یہ بات بہت باخبر حلقوں کی طرف سے کہی جا رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ چند روز میں ایک مرتبہ پھر جناب فواد چودھری بھی ایسا بیان دے دیں، شیخ رشید اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں مگر ان سب کی کچھ حدود ہیں، وہ ان حدود سے باہر نکلیں گے تو کہیں اور سے بھی باہر نکل سکتے ہیں لہٰذا وہ دونوں گھر رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ جب باخبر لوگوں کی طرف سے مجھے یہ بتایا گیا تو میرا سوال تھا کہ غلطی کون سی ہوئی اور کہاں ہوئی۔ جواب حیران کن تھا کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف پر اتفاق رائے کا راستہ روک کر بہت بڑی غلطی کی۔ میں نے کہا، تاثر تو یہ ہے کہ اپوزیشن نے سینیٹ میں ایف اے ٹی ایف پرقوانین کا راستہ روک کر مقتدر حلقوں کو ناراض کیا ہے، ایک مرتبہ پھر وہ فاصلے پیدا کر لئے ہیں جوفوجی سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون سے پہلے تھے۔
علم ہوا، تصویر وہ نہیں ہے جو جناب عمران خان اپنے ٹوئیٹس کے ذریعے پیش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے اپنی کرپشن بچانے کےلئے قانون سازی رکوا دی، یہ بات باخبر حلقوں کے لئے بچگانہ اور مضحکہ خیز ہے اور اسے محض اپنے فالوورز کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لئے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تصویر یہ ہے کہ مقتدر حلقوں میں ملکی حالات کے بارے میں تشویش بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بیڈ گورننس اور معاشی بدحالی بہت ساری اہم جگہوں پر باقاعدہ طور پر ڈسکس ہونے لگے ہیں اور ایف اے ٹی ایف والا معاملہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ مذاکرات ہوئے اور جب منی لانڈرنگ کا ایشو آیا تواپوزیشن کی طرف سے کہا گیا کہ آپ منی لانڈرنگ کو اس میں ضرور شامل کیجئے مگر اس پرپہلے ہی سٹیٹ بنک آف پاکستان، ایف بی آر اور ایف آئی اے کو واضح اختیارات حاصل ہیں، اس میں نیب کو شامل نہ کیا جائے کیونکہ نیب کی غیر جانبداری اور ساکھ اپوزیشن کی نظر میں باقی نہیں رہی اور دوسرے اگر آپ نے منی لانڈرنگ کے نام پر کاروباری طبقے کو نیب کے ہتھے چڑھا دیاتو اس کے ملکی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ دو سے زیادہ فریقین میں ہونے والے مذاکرات کے دوران اپوزیشن کی ہربات مانی جا رہی تھی اور یہ بات بھی کہ نیب کے قوانین میں ایسی کوئی تر میم نہ کی جائے جس سے کسی بھی اپوزیشن کے رہنما کو کوئی فائدہ پہنچے مگر نیب کے ضوابط کو آئین اورملکی قوانین کے ساتھ ساتھ احتساب کے حوالے سے موجودبین الاقوامی قواعد کے مطابق کر دیا جائے۔ جب اپوزیشن کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی تو اس وقت کمرے میں آٹھ سے دس افراد موجود تھے اور اس بات کو بہت اہم لیا گیا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی تو اس بات پر اتفاق تھا کہ بات چیت جاری رہے گی اور ان تمام اختلافی نکتوں کا حل نکال لیا جائے گا مگر خرابی اس وقت ہوئی جب کسی اتفاق رائے کے بغیر ایوان وزیراعظم کی طرف سے زور دے کر ان قوانین کو ایجنڈے پر رکھوا دیا گیا۔
یہ بات بہت اہم لی جا رہی ہے کہ حکومت کی طرف سے بغیر اتفاق رائے کے قوانین کو ایجنڈے پر کیوں رکھوایا گیا، اس سلسلے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔ کیا حکومت بہرصورت یہ چاہتی تھی کہ یہ قوانین منظور نہ ہوں اور سوال یہ بھی ہے کہ وہ ایسا کیوں چاہتی تھی۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اس موقعے پر اہم حلقوں کی طرف سے جان بوجھ کر حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا ورنہ سینیٹ میں پانچ، دس ارکان کا ادھر ادھر ہوجانا کوئی غیر معمولی اور غیر روایتی واقعہ نہیں ہے۔ حکومت کو پیغام پہنچا دیا گیا کہ بہت ساری متنازع شقیں حکومت نے از خود مجوزہ بل میں شامل کی ہیں اور وہ نہ تو ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہیں اور نہ ہی وہ ملک میں کسی دوسرے حلقے کی خواہش اور ضرورت ہیں۔ حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسی بھی قانو ن پر اتفاق رائے پید اکرنا حکومت کی سیاسی اور اخلاقی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری کسی بھی دوسرے ادارے کو نہیں دی جا سکتی۔ حکومت نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ وہ ایسے ہر معاملے کو متنازع بنا دیتی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ بہت ساری غیر منطقی اور غیر حقیقی ہوائیاں اڑاتے ہیں۔
یہ ایک عجیب وغریب صورتحال ہے کہ جب معاملات بہت ہموار انداز میں چل رہے ہیں تو حکومت انہیں کیوں خراب کرنا چاہتی ہے۔ جب اپوزیشن کی طرف سے نہ تو کوئی احتجاجی مہم چل رہی ہے اور نہ ہی ایوان کے اندر کوئی تحریک عدم اعتماد ہے تو حکومت اس ماحول کو از خود کیوں خراب کرنا چاہتی ہے۔ کیا یہ بات اہم نہیں کہ یہ پرسکون اور ہموار سیاسی ماحول، بہرحال جناب عمران خان اور تحریک انصاف کی کاوشوں اور کوششوں سے ہرگز نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت نواز شریف کی واپسی کے معاملے کو بار بار ہوا دیتی ہے اور مریم نواز شریف کو ایک غیر علانیہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیب میں طلب کیا جاتا ہے جس کے بعد سیاسی ماحول گرم ہوجاتا ہے۔ کیا یہ طریق کار قبول کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے پاس دو برسوں کی کارکردگی میں کچھ بھی دکھانے کے لئے نہیں ہے لہٰذا وہ اپوزیشن پر حملوں کے ذریعے ماحول گرم کر دیتی ہے اور بات کارکردگی سے سیاست کی طرف چلی جاتی ہے۔ بہت سارے اداروں میں لوگوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ سوچنے کا انداز بھی بدل رہا ہے۔ اسی کی مثال لے لیجےے کہ کسی بھی سیاسی معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا حکومت کا کام ہے اوراس کے لئے باقاعدہ ہوم ورک کیا جاتا ہے مگردوسری طرف حکومت اپنی ہٹ دھرمی اور ناقص حکمت عملی سے پکی پکائی کھیر بھی ضائع کر دیتی ہے اور بات صرف سیاسی اتفاق رائے کے حصول کی نہیں جس کے ذریعے ایف اے ٹی ایف پر بہت ساری قانون سازی ہوچکی اور کبھی ایسا معاملہ نہیں ہوا بلکہ دیگر ملکی معاملات بارے بھی ہے جہاں حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ پرفارم کرے، انصاف کرے اور احتساب کرے جیسے چینی اور آٹے کے معاملات، مگر وہاں ڈیلیورنس زیرو ہے۔
سب یہ بات تسلیم کریں گے کہ ایف اے ٹی ایف جیسے حساس معاملے پر قانون سازی کرتے ہوئے اتفاق رائے کے ساتھ مسودہ قانون کا پیش کیا جانا حکومت کی ذمے داری تھی اور حکومت کی جلد بازی اور کوتاہی نے اس سلسلے میں عوامی سطح پر غلط مباحث کو جنم دیا ہے۔ اب ایک ہی حل ہے کہ اس پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور اس کے ذریعے قانون سازی کی جائے مگر یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہو گی اور یہ طریق کار معمول کے طور پر قانون سازی کے لئے استعمال نہیں ہوتایعنی جو گرہیں ہاتھوں سے کھولی جا سکتی تھیں حکومت نے اتنی سخت کر دیں کہ اب دانتوں سے کھولنی پڑیں گی۔ قارئین نے گزشتہ روز مریم نواز شریف کا اسلام آباد جاتے ہوئے بارہ کہو پر استقبال دیکھا ہو گا اوراس سے پہلے ٹھوکر نیاز بیگ لاہور پر مسلم لیگ نون کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم بھی آپ کو یاد ہو گا۔ مریم نواز شریف وہ ٹوئیٹر اکاونٹ جو بہت عرصے سے خاموش تھا یا چندیادگاری اور مبارکبادی ٹوئیٹس تک محدود تھاوہ بھی ان کی سیاسی سرگرمیوں کی طرح بحال ہوچکا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مریم نواز شریف کو متحرک ہونے کا موقع اور جواز کس نے فراہم کیا ہے، یہ پے در پے غلطیاں، بھی پی ٹی آئی حکومت کی ہی ہیں، ان پر تفصیل سے اگلے کالم میں بات کریں گے۔