پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹویٹس نے پروفائلز پر کاپی پیسٹ ہو رہا تھا، 76 سالہ باپ نے جسٹس میاں گُل اورنگزیب کے سامنے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دئیے۔ فیضان کے والد روسٹرم پر وکیل رضوان اعوان کے ساتھ آ کر کھڑے ہوئے، روتے ہوئے کہا جج صاحب ان سے پوچھیں کہ میرے بیٹے کا جرم کیا ہے؟
ہاتھ باندھ کر کہا کہ جج صاحب مجھے پھانسی پر لٹکانے کا حکم کردیں، میں 76 سال کا ہوں، میری بیوی 65 سال کی ہے، ہم دونوں پل پل مر رہے ہیں، فیضان کی ماں بیمار ہیں، شدید تکلیف میں ہیں، جب سے بیٹا جبری لاپتا ہوا ہے وہ بستر پر پڑ ی ہوئی ہیں، اور کتنا ظلم کرنا ہے ہمارے ساتھ، ہم مزید ظلم سہنے کے قابل نہیں رہے، انہیں کہیں اب بس کر دیں، کمرہ عدالت میں جذباتی ماحول۔
میں نے یہ پوسٹ کسی بھی ردوبدل کے بغیر پوری کی پوری نقل کر دی ہے۔ اس کے الفاظ بہت جذباتی ہیں اور ہمیں اس آئینی حق بارے بتاتے ہیں کہ کسی کو بھی گمشدہ نہیں ہونا چاہئے اور خاص طور پر جبری گمشدہ۔ جبری گمشدگی کی وکالت نہیں کی جا سکتی۔ اس تحریر نے مجھے بھی جذباتی کر دیا جس تحریر کو بہت ہی ماہرانہ انداز میں تحریر کیا گیا تھا مگر کیا گمشدگی ایک ایسا معاملہ ہے جس کا کوئی سیاق و سباق نہیں ہے؟
میں جبری گمشدگی کی نہ وکالت کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی دفاع مگر بطور سیاسی تجزیہ نگاراورکالم نگار میری مجبوری ہے کہ میں کسی بھی مؤقف کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں لے سکتا۔ پہلے تو کہ بتائیں کہ آپ کے فیملی اینڈ فرینڈز میں سے کتنے لوگوں کو اٹھایا گیا جو مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے تو میرا جواب ہے کہ ایک بھی نہیں۔ اب میں اس سے آگے بہت ہی سادہ سوال کرتا ہوں کہ ایجنسیاں کسی کو کیوں اٹھاتی ہیں تو اس کا اتنا ہی سادہ جواب ہے کیونکہ عدالتیں سزا نہیں دیتیں۔ ابھی برطانیہ میں مسلمانوں اور تارکین وطن پر حملے ہوئے۔
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عدالتیں رات کو بھی لگیں اور اس سے پہلے کہ خبریں پرانی ہوتیں، دنوں میں عدالتوں نے نفرت پھیلانے والوں کو سزائیں دے دیں اور اس میں نہ یہ دیکھا گیا کہ وہ کم عمر ہیں ا ور نہ ہی یہ کہ وہ کم عمر بچوں کے باپ ہیں۔ ہمارا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ ابھی چند ہفتے پہلے گوادر کمپلیکس پر دہشت گردوں نے جدید اسلحے کے ساتھ حملہ کیا۔ جب حملہ آور وں کی شاخت ہوئی تو ان میں سے ایک وہ نکلا جس کی تصویر ماہرنگ بلوچ اپنے اسلام آباد کے دھرنے میں لے کر بیٹھی ہوئی تھی کہ یہ جبری گم شدہ ہے۔ پتا چلا کہ اس شخص کو ایجنسیوں نے اٹھایا تھا مگر شدید سیاسی دباؤ پر اسے رہا کر دیا گیا جس کے بعد وہ غائب ہوگیا۔ وہ اس وقت سامنے آیا جب لاشیں گر ا رہا تھا۔
اگر ماں، باپ اپنے بچوں کو تخریبی سیاسی سرگرمیوں سے نہیں روک سکتے تو پھر ان سے فلمی ڈائیلاگ بھی منسوب نہ کئے جائیں۔ میں پھر کہوں گا کہ میں جبری گمشدگیوں کا سخت مخالف ہوں مگر کیا آپ دہشت گردوں کی دہشت گردی کے حامی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے دئیے ہوئے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افسر اور جوان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کئے جا چکے ہیں تو کیا ان افسروں اور جوانوں کی کوئی بوڑھی مائیں اور جوان بیویاں نہیں، کیا ان کے کوئی معصوم بچے نہیں۔
گمشدہ افراد کے لواحقین کو تو اُمید ہے کہ ان کے پیارے واپس لوٹ آئیں گے مگر ان شہید ہوجانے والوں کی ماؤں اوربیوائوں کو توایسی امید بھی نہیں۔ آپ جبری گمشدگی کے واقعات کو جبری شہادتوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ میں ایجنسیوں اور سرکاری اداروں کا ترجمان نہیں ہوں لیکن جب آپ ان سے پوچھتے ہیں کہ تم نے ریاست کی بقا کے لئے، شرپسندوں کی جڑیں کاٹنے کے لئے، عوام کے امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے کیا کردارادا کیا تو پتا چلتا ہے کہ ہماری فوج اور ادارے تو اپنا کام کر رہے ہیں، ایک ایک دن میں دس دس آپریشن ہو رہے ہیں، وہ جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مگر جو مجرم پکڑے جا رہے ہیں ان دہشت گردوں کو عدالتوں سے برطانوی عدالتوں کی طرح فوری اور عبرت ناک سزاؤں کی بجائے آئینی، قانونی اور انسانی حقوق کے نام پر تحفظ مل رہے ہیں۔
پھر اداروں کے بڑے ان سے پوچھتے ہیں اور ان بڑوں سے حکومتیں، حکومتوں سے ایوان، صحافی اورعوام پوچھتے ہیں کہ اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود امن و امان یقینی کیوں نہیں بنایا جاتا۔ جب ان پر حملے ہوتے ہیں، جب وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں اور دہشت گرد کبھی عدالتوں کو دھمکیاں دے کر اور کبھی دوسرے حربے آزما کر تحفظ پاتے ہیں تو پھر لاشیں اٹھانے والے کیا کریں، کیا آپ جبری گمشدگی کے مقابلے یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں جبری شہید کیا جا رہا ہے؟