یہ وہ لوگ تھے جو انتخابات کے انعقاد کے لئے شور مچا رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ ان کے لیڈر نے عوامی مقبولیت میں بھٹو اور نواز شریف تو کیا قائداعظم تک کے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں مگر دوسری طرف وہ انہی انتخابات کو رکوانے کے لئے ایک بھرپور اور منظم سازش کر رہے تھے، پوری منصوبہ بندی کے ساتھ، اس کے لئے وقت تک طے شدہ تھا مگر شاعر نے کہا ہے کہ مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
ہمارے پی ٹی آئی کے دوست بہت ہی معصوم منہ بنا کے پوچھ رہے ہیں کہ بھلا ریٹرننگ افسران پر عدم اعتماد کامطلب یہ کیسے ہوگیا کہ انتخابات ہی ملتوی ہوجائیں۔ مجھے یہ بات کہنے والی پی ٹی آئی کی حامی خاتون اینکر کیایکس، پر پوسٹ دیکھ کر ہنسی آ گئی۔ وہ مجھے اس چلتر بہو کی طرح لگی جس نے وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی اپنی ساس کو ملنے والی آکسیجن کی نالی پر اپنا پاوں رکھ دیا۔
جب ساس مر گئی اور ساتھ ہی اس کی سازش پکڑی گئی تو بولی، آکسیجن پائپ پر پائوں رکھنے کا مطلب یہ کیسے ہوگیا کہ میں اپنی ماں جیسی سا س کو مارنا چاہتی تھی، ایڈے تُسی ہُشیار، سوال یہ ہے کہ جب لاہور ہائیکورٹ بار بار رابطہ کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ افسران دینے سے انکار کر چکی ہو تو پھر الیکشن کمیشن نے انڈیا سے بندے لا کر تو الیکشن نہیں کروانے یا انجمن تاجران پاکستان سے تو بندے نہیں لینے، بیوروکریسی سے ہی لئے جائیں گے، ٹائیگر فورس سے تو نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت انتخابات کیوں نہیں چاہتی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آٹھ فروری کی تاریخ سے سارا حساب کتاب جوڑ لیا جائے۔ اس پارٹی نے ابھی تک امیدوار فائنل نہیں کئے اور ابھی ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آ رہے۔ ان کا تنظیمی ڈھانچہ بھی ٹوٹ پھوٹ چکا۔ وہ سٹہ بازجو ان پردس لگا کے سو کمایا کرتے تھے وہ اڑنچھو ہو گئے۔ الیکٹ ایبلز نے دوسری جماعتوں کا رخ کر لیا۔ مہم چلانے کے لئے خانصاحب تو ایک طرف رہے، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت تک موجود نہیں۔ ایسے میں یہ پارٹی الیکشن جیتنے کے لئے اسی گالم گلوچ بریگیڈ پر انحصار کیسے کر سکتی ہے جس کے ٹویٹر پر تو پچاس، پچاس تک اکاونٹ ہو سکتے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ ووٹ اپنا تو کیا پورے خاندان میں کسی کاایک بھی نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی تو انتخابات کروانا چاہتی ہے وہ انتخابات ملتوی کیوں کروائے گی تواس کا جواب تو آ گیا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے مفاد میں یہی ہے کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں، ایک نیا پھڈا پڑ جائے اور وہ عوام کو اس کی آڑ میں گمرا ہ کر سکے۔ چلیں، یہی بتائیں کہ بیوروکریسی سے لئے ہوئے آر اوز کے خلاف عدالت میں کون گیا، وہ عمیر نیازی تھا، پی ٹی آئی کامتحرک رکن، پی ٹی آئی کے حامی ایک جج کا قریبی رشتے دار۔ دوسرے یہ رٹ ایک ایسے جج صاحب کے پاس لگی جن کی مسلم لیگ نون سے دشمنی اظہر من الشمس ہے۔
میں بجلی کے بلوں کے حوالے سے فیصلے کا ذکر بھی کروں گا جس کے بارے چیف جسٹس نے بھی پوچھا۔ ان کے فیصلوں کی پوزیشن یہ ہے کہ صرف اسی فیصلے نے قومی خزانے کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان پہنچا دیا۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہیں سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور اس پر ایسا سکرپٹ بنایا گیا کہ ارطغرل اور عشق ممنوع لکھنے والا ڈرامہ نگار بھی پڑھے تو عش عش کر اٹھے۔
طاہر القادری نے اس یک رکنی انکوائری ٹریبونل کا بائیکاٹ کر دیا اور اسی ٹریبونل نے انکوائری رپورٹ میں طاہر القادری اور پرویز الٰہی کی بیان کی ہوئی کہانی ہی حقائق کے طور پر پیش کر دی، سبحان اللہ، سازش صرف کرداروں کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ وقت کے حوالے سے بھی تھی۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب الیکشن شیڈول آنے میں گھنٹوں کا ہی وقت باقی رہ گیا تھا اور دوسرے سازشی گروہ کو علم تھا کہ انتخابات کے حوالے سے واضح فیصلہ دینے اور تاریخ کا تعین کروانے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی چھٹیوں پر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ عین اس وقت فیصلہ دیا گیا اور اگر چیف الیکشن کمشنر روایتی طریقے سے اسے چیلنج کرتے تو یقینی طور پر کئی دن ضائع ہوجاتے۔
سازش کے لئے ثبوت کے لئے میں اپنے دوست ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان جناب صفدر شاہین پیرزادہ کا بیان پیش کرتا ہوں، انہوں نے فرمایا، اب دن نہیں بلکہ گھنٹے اہم ہیں، اب ایک لارجر بنچ بنے گا اور اگر اس میں سے کسی ایک جج پر بھی اعتراض ہوگیا تو بنچ ٹوٹ جائے گا۔ پھرنیا بنچ بنے گا۔ سیاسی پارٹیاں فریق بنیں گی۔ دلائل دئیے جائیں گے اور اس طرح دو، چار دن بھی گزر گئے تو شیڈول کی شرط کم از کم چوون دن پوری نہیں ہوسکے گی اور یوں انتخابات لازمی طور پر آٹھ فروری سے آگے چلے جائیں گے مگرمجھے انتخابی امور کے ماہر اور وزیراعلیٰ کے مشیر برائے قانون و پارلیمانی امور کنور دلشاد نے ایک روز پہلے ہی بتا دیا تھا چیف الیکشن کمشنر، سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔ جب آپ کچھ غلط کر رہے ہوتے ہیں تو میں کچھ نہ کچھ غلطی ضرور ہوتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحب نے بھی اپنی حدود کا خیال رکھے بغیر پورے پاکستان کے لئے ہی فیصلہ سنا دیایعنی پورے ملک میں ہی انتخابات کا عمل معطل کر دیا۔ مجھے چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب قاضی فائز عیسیٰ کی آئین اور جمہوریت کے ساتھ کمٹ منٹ کو سلام پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے فلائیٹ مس کر دی اور اس کیس کو فوری سماعت کے لئے مقرر کر لیا۔ سازشی ٹولے کا یہ ہرگز خیال نہیں تھا کہ ایسابھی ہوسکتا ہے۔ وہ آٹھ فروری کی تاریخ کو آگے کروانا چاہ رہے تھے اور چاہ رہے تھے کہ ایک مرتبہ تاریخ متنازع ہوجائے پھر آگے کی آگے دیکھی جائے گی۔
مجھے یہ بتانے میں بھی عار نہیں کہ جمہوریت اور انتخابی عمل کو ڈی ریل کرنے والی یہ غلط رٹ اسی شخصیت کی ہدایت پر دائر کی گئی جس نے عدت میں نکاح کا غلط فیصلہ کیا، جس تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی توڑنے کا غلط فیصلہ کیا، جس نے آرمی چیف کی تقرری رکوانے کے لئے لانگ مارچ کا غلط فیصلہ کیا اور جس نے نو مئی کو جی ایچ کیو سمیت دیگر فوجی تنصیبات پر حملوں کا غلط فیصلہ کیا۔
کیا دلچسپ بات ہے کہ عدلیہ سے آر اوز مانگنے والی یہی شخصیت 2013 میں عدلیہ کے دئیے ہوئے افسران پر آر اوز کے الیکشن کی پھبتی کستے ہوئے تحریک چلا چکی، اس وقت کے چیف جسٹس پر ہدایات دینے اورنگران وزیراعلیٰ پرپینتیس پنکچروں کا الزام لگا چکی اوریہی شخصیت2018 میں بیوروکریسی کے آر اوز کے کروائے ہوئے انتخابات کے بعد وفاق اور تین صوبوں میں حکومت سنبھال کرملک کا تیا پانچہ کرچکی۔ دونمبری، منافقت اور یوٹرن کی حد ہوتی ہے، کہاں سے آتے ہیں ایسے لوگ؟