ہمارے ایک سینئر صحافی مقدمہ لڑتے رہے کہ پاکستان کی فوج پر حملہ کرنے والوں، جی ایچ کیو کی دیواریں پھلانگنے والوں، کور کمانڈر ہاؤس لاہور کو آگ لگانے والوں، میانوالی اور پشاور سمیت جگہ جگہ ہمارے امن اور تحفظ کے لئے بہادری سے جانیں قربان کرنیو الے عظیم شہدا کی یادگاریں تباہ کرنے والوں سے مفاہمت کی جائے۔ میں نے پوچھا، کیوں؟
میں نے اس لئے بھی پوچھا کیوں کہ بات صرف سیاسی نہیں بلکہ تباہ کر دی جانے والی سماجی اور خاندانی اقدار کی بھی تھی۔ سنا ہے وہ صحافی مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ اب ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور سینئر صحافیوں میں سے کسی نے قاضی فائز عیسی کو ثاقب نثار کہنا شروع کر دیا ہے اور کسی نے ثاقب نثار پرومیکس۔ آہ، ہمارے لیجنڈ اینکر ز حامد میر اوراقرار الحسن بھی صدیق جان کے لیول پر آ گئے ہیں۔
سینئر صحافیوں کو ایسے یوٹیوبر کی سطح پر آنا زیب نہیں دیتاجو ہر مقدمے کی سماعت کے دوران مسلسل توہین آمیز پوسٹس کرکے عدلیہ کے خلاف فضا بنا رہا ہے۔ عمران خان نے ایک سانحہ برپا کیا ہے کہ ہمیں قانون، دلیل اور منطق کی بجائے سویپنگ سٹیٹمنٹس کے پیچھے لگا دیا ہے۔ عمران خان نے کہا فلاں چور ہے اور فلاں ڈاکو، صبح و شام کہا اور بار بار کہا اورایک فیک سٹیٹمنٹ کو لوگوں کے دلوں میں گوئبلز تھیوری کے ذریعے راسخ کرکے رکھ دیا۔
یہی وہ دور ہے جس میں صحافیوں کو سویپنگ اور جنرل سٹیٹمنٹس سے باہر نکلنا ہے، حقائق کو ان عوام کے سامنے رکھنا ہے جو سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنا نہیں جانتے لیکن اگر محترم حامد میر اور برادرا قرار الحسن بھی بھاٹی چوک پر نیولے کے تیل کے ذریعے ابدی جوانی کا چورن بیچنے لگ گئے کیونکہ وہ رش لے رہا تھا اور کوالیفائیڈ فیملی فزیشن کا کلینک خالی پڑا تھا تو اس قوم کے امراض کا علاج کیسے ہوگا۔ میں بطور صحافی اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ اگر اس قوم کے ننانوے فیصد نے بھی جھوٹ بولناشروع کر دیا تو میں ایک فیصد کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اپنے ضمیر اورقوم کے مفاد کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
یہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں بلے کا نشان ملنا چاہئے تھا اور یہ کہ انتخابی نشان تو تمام جماعتوں کے ہی پاس ہوتا ہے۔ سویپنگ سٹیٹمنٹ کم آئی کیو لیول کو متاثر کر سکتی ہے مگر ایک صحافی کو اس سے گمراہ نہیں ہونا چاہئے، حقائق کا جائزہ لینا چاہئے۔
قاضی فائز عیسیٰ بارے زبان درازی کرنے سے پہلے اصحاب کو جواب دینا ہوگا کہ جب مئی 2021 سے پی ٹی آئی کو پارٹی انتخابات کروانے کا کہا جا رہا تھا، اسے غیر معمولی رعائیت دیتے ہوئے جون2022ء تک کا وقت دیا جا رہا تھا تو اس کی تنظیم اور قیادت کیوں سوئی ہوئی تھی۔ اسے الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ نوٹس جاری ہوئے، ایک سے زائد مرتبہ وارننگ دی گئی کہ اگر آپ نے انٹرپارٹی الیکشن نہ کروائے تو آپ انتخابی نشان سے محروم ہوجائیں گے۔
پی ٹی آئی اور اس پر قابض وکلا کے گروپ کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ گرم پانیوں میں ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے جعلی انتخابات کی حماقت کی۔ وہ انتخابات کے لئے پشاور کے نواحی علاقے چمکنی کے گاوں رانو گڑی (جس کا درست نام خود پی ٹی آئی والوں کوبھی معلوم نہ تھا اور سپریم کورٹ میں گانو گڑھی بیان کیا جاتا رہا) پہنچ گئے، یہ گاوں ابھی تک گوگل پر لوکیٹ نہیں ہو رہا۔ وہاں پر نہ کسی نے کاغذات نامزدگی لیے نہ جمع کروائے۔ اسی گاوں میں مرکز اور خیبرپختونخوا ہی نہیں پنجاب تک کی قیادت کافیصلہ ہوگیا۔ اب پی ٹی آئی والے مانتے ہیں کہ ان سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر وہ انہیں تکنیکی غلطیاں کہتے ہیں۔
اب آجائیں کہ کیا قاضی فائز عیسی کوثاقب نثار یا ثاقب نثار پرومیکس کہا جا سکتا ہے تو میرا خیال ہے کہ ایسی بات کہنے والوں کو توہین عدالت میں طلب کیا جانا چاہئے کیونکہ اگر ذمے دار لوگوں کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ سویپنگ سٹیٹمنٹس کا سلسلہ جاری رہا تو یہ قوم ہمیشہ گمراہ رہے گی۔ یوں بھی اس وقت جرأت اور کردار والوں کی تھڑدلوں اور کرپٹ لوگوں سے جنگ حتمی مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ میں جناب شوکت صدیقی اور جناب فائز عیسیٰ کو سلیوٹ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے خلاف جھوٹے الزامات پر ڈٹ گئے مگر دوسری طر ف کرپشن کی نشاندہی پر عزت قربان کرتے ہوئے لاکھوں روپے ماہانہ کی پینشن بچاتے ہوئے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔
مجھے مطلب کی بات پر آنے دیجئے، کیا قاضی فائز عیسی کو ثاقب نثار کہا جا سکتا ہے جس کی سپریم کورٹ میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے مضحکہ خیز جرم میں اس وقت کے وزیر اعظم کو نااہل کر دیا گیا۔ جس کے دور میں ریسیوایبلز، کو اثاثہ کہہ کے ڈیکلیئر کرنے کی تشریح بلیک لا ڈکشنری، سے نکالی گئی۔ سیاستدانوں کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا کہا گیا۔ مطلوبہ کالے نتائج کے لئے ماتحت ججوں پر مانیٹر لگائے گئے۔ جب ڈیم فنڈ لے کر انصاف بکتارہا جو بعد میں ڈیم فول فنڈ ثابت ہوا۔ جب عدالتوں میں سرینا ہوٹل سے لکھے فیصلے پہنچتے رہے اور کرنل شرنل عدالتوں سے نکلتے پکڑے جاتے رہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی اور اخلاقی حیثیت اتنی بلند ہے کہ ذاتی طور پر استقامت کی مثال بننے کے بعد انہوں نے تمام اہم مقدمات کی سماعت کو لائیو، کر دیا کہ وہاں بولا گیا ایک ایک لفظ اور ایک ایک دلیل قوم کی امانت ہے، اس تک پہنچنی چاہیے، یہ شفافیت کی انتہا ہے۔ وہ ایک ایک دلیل کا قانون کے مطابق جواب دیتے ہیں اور سب کے سامنے دیتے ہیں، یہ علم کی انتہا ہے، پرویز مشرف کی پھانسی کا فیصلہ بحال کر دیا، یہ ان کی جرأت کی انتہا ہے۔
مسنگ پرسنز کے معاملے کو قالین کے نیچے سے نکال لیا، یہ قوم پرستی کی انتہا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی، یہ انصاف پسندی کی انتہا ہے۔ انہوں نے بھٹو پھانسی ریفرنس کو زندہ کیا تاکہ عدلیہ کے ماتھے پر لگی نصف صدی سے زیادہ کی کالک کو دھویا جا سکے، یہ تدبر اور فراست کی انتہا ہے۔ وہ جس کے خلاف بھی فیصلہ دے رہے ہوں اس کی توہین نہیں کرتے، یہ اخلاق اور کردار کی انتہا ہے۔
دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہی دیکھ لیجیے جبکہ اسکے مقابلے میں ثاقب نثار کی عدالتی فعالیت سراسرتعصب پر مبنی تھی، ان کے سوو موٹو ہسپتالوں میں جا کے برتن کھڑکانے تک محدود تھے۔ اس سے ملا رہے ہیں جو فیصلے دینے کے لئے اس کے ڈیم فول فنڈ میں کروڑوں دینے کے مطالبے کرتا رہا، بلاشبہ وہ عدالتی، اخلاقی اور اقتصادی تباہی کا دور تھا سو خدا کا خوف کریں کہ آسمان کو زمین کے ساتھ ملا رہے ہیں۔
مجھے دہرانے دیجئے، کوئی صحافی حقائق کی بجائے سویپنگ سٹیٹمنٹ کے ساتھ نہیں جاتا۔ کوئی صحافی جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ کوئی صحافی اپنے ملک اور عوام پر حملہ آوروں کا سہولت کار، مددگار اور پشتی بان نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسا ہو تو پھر وہ صحافی نہیں ہوتا۔