منگل کے نیوز نائیٹ، کا موضوع تھا کہ کورونا کے مریضوں کے ٹیسٹوں سے لے کر جاں بحق ہونے والوں کے کفن دفن تک کے لئے قواعد و ضوابط بنانے کی ذمے دار حکومت کہاں ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی بتا رہے تھے کہ تمام مہذب ممالک میں کرونا کا ٹیسٹ نو سے دس ڈالرز میں ہو رہا ہے یعنی تقریبا سولہ سو روپے میں۔ مجھے شہبا زشریف یاد آ گئے جو اس وقت دو، دو بلاوں سے چھپتے پھرتے ہیں ایک کرونا اور دوسری نیب۔ شہباز شریف نے ڈینگی آنے پر اس کے ٹیسٹ کی فیس نوے روپے مقرر کر دی تھی اور مجھے پی ایم اے لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی بتا رہے تھے کہ اس وقت بھی اگر سی بی سی کروانے کے لئے نسخے پر یہ لکھ دیں کہ یہ ڈینگی ٹیسٹ ہے تو اس کے نوے روپے ہی چار ج ہوتے ہیں اور اگر ڈینگی نہ لکھا ہو تو ساڑھے سات سو روپے۔
اب سوال یہ تھا کہ جب بیرونی دنیا میں یہی ٹیسٹ ڈیڑھ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دو ہزار روپوں میں ہو رہا ہے تو پاکستان میں اس کی قیمت ساڑھے آٹھ ہزار روپوں سے کیوں شروع ہو رہی ہے۔ اس سوال کا جواب تو جناب اسد عمر کی قیادت میں این سی او سی ( نیشنل کمانڈ آپریشن سنٹر) ہی دے سکتا ہے جو اپنے اجلاسوں میں عوام کو ریلیف دینے کے سوا نجانے کیا، کیا ڈسکس کرتا ہے۔ میں پوچھ رہا تھا کہ حکومت نے چار، پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ٹیسٹوں کی زیادہ سے زیادہ فیس مقرر کیوں نہیں کی اور اسی طرح جو وینٹی لیٹر پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایک، ایک لاکھ روپے روزانہ کی بنیاد پر لگائے جا رہے ہیں ان کے لئے بھی چارجز کی کوئی حد مقرر کیوں نہیں ہوئی۔ کرونا ایک نیا مرض تھا جس کی تشخیص سے صحت یابی یا موت تک ہر مرحلے پر ضابطوں کی تشکیل کی ضرورت تھی مگر اس کے برعکس یہ ہوا کہ حکمرانوں کے بنائے ہوئے مقدس ہسپتال کو ہزاروں کی تعداد میں کرونا کی تشخیص کرنے والی کٹس مفت فراہم کر دی گئیں اور وہ ملک میں غالباً آغا خا ن کے بعد سب سے زیادہ چارجز لے کرٹیسٹ کرنے والے ہسپتال کے طور پر سامنے آیا۔ ٹیسٹ کرنے میں سیاست یہاں تک رہی کہ وہ مشہور لیب جس نے سابق وزیراعطم نوا ز شریف کی ٹیسٹ رپورٹ میں سیاسی بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا تھا کہ باہر سے حرام کا مال واپس لے آو، کو بھی ہر قانونی اور غیر قانونی سہولت فراہم کر دی گئی۔ اس لیب کے ذمے داروں کا کہنا تھا کہ وہ ایک دن میں تین سو ٹیسٹ کر سکتے ہیں مگر پھر یہ ہوا کہ وہاں پانچ، پانچ سو لوگ پہنچے تو ان ہی کے ملازمین تین، تین ہزار میں ٹیسٹ کا ٹوکن بلیک کرنے لگے یعنی آپ کی باری تب آئے گی جب آپ ٹوکن بلیک میں خریدیں گے، آپ کو پرانے دور میں سینما گھروں کے باہر ٹکٹیں بلیک کرنے والے یاد آ گئے ہوں گے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں ا پنے پیاروں کو نوازنے کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں شہباز شریف کے بنائے ہوئے پی کے ایل آئی، کوسٹیٹ آف دی آرٹ علاج گاہ ڈیکلئیر کر دیا گیا مگر یہاں ڈیلی ڈان کے آصف چودھری کی سٹوری ہے کہ وہاں صرف وزیر صحت یاسمین راشد کی پرچی پر مریض لئے جاتے ہیں۔ جب سرکاری ہسپتالوں میں ایک بھی بیڈ خالی نہیں تھا تو پی کے ایل آئی واحد علاج گاہ تھی جہاں سفارشی مریضوں کوہنگامی بنیادوں پراکاموڈیٹ کرنے کے لئے بیڈز خالی رکھے جاتے تھے اور میں نے کم از کم اپنی زندگی میں اس سے پہلے اس طرح ایک سے دو پاکستان بنتے نہیں دیکھے تھے۔ ایک عام غریب کمی کمین پاکستانیوں کا پاکستان تھا اور دوسرا نیا پاکستان بنانے والے طاقت ور لوگوں کا پاکستان۔
منگل کے نیوز نائیٹ، کے بعد ایک حکم نامہ جاری ہوا جس پر بدھ کی تاریخ اور دن درج تھا اوراس میں چین سے درآمد کی گئی کٹس پر کرونا ٹیسٹ کی فیس ساڑھے پانچ ہزار جبکہ روش اور ایبٹ کی کٹس پر فیس ساڑھے چھ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت یہی ٹیسٹ تین ہزار روپوں میں کرتی رہی ہے یعنی آپ اس بدترین صورتحال میں بھی سو فیصد یعنی اڑھائی سے تین ہزار روپوں تک کا منافع کمپنیوں کو دے رہے ہیں جبکہ عالمی سطح پر ریٹس دیکھے جائیں تو یہ منافع دو سو فیصد بن جاتا ہے کیونکہ ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت بھی ان کٹس پر ساٹھ سے ستر فیصد تک ڈیوٹی لے رہی ہے یعنی ریاست جو کہ ماں کے جیسی ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کی زندگی سے بھی کما رہی ہے، میرا یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ ماں سگی نہیں، سوتیلی ہے، اس کی گود میں یہ بچہ کسی نے ڈال دیا ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ تابوتوں اور قبروں کے ریٹ بھی فکس نہیں ہیں۔ ایک عام سا لکڑی کا تابوت سات، آٹھ ہزار سے کم میں نہیں ملتا اور اگر تھوڑی بہتر کوالٹی مانگ لیں یا منہ کے اوپر شیشے کی بات کر لیں تو قیمت اچانک ہی چار سے پانچ ہزار بڑھ جاتی ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ حکومت کو ہر شے کی زیادہ سے زیادہ قیمت مقرر کرنا چاہیے تھی جن میں پرائیویٹ ہسپتالوں کے وارڈز اور کمرے بھی تھے، ماسک اور سینی ٹائزرز بھی مگر مشکل کے اس وقت میں حکومت خود ان اشیا کو عطیہ کرنے والے بن گئی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پابندی کے باوجود چیریٹی کے نام پر ایکسپورٹ میں بڑا مال بنایا گیا ہوگا جیسے اس وقت تمام انسانی اور قومی تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن بنانے جا رہی ہے جس کی تفصیل انشا اللہ اگلے کالم میں بیان کروں گا۔
اس وقت حکومت تک یہی مشورہ پہنچانا ہے کہ جب آپ بیماری کو کنٹرول نہیں کر سکے اور آپ کو یقین ہے کہ جولائی میں بیس ہزار اموات ہوسکتی ہیں جن کی بڑی تعداد ظاہر ہے لاہور، کراچی وغیرہمیں ہی ہو گی تو آپ فوری طور پر ان شہروں میں نئے قبرستان بنائیں کیونکہ اس وقت دستیاب قبرستانوں میں مردے پر مردہ چڑھا ہوا ہے۔ پرانے قبرستانوں میں جگہ تقریباً ختم ہو چکی ہے باالخصوص کرونا کے مرض سے فوت ہونے والوں کے لواحقین شدید مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب آپ امریکہ، اٹلی اور برازیل وغیرہ کی مثالیں پیش کرتے ہیں تو وہاں جلائے جانے کے اکثریتی ٹرینڈ کے باوجود اجتماعی قبریں بنیں۔ بدگمانی ہے کہ کچھ سرکاری علما اس موقعے پر لاش کو جلانے کا فتویٰ بھی جاری کر دیں تاکہ حکومت اس مشکل سے بھی بچ جائے مگر میرا خیال ہے کہ آدھے سے زیادہ پی ٹی آئی والے بھی اس فتوے کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر حکومتی توقعات کے مطابق اموات ہو گئیں تو ہمارے ہاں بھی یہی حال ہوجائے گا کہ گاڑیوں میں میتیں پڑی ہوں گی۔ کوئی ان کے قریب نہیں جا رہا ہو گا۔ ڈیڈ باڈیز سخت گرمی میں ڈی فراسٹ ہو رہی ہوں گی لہذاجب حکومت اور کچھ نہیں کر سکی تو کم از کم یہ تو کردے کہ سرکاری زمینوں پرقبرستان بنا دے۔ کارپوریشن کی گاڑیوں کو میت گاڑیوں کا درجہ دے دے۔ بیکار بیٹھے سرکاری ملازمین کو وہاں قبریں کھودنے پر لگا دے تاکہ لوگوں کی اپنے پیاروں کی میتیں ٹھکانے لگانے میں جوتم پیزار نہ ہو۔ حکومت کی اب تک کی کارکردگی میں اس کام کوبھی زبردست اور وژنری سمجھا جائے گا اور سوشل میڈیا پر بہت سراہا جائے گا۔ حکومت اگر فوری طور پر جگہ نہیں تلاش کر سکتی تو شہباز شریف کے دور میں جدید قبرستان بنانے کی فزیبیلیٹی رپورٹیں بنی تھیں اور شائد خواجہ احمد حسا ن نے ان دو سے تین جگہوں پر ایسے قبرستانوں کے لئے جگہیں بھی مختص کروائی تھیں۔ جناب وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ لاہور کے اگلے دورے میں ان قبرستانوں کی افتتاحی تقاریب شیڈول میں رکھ لیں، ان کے فیتے کاٹ دیں۔