یہ اعلان ہوا تھاکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اورجمعیت العلمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان جامعہ اشرفیہ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب اور امامت کریں گے۔ جامعہ سے محترم حافظ اسعدعبیدنے اس موقعے پر مولانا کے ساتھ ظہرانے کی دعوت دی جو واقعی انتہائی پرتکلف اور مزے دار تھا۔ مولانا فضل الرحمان سے جامعہ میں بہت تابڑ توڑ بھی ا ور بہت گھماؤ پھیراؤ والے سوالات بھی ہوئے جن کے جوابات وہ گفتگوکی انتہائی مہارت اور سیاسی چابکدستی سے دیتے رہے یعنی پی ڈی ایم کی صدارت سے لے کر مسلم لیگ نون یا پیپلزپارٹی کی طرف سے ڈیل کرجانے تک کے سوالات مگر مولانا پکڑائی نہیں دئیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دینی سیاسی رہنماؤں کی اکثریت گفتگو کا ملکہ رکھتی ہے۔ مجھے علامہ شاہ احمد نورانی کی اُردو اورمنطق ہمیشہ متاثر کر تی تھی اوراس کے بعد سید منور حسن مرحوم کی بلاغت، ہم لاہوری جتنی مرضی اچھی اردو بول لیں، اس میں وہ لفاظی، حلاوت اوربہاو نہیں لا سکتے جو کراچی کے دوستوں کا خاصہ ہے۔
مجھے سیاسی رہنماؤںکی نسبت سیاسی کارکنوں سے گفتگو ہمیشہ مزا دیتی ہے کہ وہ لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ میں نے اپنے ساتھ جے یو آئی کے داڑھی والے ڈھیر سارے کارکنوں کامجمع لگا لیا جوتھوڑی ہی دیر میں گوجرانوالہ کے لئے روانہ ہونے والے تھے۔ سیاسی کارکنوں کو ان کی قیادت کے بارے الٹے سیدھے سوال پوچھئے اور پھر ان کے جذبات سے مچلتے اور غصے سے تڑپتے جوابات سنئے کہ ان کا الگ ہی مزا ہے۔ جیسے نواز لیگ والوں سے میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی بارے پوچھ لیا جائے یا پی ٹی آئی کے کارکنوں سے جناب عمران خان کی حکومت کی نااہلی کے متعلق۔ میں نے جے یو آئی کے کارکنوں سے کہاچونکہ مولانا فضل الرحمان خود اسمبلی میں نہیں ہیں لٰہذا وہ چاہتے ہیں کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت کوئی بھی اسمبلیوں میں نہ رہے۔ جے یو آئی کے کارکن یہ سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ مولانا الیکشن ہار گئے تھے وہ کہتے ہیں کہ تمام سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو علم ہے کہ مولانا کو ہرایا گیا ہے اور انہیں عام انتخابات کے بعد بلا کر کہا گیا تھا کہ وہ ضمنی الیکشن لڑیں، انہیں اسمبلی میں پہنچا دیاجائے گا مگر مولانا نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکا ر کر دیا۔ میں نے کہا، مولانا ہرائے جانے پر شدید غصے میں ہیں اور وہ اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں مگرکارکن کہتے ہیں، نہیں، وہ ملک کی سیاسی تقدیر بدلنے نکلے ہیں۔
میں نے ان سے کہا، یہ کیا بات ہوئی کہ مولانا خود تو اسمبلی کے رکن بھی نہیں اور اپوزیشن کے اتحاد کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں، کیا وہ میرٹ پر پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں تو جے یو آئی کے کارکن نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد دلاتے ہیں کہ کیا وہ اپوزیشن اتحادوں کے سربراہ نہیں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مولانا کے والدمولانا مفتی محمود بھی اپنے وقت کے ملک کے سب سے بڑے سیاسی اتحاد کے سربراہ تھے اور مولانا فضل الرحمان کو بھی یہ فضیلت اور اعزاز ورثے میں ملا ہے، وہ سب سے بہتر سیاست جانتے اورکرتے ہیں۔ مجھے اس پر ہنسی آئی مگر دباتے ہوئے پوچھا کہ اگر یہ سیاسی تحریک کامیاب ہو گئی تو اس کے نتیجے میں مریم نواز وزیراعظم بنیں گی یا بلاول بھٹو زرداری، مولانا تو وزیر ہی بن سکیں گے اورتم کارکنوں کو کیاملے گا تو اس کا مدلل جواب ملتا ہے کہ مولانا جس طرح سیاسی اتحاد کے سربراہ بنے اسی طرح وزیراعظم بھی بنیں گے۔ سیاسی کارکنوں نے یہاں پولیٹیکل وزڈم کا بھی مظاہرہ کیا اور کہا کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، اگر نواز لیگ یا پیپلزپارٹی کے ووٹ زیادہ ہوئے تو انہیں وزارت عظمیٰ لینے کا حق ہے۔ کارکن کہتے ہیں کہ ان کی تحریک کامیاب ہوئی تو انہیں مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں حقیقی جمہوری اور اسلامی پاکستان ملے گا۔ جے یوآئی والے تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ عمران خان ریاست مدینہ بنا رہے ہیں۔
میں نے جے یو آئی کے کارکنوں سے کہا، تم لوگ سب کے سب داڑھی والے ہو، تم سے ڈر لگتا ہے کہ اگر تم لوگ اقتدار میں آگئے تو طالبان کی طرح ایک بوتل ہاتھ میں ہو گی اور جس جس کی داڑھی چھوٹی ہو گی اسے تم کوڑے مار رہے ہو گے، وہ اس پر کہتے ہیں کہ یہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی سنت رسول ( ﷺ ) ہے اور اس کا رکھنا باعث برکت اورباعث ثواب ہے۔ جو داڑھی نہیں رکھے گا وہ رسول اکرم کی طرف سے پُرسش کا خودجواب دے گا اور شفاعت سے محروم رہے گا۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ تم سب کے سب مجھے مدرسوں کے لوگ لگتے ہو اور عام لوگ ڈرتے ہیں کہ باہرنکلے تو ڈنڈے لے کر دوسروں پر ٹوٹ پڑو گے، وہ مجھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی حال ہی میں ایک درجن سے زائد ملین مارچ کئے ہیں مگر کسی ایک گملا اور ایک سٹریٹ لائٹ نہیں ٹوٹی۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ تم مدرسو ں میں پڑھنے کے لئے آتے ہو یا سیاسی مارچوں میں شرکت کرنے کے لئے، مجھے
جواب ملتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کی تعلیم صرف اس لئے حاصل نہیں کرتے کہ اسے رٹ لیں بلکہ اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ اس کا نفاذ عملی زندگی میں اورمعاشرے میں کر سکیں۔ اگر وہ ایک حق اور سچ پر مبنی دینی معاشرے کے قیام کی جدوجہد ہی نہیں کرتے تو ان کا یہ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ جے یو آئی کے کارکن جنا ب عمران خان کی سیاست پر شدید تحفظات رکھتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ موجودہ حکومت بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت لائی گئی ہے۔ وہ یہاں عشروں پہلے شائع ہونے والی حکیم محمد سعید کی کتاب کا بار بار حوالہ دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے چیلنج دیا ہوا ہے کہ اگر ان کا عمران خان پر لگایا ہوا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہونے کا الزام غلط ہے تو انہیں عدالت میں بلائے، وہ ثابت کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بجٹ آئی ایم ایف بنا رہا ہو اور قانون سازی بین الاقوامی ادارے مانیٹر کر رہے ہوں تو ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں کسی ایجنٹ کی حکومت ہے۔ وہ میرے سوال کے جواب میں مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ پاکستان مدرسے کے پڑھے ہوؤں کا نہیں ہے، کیا یہ ملک صرف لبرل اور دین دشمن طبقے کی جاگیر ہے۔ وہ مجھے یاد دلاتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہوئی تھی جب تک پاکستان کامطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ نہیں لگایا گیا تھا اور پاکستان کا جھنڈا اس وقت ہی لہرایا جا سکا تھا جب قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمداقبال اور لیاقت علی خان کے ساتھ مدرسے والے علامہ شبیر احمد عثمانی شامل ہوئے تھے۔
جے یو آئی کے کارکن ملک کے اسلامی تشخص کے ساتھ ساتھ جو بات سب سے زیادہ کرتے ہیں وہ مہنگائی کے خاتمے کی ہے۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ آٹا، چینی اور پٹرول سمیت تمام مہنگی ہوجانے والی اشیا کے مافیاز پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر مولانا کی حکومت ہو گی تو کسی مافیا کو دادا گیری، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی جرات نہیں ہوگی کیونکہ مولانا دبنگ سیاستدان ہیں اوراتنے دبنگ ہیں کہ انہیں نیب تک بلانے کی جرات نہیں کرسکتا جس نے سابق وزرائے اعظم تک کوجھوٹے مقدمات قائم کر کے جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ نیب کی دی ہوئی اطلاعات کے مطابق مولانا کی اربوں روپوں کی جائیدادیں نکلی ہیں تو وہ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں پھر نیب سے کہو کہ بلائے مولانا کو اور ان سے پوچھے، وہ نہیں بلائے گا بس الزام ہی لگائے گا۔ جے یو آئی کے کارکن اپنے ویژن میں واضح اوراپنی قیادت پرپکا اعتماد رکھتے ہیں۔ میں آخرمیں صرف ایک بات کہوں گاکہ مولانا کے اپنے دیوبندی مدرسوں کے طالب علم توایک طرف رہے، آئین اور جمہوریت کے محافظ کے طورپرسامنے آکرمولانا نے لبرل ڈیموکریٹک حلقوں میں بھی اپنا ووٹراورسپورٹرپیدا کر لیا ہے۔