کیا یہ بات افسوسناک نہیں کہ سوشل میڈیا پر اسلامی نام رکھنے والوں کی بڑی تعداد توہین مذہب جیسے سنگین جرم میں ملوث ہو رہی ہے اور کرونا وائرس کے پھیلاو پر خانہ کعبہ میں طواف کی پابندی پر بھی ایسی پوسٹس نظر آ رہی ہیں جن میں خدا کی قدرت کو کھلے عام چیلنج کیا جارہا ہے۔ سوال کیا جار ہا ہے کہ اگر خدا کی ذات خود اپنے گھر کی حفاظت کرنے پر قادر نہیں ہے تو وہ کیا وہ سچا خدا ہے۔ میں یہ سوال کبھی نقل نہ کرتا اگر سوشل میڈیا پر اس کے لائیکس اور شئیرز نظر نہ آتے۔ یہ سوال کر کے سوشل میڈیا پر موجود ہماری نوجوان نسل کو مذہب کے حوالے سے کنفیوژ کیا جا رہا ہے اور دشمن کی سب سے بڑی چال ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو اپنے نظریات میں ابہام کا شکار کر وے۔ یہ کسی فصیل کی اینٹوں سے سیمنٹ نکال لینے جیسا ہے اور کسی دیوار سے بنیاد کھینچ لینے جیساہے۔
مذہب پر یہ حملہ کوئی نیا نہیں بلکہ جب بھی کوئی سائنسی تحقیق یا تخلیق سامنے آتی ہے تواسلام دشمنوں کی طر ف سے اسے مذہب کے ساتھ جوڑنے اور تقابل کرنے پر کام شروع ہوجاتا ہے۔ اس تنازعے کا بنیادی جواب یہ ہے کہ مذہب اور سائنس اپنے اپنے دائرہ کار میں دو بالکل مختلف ڈسپلن ہیں اور ایک کا دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں بنتا مگر اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ مذہب ہو یا سائنس، یہ دونوں انسانوں پر کام کرتے ہیں۔ میں اس دلیل کو مان لیتا اگر ہم کسی ایک سوال کا جواب صر ف سائنسز کے ہی تمام ڈسپلنوں اور ڈومینوں سے لے سکتے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور میتھ سب کی سب پیور سائنسز ہیں۔ لیکن کیا آپ کسی کار کی ولاسٹی، بیالوجی کی کسی تھیوری کی مدد سے معلوم کر سکتے ہیں اور اسی طرح کیا سلفیورک ایسڈ بنانے کا طریقہ الجبرے کے کسی فارمولے سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو سب آپ کو جاہل اور پاگل سمجھیں گے مگر حیرت ہے کہ جب مذہب اور سائنس کے درمیان اس قسم کے سوالات مشترک کا اشتراک کیا جاتا ہے تو آپ متاثر ہوجاتے ہیں۔
اب کنفیوژ کر دینے والا سوال یہ ہے کہ کیا میرے رب کی اتنی طاقت نہیں کہ وہ کرونا کو اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک سکے تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرا رب جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اسی کی ضمنی دلیل میں سوال سن لیجئے کہ اگر خدا ہی تمام خزانوں کا مالک ہے تو پھر پورے دل سے ایمان لانے والے، خشوع وخضوع سے نمازیں پڑھنے والے غریب کیوں رہ جاتے ہیں، وہ ان کو خزانوں سے کیوں نہیں نوازتا جس کے بندے ہوتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ ایمان کی تمام شرائط محض دنیاوی دولت کے لئے نہیں ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو ہر کوئی نمازیں پڑھ، پڑھ کے دولت مند ہوجاتا، انہیں ایک دیہاڑی کے طور پرلیتا اور پھر وہ جانچ کہاں جاتی جو رب نے اپنے بندوں کی کرنی ہے۔ اب واپس بنیادی سوال کی طرف آجاتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے خانہ کعبہ میں طواف بند ہو گیا، ایسا کیوں ہوا۔ میں اس سازشی تھیوری کی طرف نہیں جاتا جس میں کہا جارہا ہے کہ طواف کی بندش کرونا کی وجہ سے نہیں بلکہ سعودی شہزادوں میں اقتدار کی جنگ کی وجہ سے ہے کہ اگر میں اس سوال کی طرف جاوں گا تو سوال ہوجائے گاکہ کیا رب اس پر قادر نہیں کہ وہ اس سازش کے نتیجے میں بھی طواف کی بندش کو نہ روک سکے۔
اس کا شافی اور کافی جواب موجود ہے کہ میرے رب نے اس کائنا ت کو کچھ اصولوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور وہ اصول پوری کائنات میں بنی نوع انسان پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں۔ کرونا ایک وائرس ہے جس کا انسانی اجتماعات سے پھیلاو ہو سکتا ہے تو اس اصول کا اطلاق چین ہی نہیں بلکہ سعودی عرب میں بھی ہو گا اور ایران میں بھی۔ اگر آپ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوتے تو پھر سن لیجئے کہ اگر آپ اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی دنیا اور اس کے اصولوں سے مطمئن نہیں ہیں، خالق کائنات کے وجود کا ہی انکا رکرتے ہیں تو پھر آپ کے پاس کھلا موقع ہے کہ آپ اس کے مقابلے میں ایک ایسی دنیا بنا لیجئے جس میں آپ کی شاندار عقل کے بنائے ہوئے وہ اصول لاگو ہوں جو اس دنیا کی تمام کمی اور کوتاہی کا ازالہ کر دیں، جس پر کوئی تنقید نہ کر سکے کیونکہ آپ اپنے تئیں عقل کل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا تو ایک طرف رہی آپ ایک مچھر اور ایک مکھی تک تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں تو جب آپ کی یہ اوقات ہی نہیں ہے تو پھر آپ اپنی زبان کو کنٹرول کریں، بک بک بند کریں۔ دنیا رب العزت کے اصولوں کے تحت چلتی ہے اور جہاں وہ چاہتے ہیں اس پر استثنیٰ دیتے ہیں اور ایسے استثناوں کو ہی ہم معجزوں، کرشموں، رحمتوں اور برکات کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ جب بھی کسی توہین کرنے والے کو سماج یا قانون سزا دیتا ہے تو ایک طبقہ پنجے جھاڑ کے سامنے آجاتا ہے اور دامے درمے سخنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سزا پانے والا توہین میں ملوث نہیں تھا بلکہ وہ تو بہت ہی شریف اور ذہین آدمی تھا۔ نکتہ یہ ہے کہ یہ سوال اٹھانے والا احمد وقاض گورایہ نامی ملعون ہو یا دنیا بھر کی عبادت گاہوں کے ویران ہونے کی بات کرنے والا ثاقب الاسلام ( ہائے، اس کے نام میں بھی اسلام ہے) ان جیسے بہت سارے ہیں جو سوشل میڈیا پر دین کے حوالے سے شک پیدا کر رہے اور نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں جس کا انہیں کوئی حق نہیں ہے۔ سوال یہ کیا جاتا ہے کہ انہیں سوا ل کرنے کا حق کیوں نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ، انہی کے مانے ہوئے اصول کے تحت، آپ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے تو پھر میرا ایمان تو میری ناک سے بھی قریب ہے، میرے دل اور میری روح کے اندر ہے، آپ کو وہاں حملے کرنے کا کیا حق ہے۔ آپ اپنے عقیدے پر رہئے اور مجھے میرے پر رہنے دیجئے۔
کرونا وائرس بارے ہی سننا چاہتے ہیں تو سنیں، کیا یہ جہالت اور ناانصافی نہیں کہ کرونا وائرس پر اس مذہب کو نشانہ بنایا جائے جس کے نبی ﷺ نے، جو دنیا کی سب سے سچی اور عقل مندترین ہستی ہیں، آج سے چودہ سو برس پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ دن میں بار بار اپنے ہاتھ، پاوں، منہ اور کہنیوں تک بازو دھوتے رہو، اپنے حلق اور آنکھوں کو بھی پانی سے صاف کرتے رہو۔ جب کسی غلاظت اور گندگی سے دوچار ہوجاو تو اتنی جلد غسل کر کے طہارت حاصل کر لو جتنی دیر میں دوسری فرض نماز کا وقت ہو رہا ہو ورنہ وہ قضا ہوجائے گی۔ دنیا کے سب سے دانا شخص نے حرام اور حلال کی صورت بتادیا، یہ بتا دیا کہ مضر کیا ہے اور مفید کیا ہے۔ یہ وائرس چین کی مارکیٹ میں حرام کھانے سے شروع ہوا اور پھیلا ہے کسی عبادت گاہ سے یا اسلامی معاشرے سے نہیں۔
کیا یہ دلچسپ نہیں کہ وہ پوری مغربی دنیا جو مسلمان عورت کے نقاب کے خلاف متحد تھی اب ہر کسی سے کہہ رہی ہے کہ اپنا چہرہ چھپاو، نقاب پہنو۔ مجھے چند روز قبل جماعت اسلامی کی تکریم نسواں ریلی میں ایک خاتون کارکن کی کہی ہوئی بات یاد آگئی، اس نے کہا کہ جب یہ نقاب مجھے دھول، مٹی اور جراثیم سے محفوظ رکھتا ہے تو کیا یہ مجھے دوسروں کی گندی نظروں سے تحفظ نہیں دے گا۔ یہ سمجھنے کی بات ہے جس کی توفیق رب ہی دیتا ہے۔ اگر آپ حی علی الصلوة اور حی علی الفلاح کی صدائیں سننے کے باوجود اس کی طرف نہیں جاتے تو ان وجوہات بارے غور کیجئے کہ جب آپ دنیاوی وزیروں، بیوروکریٹوں، ججوں وغیرہ کے درباروں میں دوڑ، دوڑ جاتے ہیں تو آپ کا داخلہ شہنشاہوں کے شہنشاہ کے دربار میں کیوں بند ہے۔