کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہمیں ظلم اور ناانصافی کے خلاف بغیر رکے اور بغیر ڈرے جدوجہد کرنی چاہئے۔ امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہئے مگر پھر خیال آتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے دور سے یہ جدوجہد جاری ہے۔ ایوب خان اور اسکے بعد یحییٰ خان کے مارشل لا نے ملک توڑا تو پوری قوم کو ہوش آ گیا، قوم نے ایک متفقہ آئین بنا لیا مگر یہ ہوش شائد صرف سات برس کے لئے تھااور ان سات برسوں میں بھی ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے بھی اپنے مخالفین کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جو کوئی بدترین آمر کر سکتا تھا۔ اس کے بعد گیارہ برس کے لئے ایک اور مارشل لا ہمیں مل گیا۔ اس مارشل لا میں پیپلزپارٹی نے بھرپور جدوجہد کی مگر جب ضیاءالحق کا طیارہ فضا میں پھٹنے کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو پیپلزپارٹی بھی سمجھوتے کرنے لگی۔ نوے کی دہائی کو کسی طور پر بھی مثالی جمہوری دہائی نہیں کہا جا سکتا اور اس کے بعد پرویز مشرف کا مارشل لا آ گیا۔ میں اس کتابی بات کو بہت اہمیت دیتا ہوں کہ ہمیں آئین، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے کہ اس کے سوا زندگی کی معراج کیا ہے کہ آپ اعلیٰ ترین مقاصد کے لئے اسے خرچ کریں مگر میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ جن لوگوں نے ان ستر برسوں میں جدوجہد کر لی، وہ کیا بہتری لے آئے، ہم کبھی نقاب پوش مارشل لا کا سامنا کرتے ہیں اور کبھی ننگے مارشل لا کا، ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ایوب دور میں کھڑے تھے یوں کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہمیں اپنی ایک زندگی ایسی جدوجہد میں ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے جس کا نتیجہ زیرو بٹا زیرو ہو۔ کیوں نہ ہم اسے مال کمانے، شاعری پڑھنے اور محبتیں کرنے میں صرف کریں کہ ہم نے کون سا صدر وزیراعظم بن جانا ہے، بتائیں ذرا۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے، جب میں کسی بازار سے گزرتا ہوں، کسی رکشے، کسی سبزی اور کسی پھل والے سے بھاو تاو کرتے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ رکشے، ریڑھی یا پھیری والا دن میں بھر میں کتنے روپے کما کے لے جاتا ہو گا۔ وہ شخص جو کیلوں کی ریڑھی سبزی منڈی سے بھر کے لایا ہے اور اپنے جیسے پندرہ دوسروں کے ساتھ اسی بازارمیں ریڑھی لگائے کھڑا ہے اگر میں اسے اس کے منہ مانگے پیسے دے دوں گا تو میں غریب نہیں ہوجاوں گا مگر دوسری طرف یہ ضرور چند اضافی روپے اپنے گھر لے جائے گا تو ماں باپ کی دوا، بچوں کے کھلونے یا بیوی کے کپڑے لے جا سکے گا۔ میں سوچتاہوں کہ ریڑھی لگانے والوں یا رکشہ چلانے والوں کی لاکھوں اور کروڑوں کی جائیدادیں نہیں ہوں گی کہ اگر ہوتیں تو انہیں دن بھر خواری مکرنے کی کیا ضرورت تھی اور کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جب میں کسی ریڑھی اور پھیری والے کو منہ مانگے پیسے دیتا ہوں تو دراصل میں گراں فروشی کی سرپرستی کر رہا ہوتا ہوں۔ یہ بات درست ہوسکتی ہے کہ میرے پانچ، دس یا بیس روپے زیادہ دینے سے میں غریب نہیں ہوجاوں گا مگر اس کے نتیجے میں بہت سارے ایسے غریب وہ فروٹ نہیں خرید سکیں گے جو مہنگا بیچا جا رہا ہو گا اور اس طرح میں مہنگائی کی حمایت کروں گا۔ سبزی، پھل اور رکشے والا کسی غریب کو حقیقی نرخوں پر سودا نہیں بیچے گا کیونکہ اسے علم ہو گا کہ وہ احمق ابھی آ رہا ہے جس کی جیب میں زیادہ پیسے ہیں اور وہ انہیں انسانی ہمدردی کی بے وقوفی کے نام پر لٹانے کے لئے بھی تیار ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا یا عملی زندگی میں بدتمیزی کرنے والوں کو ان کی اوقات یاد کرواوں۔ جو مجھے سوشل میڈیا پر گالی دیتے ہیں جواب میں دو گالیاں اس کا حق ہے، عملی زندگی میں جو اوچھا پن دکھاتا ہے وہاں میرا حق ہے کہ اس کا منہ توڑ وں تاکہ وہ یا کوئی دوسرا ایسی جرات نہ کر سکے۔ میں لوگوں کی باتیں کیوں برداشت کروں کہ ہ کون سے میری پھوپھی کے پُتر ہیں اور کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہر بھونکتے ہوئے کتے کو پتھر مارنے شروع کر دئیے تو میں یہی کام کرتا رہوں گا، جی ہاں، میں سوچتاہوں کہ کتوں کے بھونکنے کے جواب میں اگر میں بھی وہی کام شروع کر دوں تو ان میں اور مجھ میں کیا فر ق رہ جائے گا۔ کتے تو چلتی ہوئی گاڑیوں کے پیچھے بھونکتے اور دوڑتے ہی رہتے ہیں تو کیا گاڑیاں کھڑی کر لی جاتی ہیں اور کتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئیے جاتے ہیں، یہ تو کوئی عقل مندی نہیں لہٰذا بھونکنے والوں کو بھونکنے دیا جانا چاہیئے اور ہمیں اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہئے۔ ایک خیال آتا ہے کہ میرے پاس لازمی طور پر اسلحہ ہونا چاہئے، مجھے بھی طاقت اوربدمعاشی کے ذریعے دوسروں کو دبا کر رکھنا چاہیے اور دوسرا خیال آتا ہے کہ یہ بدمعاش اور دس نمبرئیے آخر کار کتے کی موت مرتے ہیں، کیا فائدہ اس کا؟
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ زندگی موج اور مستی کے ساتھ گزارنی چاہئیے، سیرو تفریح بھی کرنی چاہئیے اور فلرٹ بھی، فلمیں بھی دیکھنی چاہئیں اورمُجرے بھی، دلیل یہ ہوتی ہے کہ زندگی ایک بار ہی ملی ہے اور اسے میں مولوی بن کے دوسروں کو نصیحتیں کرتے ہوئے گزار دوں، نتیجہ یہ نکلے کہ دوسرے مجھے دیکھ کر ہی راستہ بدلنے لگیں کہ آگیا کہ ہمیں بور کرنے والا۔ میرے پاس یہی ایک زندگی ہے اور اگر میں اسے روتے بسورتے گزار دوں گا تو اپنے ساتھ زیادتی کروں گا اور دوسروں کے ساتھ بھی مگر کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ زندگی مجھے دوبارہ نہیں ملے گی اور اگر میں نے اسے موج مستی اور گناہوں میں گزار دیا تو آخرت کے روز اپنے رب کو کیا جواب دوں گا۔ مجھے نماز پڑھنی چاہیئے، زکواة دینی چاہئیے، صلہ رحمی کرنی چاہئے۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ مجھے سخت محنت کرنی چاہئے اور دنیا میں کوئی مقام بنانا چاہئے کہ وہ کیا زندگی ہے جس میں دوسروں کی محتاجی ہو، کاسہ لیسی ہو، زندگی تو یہی ہے کہ ایک بہت اچھا گھر ہو، بہت اچھا روزگار ہو، بہت اچھی گاڑی ہو۔ جب کہیں جاوں توکم از کم دوچار لوگ آگے پیچھے سلام کرتے پھریں اور کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں یہ سب حاصل کر بھی لوں تو اس کا فائدہ کیا ہے کہ آخر کار میں نے مر ہی جانا ہے اور یہ بھی سیانے ہی کہہ گئے ہیں کہ تمہارا پیسہ وہی ہے جو تم نے پہن لیا، کھالیا یا اڑا لیا۔ میں بہت ساری جائیداد آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ جاوں چاہے ان میں بنی گالہ ہو یا جاتی امرا ہو، چاہے اس میں پاپا جونز کی سینکڑوں آوٹ لیٹس ہی کیوں نہ ہوں، میرے کفن کی کوئی جیب نہیں ہو گی اور رہ گئی بات اولاد کی تو اگر وہ لائق ہو گی تو وہ خود کما لے گی اور کھا لے گی اور اگر وہ نالائق ہو گی تو میں جتنا بھی چھوڑ جاوں گا وہ تباہ و بربا د کر لے گی۔ کبھی مجھے افریقہ کے کسی جنگل میں کسی ندی کے کنارے مچھلیاں پکڑتا وہ پیارا اور ذہین بچہ یاد آجاتا ہے جسے امریکی صدر اور خاتون اول نے دیکھا تو اس پر سوجان سے فدا ہوگئے۔ اسے پیشکش کی کہ وہ ان کے ساتھ امریکا چلے۔ بچے نے کہا کہ اگر وہ ان کے ساتھ چلا گیا تو پھر کیا ہوگا، جواب ملا وہ اسے اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے، سیاست میں لائیں گے اور امریکا کا صدر بنوائیں گے یعنی پوری دنیا پر تمہاری حکومت ہو گی۔ وہ بچہ بولا، یہ سب ہو گیا تواس کے بعد کیا ہو گا۔ یہ سوال سن کر امریکی صدر اور اس کی اہلیہ مخمصے میں پڑ گئے اور کہا، پھر تم واپس آجانا اور یہاں ندی کنارے باقی ماندہ زندگی مزے کے ساتھ مچھلیاں پکڑتے ہوئے گزارنا۔ وہ بچہ مسکرایا اور بولا جو کام میں نے اتنی سخت زندگی کے بعد آخر میں کرنا ہے وہی کام میں اب کر رہا ہوں، میں تمہارے ساتھ کیوں جاوں؟
تو پیارے قارئین! کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہم سخت محنت کریں اور بہت اچھے بن کے زندگی گزاریں تو ہم اس دنیا کو بدل سکتے ہیں اور پھر سوچتا ہوں کہ ہم سے پہلے جنہوں نے محنت کر لی اور بہت اچھی زندگی گزار کے چلے گئے انہوں نے کیا توپ چلا لی ہے جو ہم سے رہ جائے گی۔ آپ بتائیں مجھے کیا کرنا چاہیے کیونکہ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ۔۔۔