وزیراعظم محسن نقوی، کے عنوان اور موضوع پر کالم کے بعد دوست احباب کی کالز اور میسیجز کا لمبا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بیشتر وہ تھے جنہوں نے نگران وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پرخوشی کا اظہار کیا۔ کچھ دور دراز کے علاقوں کے دوستوں نے شکوہ کیا کہ کارکردگی کا محور لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد جیسے بڑے شہر نظر آتے ہیں۔
اساتذہ نے شکایت کی کہ تعلیمی نظام پر جیسی توجہ ہونی چاہئے تھی وہ نظر نہیں آئی، ان کی گفتگو میں اساتذہ کی کمی اور کنٹریکٹ پر بھرتی جیسے ایشوز بھی تھے اور اسی طرح کسان دوستوں کا گلہ تھا کہ یوریا کھاد کی فراہمی کے حوالے سے بڑے مسائل رہے۔ میں نے بتایا کہ میری اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ براہ راست اس بحران کی مانیٹرنگ کرتے رہے اورکچھ وزراء کی دی ہوئی اطلاعات کے مطابق وہ اس پر بھی روزانہ میٹنگ کرتے رہے۔
بہت ساروں کا سوال تھا کہ یہ آپ کی خبر ہے، تجزیہ ہے یا خواہش ہے تو جواب تھا کہ میں اسے اطلاع اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ ایسی کوئی بھی بات باقاعدہ صفحات پر تحریر کرکے اس کی فزیبیلیٹی نہیں بنائی جاتی۔ یہ تمام چیزیں ذہنوں، رویوں اور اقدامات میں ہوتی ہیں اور سیاست میں صرف لکھے ہوئے صفحات نہیں ہوتے۔ کیا اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف یا عمران خان کے لئے پلاننگ کمیشن نے کوئی پانچ، سات یا دس سالہ لانچنگ منصوبہ پیش کیا تھا، ایسا ہرگزنہیں تھا مگر ہر باخبر جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے اور کس لئے ہو رہا ہے۔
پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ابھی نوجوان ہیں۔ مجھے کہا گیا کہ وزیراعلیٰ خود کہہ رہے ہیں کہ ان کے سیاسی مقاصد نہیں ہیں تو مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے ان کے آئی کیو لیول کوسلام پیش کیا اور پوچھا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ کو یہ کہنا چاہئے کہ ان کے سیاسی مقاصد ہیں جس کے بعد نگران حکومت پر گالی گلوچ بریگیڈ ایک اور حملہ کر دے یا دشمن راہ کھوٹی کر دے۔ سمجھنا چاہتے ہیں تو اس سے سمجھیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ نہ ان کی اڑان کی منزل ہے او رنہ ہی ان کی صلاحیتوں کی انتہا۔
یہ بات نہیں کہ سب نے تعریف کی، بدتعریفی کرنے والے بھی تھے اور یہ کہنے والے بھی کہ پنجاب کی نگران حکومت ایک برس تک کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ یہ غیر آئینی ہے۔ میں ان کی بات سے بھی اختلاف نہیں کرتا مگر کیا یہ معاملہ عدالتوں کے طے والا نہیں ہے کہ اگر پنجاب کی نگران حکومت غیر آئینی ہے تو اس کے بدلے انتخاب ہونے سے پہلے کون سی آئینی حکومت ہو سکتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کچھ لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر محسن نقوی سے خار ہے۔ اس میں اس شخصیت کا بہت بڑا کردار ہے جو سپین میں بیٹھی ہوئی ہے اوراس نے سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی ناکامیوں اور خاندانی رنجشوں کا بدلہ پی ٹی آئی ٹرولز کے ذریعے لینے کی کوشش کی ہے۔ بھلے آدمی کو کہا تھا کہ گھر کے کپڑے گھر پر ہی دھوتے ہیں اور اپنی قمیض اوپر نہیں اٹھاتے اس سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ موصوف نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اپنے باپ کی زندگی بھی عذاب کر رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ذاتی رنجش نہ ہوتی تو پی ٹی آئی کی نگران حکومت کے ساتھ کوئی لڑائی ہی نہ ہوتی۔ میں روزانہ نگران وزیراعلیٰ کا اخبار دیکھ رہا ہوں، وہ لاہور کے کئی حلقوں سے پی ٹی آئی کے حق میں رپورٹنگ کر رہا ہے بلاشبہ وہ اور ان کا ادارہ غیر جانبدار ہیں۔ بہت ساروں نے پوچھا کہ اگر وہ غیر جانبدار ہیں تو زمان پارک پر کریک ڈاون کیوں ہوا تو جواب تھا کہ وہ ریاست کی طرف سے ایک گروہ کی مزاحمت کا جواب تھا، وہ عمل نہیں تھا ردعمل تھا۔
یہ سوال بھی ہوا کہ کب؟ کیا انہی انتخابات کے بعد قرعہ فال نکل آئے گا تو میں نے فون کالز پر ایسی باتیں پوچھنے والوں سے کہا۔ ذوالفقار علی بھٹو آٹھ برس تک ایوب خان کے وزیر رہے تھے اور پھر اس کے بعد بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ نواز شریف کی لانچنگ بھی اسی کی دہائی کے آغاز میں ہوئی تھی مگر آئی جے آئی بننے اور ان کے لیڈر بننے میں قریباً ایک عشرہ لگ گیا تھا۔ بانی پی ٹی آئی کو دیکھ لیا جائے، انہوں نے نوے کی دہائی میں لاہور میں پی ٹی آئی بنائی مگر یہ پہلے عشرے کا آخری سال تھا جب پرویز مشرف کی ٹیم کی طرف سے ان کی اور ان کی پارٹی کی سلیکشن ہوئی اور دوسرے عشرے کے پہلے سال کے دسویں مہینے کے آخری دن پہلا جلسہ۔ وہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات ہار گئے مگر اس کے بعد دھرنوں کا سلسلہ شرو ع ہوگیا۔
نواز شریف کو گھر بھیجا گیا اور انہیں اگلے وزیراعظم کے طو رپر پیش کیا گیا۔ ان کے وزیراعظم بننے میں نو، دس سال کا عرصہ لگ گیا مگر انہوں نے اس سے صرف ایک تہائی مدت میں اپنی نااہلی ثابت کر دی۔ میرا کہنا یہ تھا کہ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے جیسی بات نہیں ہوتی۔
سوال یہ بھی تھا کہ کیوں، تو اس کا جواب سب سے اہم تھا۔ کون اس حقیقت سے اتفاق نہیں کرے گا کہ پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ بحران معاشی بہت زیادہ ہے اوراس کے پیچھے پیچھے انتظامی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ اس وقت تمام محب وطن حلقوں کا پرائم ٹارگٹ، یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک کی غلطیوں کا ازالہ ہو چاہے وہ عدالتی میدان میں ہیں، سیاسی میں ہیں یا انتظامی میں۔ کسی کو شک ہے تو وہ پاکستان کے چیف جسٹس کی ترجیحات اور کامیابیاں دیکھ لے۔
مجھے یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ ملک کے واحد سب سے بہترین، منظم، محب وطن اور پروفیشنل ادارے نے پانچ شعبوں میں کام شروع کر دیا ہے جن میں ڈیفنس پروڈکشن پہلے ہی ان کے پاس ہے، دوسرے انہوں نے ملک میں کاروبار کو یقینی اور آسان بنانے کے لئے فیسی لیٹیشن کونسل بنا لی ہے تاکہ اقتصادی ترقی ہو سکے۔ باقی تین شعبوں میں کارپوریٹ فارمنگ، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ یہ وہ پانچ شعبے ہیں جو ملک کو اقتصادی طاقت بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑ ا پراجیکٹ ہے جسے ایسی شخصیات کے ساتھ ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے جو انرجیٹک، وژنری اور ایکٹو ہوں۔ وہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی میں اپنی ذاتی، سیاسی اور قومی توانائیاں ضائع کرنے والی نہ ہو۔
تاریخ گواہ ہے پاکستان کے عوام بھی ایسے ہی لوگوں کو اقتدار سونپتے ہیں۔ آپ افراد کے حوالے سے سمجھنا چاہتے ہیں تو کچھ ایسے ہے کہ اس میں ماڈل میں شہباز شریف اور محسن نقوی ہی فٹ ہوتے ہیں اور اگر آپ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسی شخصیات اس ماڈل کے ساتھ کانفلیکٹ میں ہوں گی تو ان میں عمران خان اور عثمان بُزدار کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایشیا کا شیر بننے جا رہا ہے اور اس کے لئے قیادت کا بیسٹ کامبی نیشن تیار ہو رہا ہے۔