے زائد ملک گیر ہڑتالوں کی ڈرائیونگ سیٹ بھی انہی کے پا س تھی۔
میں نے نعیم میر سے پوچھا، آپ کو تحریک انصاف کی حکومت میں خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں، حکومت نے تقریبا تین بجٹ دے دئیے ہیں، ان تین بجٹوں میں کچھ تو اچھا کیا ہو گا، کوئی تو ریلیف دیا ہو گا، تو انہوں نے گیند میری کورٹ میں پھینک دی، بولے، آپ ہی بتا دیں کہ تاجروں کے لئے یہ اچھا کام ہوا ہے۔ پارٹیاں تبدیل کرنے کی بات کر تے سن کر نعیم میر نے کہا کہ مجھ پر تنقید نہ کریں بلک مجھے کریڈٹ دیں کہ میں نے جس پارٹی کو بھی چھوڑا اسے اس کے اقتدار میں چھوڑاجبکہ ہمارے ہاں کلچر یہ ہے کہ مفاد پرست اپوزیشن کو چھوڑ کر حکومتیں جوائن کرتے ہیں۔ بہرحال کوئی بھی سیاسی نظریہ رکھنا کسی کا ذاتی اور بنیادی حق ہے لہذا یہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ ایک فرد اپنے معاشرے اور کمیونٹی کے لئے کتنا بھرپور اور فائدہ مند کردارادا کر رہا ہے۔ میں نے ہارن بجاو حکمران جگاو تحریک بارے بھی پوچھا کہ جناب، اب ایسی کیا مصیبت ہو گئی کہ اس قسم کی مہم جوئی کی ضرورت پیش آ گئی، مان لیا، حالات اچھے نہیں ہیں، کاروبار بند ہیں مگر یہ کاروبار حکومت نے کرونا کی وجہ سے بند کئے ہیں۔ اس کا جواب یہ تھا کہ ہمیں کرونا اور کاروبار کے درمیان توازن پیدا کرنا ہو گا کیونکہ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں بلکہ اس وقت ہماری معیشت کو ریورس گئیر لگا ہوا ہے۔ ہماری جی ڈی پی سکڑ رہی ہے اور گروتھ ریٹ منفی میں جا چکا ہے۔ حکومت کرونا پر سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز کی بات کرتی ہے مگر حکومت نے بہت ساری بند صنعتوں اور کاروباروں کو کھولنے کے لئے کوئی ایس او پیز تک نہیں بنائے۔ ان صنعتوں اور کاروباروں کے ساتھ ہزاروں اور لاکھوں نہیں بلکہ مجموعی طور پر کروڑوں محنت کش وابستہ ہیں۔ عمران خان بار بار غریب مزدور کی بات کرتے ہیں مگر غربت کبھی بارہ ہزار روپے کی خیرات سے ختم نہیں ہوسکتی، اس سے ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں۔ ضرورتیں صرف کمائی سے پوری ہوتی ہیں، خوشحالی ہمیشہ کاروبار سے آتی ہے۔
میرا سوال یہ بھی تھا کہ آپ لوگ حکومت پر دباو بڑھانے کی بجائے ٹیکس ادا کرنے کی مہم کیوں نہیں چلاتے۔ تاجر، صنعتکار، امپورٹر اور ایکسپورٹرز زیادہ سے زیادہ ٹیکس دیں تاکہ قومی خزانے میں رقم جائے جس سے حکومت عوامی فلاح کے منصوبے بنا سکے، تعمیر و ترقی کے پراجیکٹس شروع کر سکے۔ مجھے ا س کا جواب ہوٹل انڈسٹری کی طرف سے ملا۔ بتایا گیا کہ حکومت نے ہوٹلز میں کھانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پنجاب ریونیواتھارٹی کو ہر مہینے ہوٹلوں سے جو انتیس کروڑ روپے کا ٹیکس مل رہا تھا اس کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اب ہوٹل انڈسٹری ایسی ہے جسے بہت آسانی کے ساتھ کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے کھولا جا سکتا ہے یعنی حکومت نے صرف ہوٹلوں سے ساڑھے تین ارب روپوں کے لگ بھگ ٹیکس کا راستہ بند کر دیا۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ صرف ٹیکس کلیکشن ہی بند نہیں ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ویٹر جو ہوٹل میں دس، پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر ملازم تھے اور کھانا کھانے والوں سے ہر روز اوسطا تین سے پانچ سو روپے ٹپ کے کما کر اپنی ضروریات پوری کر لیتے تھے وہ ہوٹل والوں کی تنخواہوں سے بھی گئے اور اس ٹپ سے بھی گئے جو کھانا کھانے والے دیتے تھے۔ اب جہاں ٹیک اوے، چل رہا ہے وہاں اسے کچھ تنخواہ تو مل جائے گی مگر لفافے میں کھانا لے جانے والا ٹپ تو نہیں دے گا۔
جس وقت ہارن بجاو حکمران جگاو مہم کے سلسلے میں لاہور پریس کلب کے باہر کیمپ لگا ہوا تھا جس کی حمایت انجمن تاجران پاکستان اشرف بھٹی گروپ کے ساتھ ساتھ جیولرز، کار ڈیلرز، ہوٹل مالکان وغیرہ وغیرہ بھی کر رہے تھے تو اسی وقت پریس کلب کے اندرقابل صد احترام خالد پرویز پریس کانفرنس کر رہے تھے اور ہارن بجا کر حکمران جگانے کے نعرے کو ڈرامے بازی قرار دے رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ودہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے جو تحریک انہوں نے چلائی کوئی دوسرا نہیں چلا سکا اور پچاس ہزار پر شناختی کارڈ کی شرط ایک لاکھ پر گئی اور اب وہ ٹھوس حکمت عملی اور ٹیبل ٹاک سے اسے ختم بھی کروائیں گے۔ ابھی چند روز قبل میرے پیارے دوست ملک وقار احمد، جو کہ اس وقت چئیرمین مارکیٹ کمیٹی لاہور ہیں، نعیم میر کی سیاست کو رنگ بازی کہہ رہے تھے مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ تاجروں کے مسائل کی نوعیت سے ضرور ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ہارن بجا کے احتجاج کرنا بہرحال ایک جدید، مہذب اور جمہوری طریقہ کار ہے۔ میرایہ بھی ذاتی خیال ہے کہ خالد پرویز تاجر سیاست کا ایک بڑا نام ہے اور اگر وہ اس مہم کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس موقعے پر خاموش رہتے۔ احتجاج وہ شے ہے جس کا نیا نصاب خود جناب عمران خان نے تیار کر کے قوم کی اس میں تربیت کی ہے۔
میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہارن بجانے سے اس ملک کے حکمران جاگ جاتے ہیں جس کی معیشت تباہی سے دوچار ہے، جس کے ایک کروڑ اسی لاکھ شہریوں کو بے روزگارہونے کا خدشہ ہے اوراس میں سے بڑی تعداد اس کا شکار ہو بھی چکی ہے تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس وقت جو صورتحال بن چکی ہے اس میں ہارن بجانے سے حکمران جاگیں گے۔ انہیں جگانے کے لئے اپوزیشن کی پارٹیوں کی طرف سے ایک متفقہ اور مشترکہ تحریک کی ضرورت ہے جس کی فوری طور پر کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن والے سوچ رہے ہیں کہ عوام کو ایک مرتبہ تبدیلی کا پورا مزا آجائے اس کے بعد دیکھیں گے۔ کیا یاد آیا، اب ہمارے درمیان بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان بھی موجود نہیں۔ جن کے نکلسن روڈ کے ڈیرے پر اپوزیشن کی فکری آبیاری ہوا کرتی تھی۔ ہم وہا ں چائے کا کپ پیتے تھے اور چائے کے ہر کپ میں ایک سیاسی طوفان ہوا کرتا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نہ کرنے والے ٹھنڈے سیاستدانوں کو بھی ایسے گھیر کر تحریک کی طرف لایا کرتے تھے کہ سب عش عش کر اٹھتے تھے۔ نعیم میر، کل صبح نو بجے لاہور سے رخصت ہو کر شام چار بجے زیرو پوائنٹ سے پاں پاں کرتے ایوان وزیراعظم پہنچ جائیں اورایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر کے حکمرانوں کی جگانے کی کوشش کریں۔ میں اس دوران یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت حکمران زیادہ نااہل اور نکمے ہیں یا اپوزیشن ان سے بھی آگے کی شے ہے۔