میں نے پڑھا، جب اسلام کے احکامات نازل ہو رہے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حیرت سے پو چھا کرتے تھے کہ کیا اسلام عورتوں کے لئے نازل ہورہا ہے مردوں کے لئے نہیں۔ یہ بات آج لبرلز کے پروپیگنڈے کے دور میں عجیب لگتی ہے جب وہ اسلام کو عورتوں کا دشمن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے دلائل میں عورتوں کے حقوق وہ ہیں جو مغرب دیتا ہے مگر اسلام اس وقت نازل ہو رہا تھا جب بعض قبائل میں بچیوں کوپیدا ہونے پر دفن کردینے کا رواج تھا، بیٹی کا پیدا ہونا ایک مصیبت اور ذلت سمجھا جاتا تھا، عورتوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، مرد جب چاہتے تھے طلاق دے دیتے تھے اور جب چاہتے تھے رجوع کرلیتے تھے مگر یہ امر بھی حقیقت ہے کہ اس دور میں بھی ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسی خواتین بھی موجود تھیں مگر عمومی اور اکثریتی بننے والی تصویر خوش کن نہیں تھی۔
میں نے کبھی اس بارے زیادہ نہیں سوچا مگر پھر جامعہ نعیمیہ کے مہتمم اور معروف عالم دین ڈاکٹر راغب نعیمی سے میری اک روز بحث ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے عورتوں کو صرف دو فرائض دئیے ہیں، پہلا یہ کہ جب ان کے شوہر انہیں بلائیں تو وہ ان کے پاس آئیں اور دوسرے جب شوہر گھروں سے باہر ہوں تو وہ ان کی غیر موجودگی میں عزت و عصمت اور مال و دولت کی حفاظت کریں۔ میں نے ڈاکٹر راغب نعیمی کو تعصب اور انتہا پسندی سے پاک، ایک منطقی سوچ رکھنے والا مذہبی سکالر پایا ہے۔ یہی بات میں نے شیعہ مکتبہ فکر کے عالم، مفکر اور استاد علامہ محمد حسین اکبر سے بھی پوچھی تو انہوں نے بھی یہی رائے دی یعنی اس پر شیعہ سنی اتفاق رائے تھا۔ دونوں اصحاب کا کہنا تھا کہ عورتوں پر ساس سسر تو ایک طرف رہے خود شوہر کے لئے کھانا پکانا، بستر لگانا اور گھر میں پوچا لگانا فرض نہیں ہے، ہاں، یہ اچھی روایات کا حصہ ضرور ہے جیسے حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ چکی چلاتے ہوئے آپ کے مبارک ہاتھوں پرچھالے پڑ جاتے تھے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ عورت پر یہ بھی فرض نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اولاد پیدا کرے تواسے دودھ بھی لازمی پلائے، عربوں میں اس کے لئے دایہ کا اہتمام کیا جاتا تھا، حق تو یہاں تک ہے کہ اگر عورت بچے کو دودھ پلائے اور وہ اس کا معاوضہ طلب کرے تو مرد پر ادائیگی فرض ہے۔ میرے دوستوں نے کہا کہ پھر عورت کا کام کیا ہے، مرد تھک ہار کرکما کے لائے اور عورت گھر کے کام بھی نہ کرے۔ میں اس پر بحث کرنے سے قاصر تھا کہ یہ احکام میرے نہیں تھے او رنہ ہی تشریحات میری تھیں، یہ تو اسلا م کے احکام ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی اس کی حکمت کو بہتر جانتے ہیں۔
جب آپ یہ اوپر والا پیراگراف پڑھتے ہیں تو کیا ذہن میں یہ نہیں آتا کہ عورت مارچ میں لبرلز درست پلے کارڈ اٹھاتے ہیں کہ اپنے موزے خود دھوو اور اپنا کھانا خود پکاؤ، جی ہاں، دونوں مکاتب فکر کے علمائے کرام نے کہا کہ اگر عورت کھانا نہیں پکاتی تو مرد پکائے یا کہیں سے پکا ہوا لائے کہ نان و نفقہ کی فراہمی اس کی ذمہ داری ہے، عورت کی نہیں۔ میں نے یہ سوال جب علامہ راغب نعیمی کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں فرق نیت کا ہے، وہ جس نیت سے یہ کہتے ہیں وہ اسلام کی نیت اور غرض نہیں ہے۔ میں نے جانا کہ اسلام مرد کو فضیلت ضرور دیتا ہے مگر سہولت اور عزت عورت کو دیتا ہے کہ جب وہ ماں بنتی ہے تو بیٹوں کے لئے اس کے پیروں تلے جنت رکھ دیتا ہے۔ میں نے یہ نکات جب کچھ لبرل دوستوں کے سامنے رکھے تو کہنے لگے تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ عورت اسلام میں آدھی ہے، اس کا جائیداد میں حصہ آدھا ہے، اس کی عدالت میں گواہی آدھی ہے مگر ان دو سوالوں کا میرے پاس موثر اور منہ توڑ جواب تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اسلام عورت پر کتنی معاشی ذمہ داری ڈالتا ہے یعنی گھر چلانے کے لئے اس کی ذمہ داری کتنی ہے، وہ زیرو ہے بلکہ زیرو سے بھی بڑھ کرکہ وہ گھر چلانے کے لئے مرد سے وسائل لینے کی حقدار ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کا وہ کون سا معاشی اور اقتصادی نظام ہے جو آپ پر ذمہ داری تو زیرو رکھتا ہو مگر حق میں آپ کو پچا س فیصد کا حصے دار بنادیتا ہو، یہ صرف اسلام ہے۔ یہ وہ دور تھا جب عورتوں، بیویوں اور باندیوں پر تشدد کوئی حیرت کی بات نہیں تھی اور اسلام نے عورت پر ایسی سختی حرام کر دی جس سے اس کے بدن پر نشان پڑ جائے۔ سب جانتے ہیں کہ عورتوں کی جلد مردوں کے مقابلے میں نازک ہوتی ہے۔ مرد کی جلد پر مکا بھی پڑ جائے تو اس کانشان نہیں پڑتا جبکہ عورت کا ہاتھ بھی ذرا زور سے دب جائے تو نشان پڑ جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے یعنی خلع کا حق دیا۔ اسلام نے مرد پر شرط لگا دی کہ اگراس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو دوبارہ اسے اپنے عقد میں نہیں لاسکتاجب تک وہ کسی اور سے شادی اور پھر علیحدگی اختیار نہ کرلے یوں صحابہ کرام پوچھتے تھے کہ کیا اسلام صرف عورتوں کے لئے اتر ا ہے تو کیا غلط پوچھتے تھے؟
ہاں، سوال رہ گیا کہ عورت کی گواہی آدھی ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ گواہی کوئی حق یا انعام نہیں بلکہ فرض او ر ذمہ داری ہے۔ اسلام نے ساڑھے چودہ سو برس پہلے اس کو آدھا کر دیا تو بوجھ ہی کم کیا۔ ایمانداری سے بتائیے، آج ایک نام نہاد مہذب ریاستی اور عدالتی نظام میں بھی آپ کو گواہی دینے کے لئے جانا پڑے تو کیا آپ کمفرٹ ایبل محسوس کریں گے۔ میں تو یہی کوشش کروں گا کہ میری جان چھوٹ جائے۔ آج بھی گواہی ایک مصیبت ہے، ایک دشمنی ہے۔ اسلام نے عورت سے اس مشکل کو کم کیا تو ظلم نہیں احسان کیاکہ ایک کی جگہ دو عورتیں ہوں تاکہ کسی ایک پر گواہی اوراس سے پیدا دشمنی کا وزن نہ آئے، ہاں، جہاں معاملہ صرف عورتوں کا ہو گا وہاں گواہی بھی صرف انہی کی ہوگی۔
واجب الاحترام علامہ محمد حسین اکبر اور برادرم راغب نعیمی کہتے ہیں کہ عورت اگر گھر کا کام کرتی ہے تو یہ اس کا مرد پر احسان ہے۔ میں بھی اپنی زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کہتا ہوں کہ اگر ایک عورت کماتی بھی ہے اور گھر کا انتظام و انتصرام بھی کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ایک گاڑی کے اس پہئے کو دوگنا چلاتے ہیں جسے ہم خود نازک کہتے ہیں، جس پر دین نے یہ ذمہ داری نہیں رکھی۔ کیا آپ اب بھی قائل نہیں ہوئے کہ اسلام عورتوں کے حقوق اور سہولیات کے لئے ہی اترا تھا، وہ بدنیت اور بدطنیت ہیں جو اسلام کو ان کے حقوق اور مفادات کے منافی سمجھتے ہیں۔