میں اس کہانی کو خریدنے اور بیچنے میں دلچسپی نہیں رکھتا جس میں سٹریٹ جرنلزم کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں انتخابات کے التوا کے مطالبے کے ساتھ بارہ سینیٹروں نے جو قرارداد منظور کی ہے اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات ملتوی کروانے کی قرارداد منظور کروانا ہوتی تو ایوان میں چودہ نہیں توا س کی حمایت کرنے کے لئے چار، پانچ گنا سینیٹرز موجود ہوتے۔
اسٹیبلشمنٹ جو بھی کام کرتی ہے پوری تیاری کے ساتھ کرتی ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ چئیرمین سیینیٹ کی ایما پر آزاد منتخب ہونے والے سیینیٹر نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کی کوشش کی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس وقت انتخابات کے التوا میں کیا مفاد ہے؟ اس سوال کے جواب میں پریکٹیکل بات کروں، کیا نو مئی کے حملوں میں ملوث پی ٹی آئی اب کوئی خوف رہ گئی ہے تو زمینی حقائق ہیں کہ بالکل نہیں۔ یہ سوشل میڈیا کی پارٹی ہے۔ میں نے ٹوئیٹس پر اس پارٹی کے ایکٹیویٹس اور رپلائیز کا بغور جائزہ لیا ہے۔
سوشل میڈیا کے میدان میں بھی اس کی 80 فیصد تک اکثریت جعلی اکاونٹس کے ذریعے ہے۔ میں نے جمعے کی شام لاہور کے دل اچھرہ میں این اے 128 قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے انتخابی دفاتر کے افتتاح کی ایک سرگرمی پر پروگرام کے لئے گلبرگ سے سمن آباد تک کا سفر کیا۔ یہ مسلم لیگ نون کے رہنماؤں میاں محمد نعمان، مہر اشتیاق احمد اور چوہدری سلیم کے مسجد خضریٰ کے سامنے دفترکا افتتاح تھا۔
مجھے پورے علاقے میں پی ٹی آئی کا نہ کوئی دفتر نظر آیا اور نہ ہی کوئی جھنڈا حالانکہ یہ علاقہ میاں اسلم اقبال جیسے پوٹینشل کینڈیڈیٹ، کا تھا مگر وہ اب مفرور ہیں اور ان کے بھائی میاں امجد اقبال آزاد امیدوار ہیں۔ میری ٹیم نے بھرپور کوشش کی مگرپی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجا سمیت تینوں ممکنہ امیدواروں میں سے کوئی بھی رابطے میں نہیں آسکا۔ سمن آباد مین بلیوارڈ پر بھی صرف رانا مشہود احمد خان کے ہی بل بورڈز تھے، یہ حلقہ ساتھ میں گلشن راوی کی طرف نکل جاتا ہے۔
ایسے میں اگر ہم سوچیں کہ پی ٹی آئی کو ئی انقلاب برپا کر دے گی تو یہ دیوانے کا خواب ہوگا۔ اس وقت پارٹی کے پاس نہ روایتی امیدوار ہیں اور نہ ہی کوئی انتخابی مہم ہے۔ نہ لیڈر شپ ہے اور نہ ہی لوکل فنانسر ہے۔ انتخابات سوشل میڈیا پر نہیں لڑے جاتے کہ اگر سوشل میڈیا ہی طاقت ہوتاتو عمران خان کی حکومت ہی نہ ختم ہوتی، وہ گرفتار ہوتا نہ سزا ہوتی اور نہ ہی نااہل ہوتا۔
آئینی بات کروں، اب تک انتخابات کے التوا کے لئے بہرحال ایک آئینی جواز موجود تھا کہ مشرکا مفادات کی کونسل نے نئی مردم شماری کو لاگو کر دیا جس پر حلقہ بندیاں ہونی تھیں لیکن اب کسی بھی جواز پر انتخابات ملتوی ہوں گے تو اس کے لئے مارشل لا ہی درکار ہوگا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے دبنگ چیف جسٹس کے پاس ہے۔ وہ آئین، قانون اور اخلاقیات کے محافظ ہیں اور کبھی غیر آئینی کام کو جواز نہیں دینے دیں گے جیسے وہ کھل کر پرانے مارشل لاوں پر تنقید کررہے ہیں تو ایک نئے برقعہ پوش مار شل لا کی حمایت کیوں کریں گے۔
پارلیمانی بات کروں تو انتخابات کے التوا کے خلاف ا س وقت پوری قوم متحد ہے۔ یہ گیارہ، بارہ سینیٹرز کسی طور پر بھی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کہلانے کا حق۔ اب اگر ایسی کسی قرارداد پر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت تمام پارٹیوں کے سینیٹرز متحد ہو گئے تو یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے۔
سیاسی بات کروں تو اس وقت انتخابات کا التوا سوائے پی ٹی آئی کے کسی کے بھی مفا د میں نہیں ہے مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی نے برملا کہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کے باوجود انتخابات کے حق میں ہیں مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین کی طرف سے دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں موجودہ صورتحال میں انتخابات کو تباہ کن اور ایک مذاق کہا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیشہ کی طرح چئیرمین پی ٹی آئی کا یہ موقف بھی غیر سیاسی بلکہ احمقانہ ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا پی ٹی آئی کے لئے صورتحال زیادہ مشکل ہوتی چلی جائے گی۔ اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ جلد ازجلد الیکشن ہوں تاکہ وہ اپنی بچی کھچی طاقت کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔
انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑا پلئیر الیکشن کمیشن ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ عمر عطا بندیا ل کے بعد قاضی فائز عیسی کا سامنا کرنے والے الیکشن کمیشن کے سربراہ یا ارکان ایسی کوئی مہم جوئی کر سکتے ہیں۔ میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ایسی کسی موو کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن عدلیہ ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کھو بیٹھے گا اوراپنی حیثیت میں زیرو ہوجائے گا۔
پروپیگنڈہ بریگیڈ کا کہنا ہے کہ اسے مسلم لیگ نون اورجے یو آئی کی حمایت حاصل ہے تو موخر الذکر بارے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ایسے بیانات تواتر سے موجود ہیں مگر مسلم لیگ نون جس کو اقتدار تھالی میں رکھ کے پیش ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے وہ اس میں تاخیر کیوں چاہے گی۔ سینیٹ میں مشاہد اللہ خان مرحوم کے بیٹے افنان اللہ نے جو تقریر کی ہے اسے کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔
مریم اورنگزیب اس پر ٹوئیٹ کے ذریعے پارٹی پالیسی بیان کر چکی ہیں۔ یہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں نگرانوں کے دل میں کچھ اور مدت کے لئے نگرانی کے جھولے جھولنے کا دل کر رہا ہے مگر وہ اس خواہش کا برملا اظہار نہیں کر سکتے۔ وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی اس قرارداد کے پیش ہونے پر خاموش رہے اور پھر کہا کہ اس میں بیان کئے ہوئے مسائل درست ہیں۔ میں بھی ان سے اور جے یو آئی سے اتفاق کرتا ہوں کہ سخت سردی بھی ہے اور دہشت گردی بھی ہے مگر ان دونوں سوالوں کے جواب میں بھی کچھ سوال موجود ہیں، سردی پر یہ کہ ماضی میں فروری میں دو مرتبہ انتخابات ہوچکے جیسے 3 فروری 1997 کے انتخابات اور تب تو انتخابی مہم بھی روزوں میں چلی تھی اور دوسرا یہ کہ ہم پچھلے چار انتخابات دہشت گردی میں ہی کرواچکے ہیں بلکہ آج سے چودہ اور دس برس پہلے ہونے والے انتخابات تو بدترین دہشت گردی میں تھے۔
وزیر اطلاعات بھی کہتے ہیں کہ حکومت کو ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ یہاں چئیرمین سینیٹ کی تیزیاں چیک کریں کہ اقلیتی قرارداد، فوری عملدرآمد کے لئے بھی بھیج دی، ان سے گزارش ہے کہ ملک کو چلنے دیجئے، آگے بڑھنے دیجیے۔ یہ سال بہت اہم ہے۔
ہم ممکنہ طور پر ایک فوج، عدلیہ اور حکومت میں ایک زبردست کمبی نیشن بنانے اور ایک مضبوط بنیاد رکھنے جا رہے ہیں لیکن ا نتخابات کا التوا ہوا تو ایسا سیاسی عدم استحکام جنم لے گا جوان کنٹرول ایبل، ہوگا، خدانخواستہ ریاست کے لئے تباہ کن ہوگا۔